تحریر:- طارق زمان
پاکستان میں سوشل میڈیا ٹرولنگ بہت عام ہو گئی ہے۔ زبانی یا تحریری صورت میں تضحیک آمیز رویے اور توہین آمیز تبصرے اکثر سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ منفی سوچ کے حامل بیشتر سوشل میڈیا صارفین اپنی شناخت چھپا کر مخالفین کے لیے نازیبا الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جس سے پکڑے جانے کا خوف کم ہوتا ہے۔
ہزارہ کے معروف صحافی و کالم نگار محترم مشرف ہزاروی کے خلاف بھی گزشتہ دنوں ایک ایسی ہی فیس بک پوسٹ دیکھنے کو ملی۔ جس میں کسی بد تمیز نے بد ذبانی اور بد سلوکی کی حدیں عبور کی ہوئی تھیں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ مذکورہ اکاؤنٹ جعلی ہے جس سے کسی بد قماش نے چھپ کر خباثت ظاہر کی ہے۔
ایک ایسی شخصیت کی کردار کشی کی کوشش کی گئی جس نے روایتی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے ہمیشہ مظلوم کی آواز بلند کی۔ مشرف ہزاروی کا شمار ہزارہ کے ان چند سنئیر صحافیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہمیشہ صحیح معنوں میں عوامی مسائل کو ببانگ دہل اجاگر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
- ٹیکنالوجی کی یلغار ،ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ہمارا مستقبل ؟سدھیراحمد آفریدی
- متبادل پر سوچیں!! سدھیر احمد آفریدی کی تحریر
- یوٹیوب چینلز کی بندش پر قانونی اور ڈیجیٹل حقوق تنظیموں کا شدید ردعمل
ان کا تین دہائیوں پر محیط صحافتی کیریئر مفاد عامہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کی روشن مثال ہے۔ ہمیشہ غیر جانبدارانہ انداز میں محروم طبقات اور دکھی انسانیت کی توانا آواز بنے ہیں اور کبھی قلم اور الفاظ کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی۔ صحافتی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے عوام تک درست معلومات پہنچانے کے ساتھ ساتھ مظلوموں کی داد رسی کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہے ہیں۔
سرکاری محکموں سے اقربا پروری و کرپشن کے تدارک، پسے ہوئے طبقات کے بنیادی حقوق کا دفاع اور اچھی طرز حکمرانی کا فروغ ان کی صحافتی جدوجہد کا مقصد ہے۔
جیسے ہی ایک فیس بک اکاؤنٹ سے محترم مشرف ہزاروی کے متعلق غیر اخلاقی پوسٹ شئیر ہوئی تو سول سوسائٹی کی جانب سے مذمت کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ سیاسی، صحافتی ، عوامی و سماجی حلقوں نے ایک معتبر شخصیت کی کردار کشی پر شدید رد عمل دیا۔
حتی کہ مخالفین نے بھی اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اس قبیح فعل کی مذمت کی بلکہ مشرف ہزاروی کی صحافتی خدمات کو سراہا اور ان سے بھرپور انداز میں یکجہتی کا اظہار کیا۔ شدید اختلافات رکھنے کے باوجود صحافیوں کے تمام دھڑے اس معاملہ میں ایک پیج پر نظر آئے جو باہمی خلفشار کے خاتمہ کے لیے امید کی کرن بھی ہے۔
کوئی بد تہذیب شخص جعلی اکاؤنٹ سے ایک باوقار شخصیت کے بارے غیر اخلاقی الفاظ کا استعمال کرکے اپنی ناقص تربیت ظاہر کرنے کے سوا دیگر مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا کیوں کہ کسی کے لیے عزت و ذلت کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔
اختلاف کی بنیاد پر کسی بھی شخصیت کی کردار کشی کرنے والوں کی معاشرے میں گنجائش نہیں
معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین نے اپنے ردعمل میں اس سماجی ناسور پر ظاہر کیا کہ ہزارہ تہذیب یافتہ لوگوں کا خطہ ہے۔ یہاں کسی بد طینت کو امن ، محبت اور بھائی چارے کی فضا خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مختلف نظریات کے حامل لوگ اختلاف رائے رکھتے ہیں لیکن اختلاف کی بنیاد پر کسی معزز شخصیت کی کردار کشی کرنے والوں کی معاشرے میں گنجائش نہیں۔
حق و سچ کا ساتھ دینے پر صحافی اور شہری خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ سوشل میڈیا پر بد تمیزی اور گالی گلوچ کے کلچر کی حوصلہ شکنی کے لیے ایسے ہی رد عمل کی ضرورت ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ انتشار اور نفرت پھیلانے والے ایسے سوشل میڈیا صارفین کے خلاف قانون کے مطابق بلا تفریق کارروائیاں کریں تاکہ شہریوں کی عزتیں محفوظ ہوں۔