اسٹاف رپورٹ
نو مئی کے واقعہ کے بعد مسلسل روپوش رہنے والے تحریک انصاف خیبر پختونخواہ کے اہم رہنما اور سپیکر کے پی اسمبلی مشتاق احمد غنی کا حلقہ پی کے 45 سے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ
کاغذات نامزدگی جمع کروا دیئے ، کاغذات مستر د ہونے کی صورت میں ان کی اہلیہ فرزانہ مشتاق متبادل امیدوار ہوں گی ۔واضح رہے کہ سپیکر خیبر پختونخواہ مشتاق احمد غنی کا شمار تحریک انصاف کے سینئر قائدین میں ہوتا ہے تاہم 9 مئی کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کے دوران قومی و دفاعی تنصیبات پر حملوں کے بعد جب تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈائون شروع ہوا تو وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے روپوش ہو گئے ۔اور کئی ماہ بعد ان کی برطانیہ میں موجودگی کی اطلاعات ملیں
خاندانی ذرائع کے مطابق اس وقت مشتاق احمد غنی برطانیہ میں موجود ہیں تاہم پاکستان میں موجود ان وکیل کامران احمد (نومی ) جو کہ پی ٹی آئی کے قانونی مشیر بھی ہیں نے ان کے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیئے ہیں ۔کیوں کہ مشتاق احمد غنی نے اپنا مختار کار اپنے بڑے بھائی الیاس غنی کو مقرر کررکھا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں
- تزئین شہر،ایبٹ آباد کے 16 ارب روپے کہاں خرچ ہونگے ؟
- وفاقی محتسب کو ملنے والی دو لاکھ سے زائد شکایات کو حل کردیا ،اعجاز احمد قریشی
- سپریم کورٹ : عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں مقدمات کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل
- مانسہرہ میں ایشیاء کی پرندوں کی سب سے بڑی افزائش گاہ کوجدید سہولتیں فراہم
جنہوں نے مشتاق احمد غنی کے کاغذات نامزدگی حاصل کئے اور حلقہ پی کے 45 ایبٹ آباد سے بطور امیدوار جمع کروائے ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مشتاق احمد غنی نے پاکستان واپسی کا ٹکٹ ہوچکا ہے اور اگلے ایک سے دو دن میں پشاور پہنچ سکتے ہیں ۔ لیکن اس میں ایک بڑی رکاوٹ ان کے پاسپورٹ کی تجدید بھی ہے جو زائدالمعیاد ہوچکا ہے جس کیلئے انہوں نے آن لائن درخواست دے رکھی ہے ۔اگر ان کے پاسپورٹ کی بروقت تجدید نہیں ہو پاتی تو ان کی واپسی میں مزید چند روز کی تاخیر ہوسکتی ہے ۔
ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے ان کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی ہے ۔تاہم اس کے باوجود انہیں دیگر مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
کاغذات مسترد ہونے یا واپسی میں رکاوٹ پر اہلیہ فرزانہ مشتاق متبادل امیدوار
بظاہر مشتاق احمد غنی کی انتخابات میں موجودگی کے امکان تو موجود ہے تاہم حتمی طور پر کوئی رائے نہیں دی جا سکتی اور انہی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مشتاق احمد غنی کی اہلیہ اور سابق رکن قومی اسمبلی فرزانہ مشتاق کے بطور متبادل (کوورنگ ) امیدوار کاغذات جمع کروائے گئے ہیں
ان حالات میں یہ امکان موجود ہے کہ اگر مشتاق احمد غنی کسی صورت بھی انتخابات سے باہر ہوتے ہیں تو اپنی دو دہائیوں سے قائم سیاست کو بچانے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کریں گے ۔
مشتاق احمد غنی پر الزامات اور مقدمات کیا ہیں ؟
اگرچہ دو دہائیوں سے ضلع ایبٹ آباد کی سیاست کا اہم کردار رہنے والے مشتاق احمد غنی پر کرپشن ،اقرباء پروری اور غیرقانونی بھرتیوں کے متعدد کیسز اور الزامات موجود ہیں۔جن میں ایک اہم ترین کیس ایبٹ آباد سمیت صوبہ خیبرپختونخواہ کے متعدد پریس کلبوں کو غیر قانونی فنڈنگ کی فراہمی کا بھی ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کے تین ادوار میں ان باڈیز کو غیر قانونی طور پر کروڑوں روپے کے فنڈز مہیا کئے گئے ۔جن کا آڈٹ نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے ایک کیس پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ میں ابھی بھی زیر سماعت ہے جس کی اگلی پیشی 11 جنوری 2024 کو ہوگی ۔
تاہم ان میں سب سے سنگین مقدمہ 9 مئی کو ایبٹ آباد میں مظاہرین کو فوجی تنصیبات اور عمارتوں پر حملوں اور نقصان پہنچانے کے لئے اکسانے کا الزام ہے ۔اگرچہ وہ ان واقعات کے بعد گرفتاری سے بچنے کیلئے روپوش ہوگئےتھے
سیاسی پس منظر اور مستقبل کا منظر نامہ
ایبٹ آباد کی یونین کونسل کیہال سے بطور ناظم منتخب ہونے کے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والےمشتاق غنی سیاست سے قبل محکمہ صحت اور بعدازاں شعبہ تعلیم سے منسلک رہے ۔ ماضی میں متعدد پارٹیاں تبدیل کرنے کے حوالے سے شہرت رکھنے والے مشتاق احمد غنی گذشتہ ایک دہائی سے صوبہ خیبر پختون خواہ میں مقبولیت کی حامل تحریک انصاف میں شامل رہے ۔
اس سے پہلے وہ برسراقتدار رہنے والی سابق آمر پرویز مشرف کی حمایت یافتہ جماعت مسلم لیگ ق میں شامل رہ چکے تھے ۔لیکن جوں ہی مسلم لیگ ق پر برا وقت شروع ہوا مشتاق احمد غنی اور ہزارہ کے کئی دیگر اہم قائدین فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ کی نئی منظور نظر جماعت پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ۔اور اگلے دو ادوار میں پاکستان تحریک انصاف کا اہم حصہ رہے اور صوبہ میں اہم عہدوں پر براجمان رہے ۔
لیکن اس وقت جب کہ پاکستان تحریک انصاف مشکل حالات سے دوچار ہے اور عملاً یہ جماعت تنکوں کی طرح بکھر چکی ہے غالب امکان یہی ہے کہ مشتاق احمد غنی اپنی جماعت سے فاصلہ رکھتے ہوئے آزادانہ حیثیت سے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی کریں گے
کیوں کہ الیکشن کمیشن کے تازہ ترین فیصلے کے تحت پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان چھین لئے جانے کے بعد یہ جماعت فی الوقت بے شناخت ہو چکی ہے اور اس کے امیدوار ممکنہ طور پر آزادانہ حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے لیکن آزاد امیدواروں کی حیثیت پاکستانی سیاست میں ایک مہرے کی سی تصور کی جاتی ہے جو طاقت کے اشارے پر باآسانی کسی بھی منڈیر پر ڈیرا ڈال لیتے ہیں ۔