دیگر پوسٹس

تازہ ترین

مقبوضہ فلسطین: شہریوں کے قتل عام اور املاک پر حملوں میں امریکی شہری یہودی سرفہرست

آزادی ڈیسک

حال ہی میں امریکہ کی جانب سے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں موجود آبادکاروں کے بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کے تناظر میں ایسے آبادکاروں پر امریکہ کیلئے سفر پر پابندی عائد کی ہے جو فلسطینی آبادیوں پر حملوں میں ملوث ہیں ۔لیکن یہ اقدام ممکنہ طور پر صرف اعلان کی حد تک ہی موثر ہو سکتا ہے کیوں کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں آباد ہونے والی نئی اسرائیلی آبادیوں میں غالب تعداد ان یہودیوں کی ہے جو امریکی شہریت کے حامل بھی ہیں اور امریکی حکومت اپنے کسی شہری کو بھی اپنے ملک میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتی ہے

اس وقت بھی تقریباً 60 ہزار امریکی یہودی مقبوضہ مغربی کنارے کی زمینوں پر موجود ہیں جو بہتر رہائش اور سہولتوں کی پیشکش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں سے چھینی گئی زمینوں میں جا کر آباد ہوئے


برطانوی آن لائن ادارے گارڈین کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق فلسطینی زمینوں ،املاک اور شہریوں پر حملوں اور قبضوں میں امریکی شہریت کے حامل یہودی سرفہرست ہیں جن کی بڑی تعداد فلسطینیوں سے چھینے گئے علاقوں میں آباد ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھی تقریباً 60 ہزار امریکی یہودی مقبوضہ مغربی کنارے کی زمینوں پر موجود ہیں جو بہتر رہائش اور سہولتوں کی پیشکش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں سے چھینی گئی زمینوں میں جا کر آباد ہوئے ۔ان میں سے اکثر تو مذہبی تصورات کے مطابق وہاں آباد ہوئے جبکہ بعض لوگوں کو بہتر سہولتوں اور پرآسائش ماحول اس جانب راغب کرنے کا سبب بنا ۔

یہ بھی پڑھیں


اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر کو غزہ سے حماس کے اسرائیلی مقبوضات پر حملوں کے بعدمغربی کنارے میں بھی یہودی آباد کاروں کی جانب سے نہتے فلسطینیوں پر حملوں اور ان کے مال و املاک کو نذر آتش کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔جہاں کئی گائوں کو بندوق کی نوک پر خالی کروا لیا گیا ہے

۔اب تک واقعات میں 500 فلسطینیوں کو مار دیا گیا ہے جن میں کم عمر بچے اور لڑکے بھی شامل ہیں اگرچہ ان میں سے بعض کے متعلق اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ مسلح جدوجہد کا حصہ تھے لیکن اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی آبادکاروں کے حملوں کی مکمل پشت پناہی خود اسرائیلی فوج کررہی ہے ۔

فلسطینیوں کی جبری بے دخلی ایک اور نکبہ

فلسطینیوں پر حملوں میں ملوث آباد کار درحقیقت بدنام شدت پسند ان امریکیوں کے نظریات سے متاثر ہیں جو عام فلسطینیوں کے قتل عام کو جائز سمجھتے ہیں: دی گارڈین


دی گارڈین کی رپورٹ میں امریکی تنظیم پیس ناءو کے سربراہ حدر سسکنڈ کے حوالے سے بتایا گیا کہ عام فلسطینیوں پر حملوں میں ملوث آباد کار درحقیقت بدنام شدت پسند ان امریکیوں کے نظریات سے متاثر ہیں جو عام فلسطینیوں کے قتل عام کو جائز سمجھتے ہیں ۔ان میں ایک بروکلین امریکہ سے تعلق رکھنے والا بروخ گولڈسٹین ہے جس نے 1994 میں مغربی کنارے کی ایک مسجد پر حملہ کر کے 29 فلسطینیوں کو شہید کردیا تھا

جبکہ یہ شدت پسند خود بھی ایک اور امریکی
انتہا پسند ربی میئر کہانا کا پیروکار تھا جو انتہائی دائیں بازو کی نظریات کی حامل کاچ پارٹی کی بنیاد رکھی جسے بعدازاں امریکہ اسرائیل دونوں ممالک میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت کالعدم قرار دیدیا گیا تھا
حدر سسکنڈ کے بقول اگر آپ نے آبادکارانہ دہشت گردی کے نظریات کو سمجھنا ہو تو اس کا جواب گولڈسٹن اور کہانا کی صورت میں ملتے ہیں

اور یہ حقیقت میں آباد کاری تحریک کے رہنما و پیشوا ہیں ۔ہیبرون شہر میں واقع کہانا پارک میں بروخ گولڈسٹن کا مقبرہ قائم ہے ۔اس پارک کو اس شخص کے نام سے منسوب کیا گیا جس کے شدت پسندانہ خیالات کے باعث اس کی پارٹی کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی ۔نفرت اور دہشت کے پرچارک کا مزار بنادینا اس نفسیات اظہار ہے جو اس وقت آباد کاروں کی صورت میں نظر آرہا ہے اس وقت بھی عبرانی آبادکاروں کا ترجمان ڈئوڈ وائلڈر جو کہانا کے مزار کا رکھوالا ہے نیوجرسی امریکہ کا شہری رہ چکا ہے


اگرچہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں امریکی یہودی آبادکاروں کی تعداد 15 فیصد تک ہے لیکن اپنے اثر و رسوخ کے باعث وہ دیگر آبادکاروں پر حاوی ہیں ۔ سٹی آن دی ہل ٹاپ نامی کتاب کی مصنفہ سارہ ہرس کوخرن کے مطابق ہم امریکی شہریوں کی اسرائیلی منتقلی کو کا ان کا انتخاب قرار دے سکتے ہیں کیوں کہ ان کا معاملہ عام مہاجرین کے بالکل برعکس ہے ۔جیسا کہ اس وقت یوکرین سے بڑی تعداد میں شہریوں کی اسرائیلی منتقلی ہے جو جنگ اور غربت کے خوف سے اپنا ملک چھوڑ رہے ہیں


جبکہ اس کے برعکس امریکی یہودیوں کی منتقلی کا پس منظر مذہبی اور نظریاتی ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی تلاش میں اسرائیل منتقل ہوئے ۔وہ امریکہ جیسا طرز زندگی اور سہولتیں چاہتے تھے جو آج سے 20 یا30 سال پہلے مقبوضہ آبادیوں میں موجود نہیں تھیں ۔امریکہ سے آباد کاروں کی پہلی منتقلی کا آغاز 1967 کی جنگ کے بعد ہوا جب اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا ۔اور مقبوضہ علاقوں پر آبادکاروں کی بستیوں کی تعمیر شروع ہوگئی ۔

غزہ جنگ سے انتہا پسندوں کو زمین ملنے کی نئی امید


ان کے اذہان میں ان سرسبز پہاڑیوں پر ایک ایسا شہر بسانے کا تصور تھا جو پوری دنیا کیلئے ایک استعارہ بن سکے گا ۔لیکن یہ خواب 1987 کے پہلے انتفادہ کے باعث بکھر کر رہ گیا ۔اپنی زمینوں سے بے دخلی اور قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت سے آبادکاروں کو احساس ہوا کہ انہیں اس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
مصنفہ کے مطابق اس وقت ایک لاکھ امریکی شہری مقبوضہ مشرقی بیت المقدس اور اس کے اردگرد آبادکار بستیوں میں موجود ہیں جو آبادکار تنظیموں کی بھاری مالی مدد سے عرب زمینوں پر قبضہ جمانے کا اہم کردار ہیں ۔