سدھیر احمد آفریدی
کوکی خیل، تاریخی اور بہادر آفریدی قبیلے کی ایک ذیلی شاخ ہے، جو پشاور سے متصل ہموار زمین جمرود اور دورافتادہ وادی تیراہ کے خوبصورت پہاڑی علاقوں راجگل،خائست خولہ اور مہربان کلی وغیرہ جیسے علاقوں پر آباد...
کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے
لہذا درختوں کو بھی اس صورت میں کاٹنا چاہئے جب وہ خشک ہوچکے ہوتے ہیں اور مزید پھل یا سایہ دینے کے قابل نہ ہو لیکن کسی سرسبز و شاداب اور گنے تناور درخت کو بلاضرورت کاٹنا بھی ظلم ہے اگر ضرورت کے لئے درخت کاٹنا ضروری ہو تو پھر یہ ذمہ داری بھی پوری کریں کہ دس متبادل پودے اور چھوٹے درخت کاشت کریں تاکہ پرندوں کی طرح پودوں اور درختوں کی نسل بھی آب و تاب کیساتھ برقرار رہے اور بڑھتی رہے جس سے ہمارا ماحول تر و تازہ اور خوشگوار رہتا ہے
ایسا ہی ایک لوسی تھا جس پر ہماری نظر پڑی تو وہ ہمارے من کو بھا گیا۔ اس کے وجود کی سفید گراٶنڈ پرسیاہ دھبے تھے۔ باقیوں کی نسبت ذرا چاق چوبند دکھاٸی دیتا تھا مگر مزاج میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوٸی تھی۔ ہمیں چونکہ نیا نیا کتا پال شوق چرایا تھا لہذا اسے چمکار ششکار کر گھر لے آۓ۔ مہمان تو نہیں تھا مگر خاطردای ضروری تھی۔ اسے لاٸف بواۓ صابن سے نہلایا اور سُکھایا تو اس کی آنکھیں ممنونیت کے مارے چمکنے لگی
ارب پتی چینی تاجر جیک ما ایک نجی طیارے کے ذریعے نیپال کے دارلحکومت کھٹمنڈو سے لاہور پہنچے جہاں انہوں نے ایک دن گزارا اور اس کے بعد وہ اپنی منزل کیلئے روانہ ہو گئے ۔ان کی لاہور آمد کا معاملہ اس حد تک نجی رکھا گیا کہ پاکستان میں چینی سفارتخانہ بھی ان کی آمد اور دورے کے مقاصد سے بظاہر لاعلم دکھائی دیا
کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے
ذرائع کے مطابق مقتولہ کو بچپن میں اس کی خالہ نے گود لے لیا تھا اور بالغ ہونے تک وہ اپنی خالہ کے پاس رہتی تھی پھر وہ ایک ڈاکٹر کے ساتھ بطور نرس کام کرتی رہی اس دوران وہ بیرون ملک چلی گئی جہاں سے دو ہفتے قبل واپس آئی اور اپنے منہ بولے ماموں غلام مصطفیٰ ولد روشن خان سکنہ سجی کوٹ روڈ قلندرآباد کی وساطت سے گوجری چوک میں فلیٹ کرائے پر لے کر رہنے لگی ۔
کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے