احمد کمال
خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو درپیش خطرات کئی عوامل سے منسلک ہیں، جو حالیہ سیاسی، عدالتی اور سماجی حالات کی روشنی میں واضح ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اہم خطرات ہیں جو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے استحکام کو متاثر کر سکتے ہیں:
- اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد: گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے اشارہ دیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں، خاص طور پر جے یو آئی (ف)، مسلم لیگ (ن)، اور پیپلز پارٹی، صوبائی اسمبلی میں ایک اضافی رکن کی حمایت حاصل ہوتے ہی وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہیں۔ کنڈی نے کہا کہ عمران خان کے خلاف وفاقی سطح پر تحریک عدم اعتماد کی طرح یہ کوشش بھی کامیاب ہو سکتی ہے اگر اپوزیشن کی تعداد بڑھ جائے۔
- مخصوص نشستوں کا عدالتی فیصلہ: سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی سے 21 مخصوص نشستیں چھن چکی ہیں، جو اپوزیشن جماعتوں کو دی گئیں۔ اس سے خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت کمزور ہوئی ہے، اور اپوزیشن کی تعداد 54 تک بڑھ گئی ہے۔ اس فیصلے نے صوبائی حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھا دیا ہے، اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
- اندرونی اختلافات اور گروپ بندی: پی ٹی آئی کے اندر گروپ بندی اور قائدین کے مابین اختلافات بھی ایک بڑا خطرہ ہیں۔ صحافتی حلقوں کے مطابق، علی امین گنڈاپور کی قیادت کے باوجود پارٹی کے اندرونی خلفشار حکومت کی پوزیشن کو کمزور کر رہے ہیں۔ یہ اندرونی مسائل تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات کو بڑھاتے ہیں۔
- وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ مداخلت: سوشل میڈیا پر جاری اس حوالے سے بحث میں پر کچھ پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی سے رابطے کر کے انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ صوبائی حکومت کو گرایا جا سکے۔ اگرچہ یہ دعوے غیر مصدقہ ہیں، لیکن یہ سیاسی دباؤ کی ایک شکل کی نشاندہی کرتے ہیں۔
- امن و امان کی خراب صورتحال: خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور بدامنی کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ اپوزیشن اور میڈیا نے صوبائی حکومت پر تنقید کی ہے کہ وہ امن و امان کی صورتحال کو سنبھالنے میں ناکام رہی ہے، جس سے عوامی حمایت کم ہو سکتی ہے۔
- وفاق کے ساتھ تناؤ: پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت (مسلم لیگ ن کی زیر قیادت) کے درمیان جاری تناؤ، جیسے کہ فنڈز کی عدم ادائیگی اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام سے خیبرپختونخوا کے منصوبوں کو نکالنے کے الزامات، صوبائی حکومت کی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ تناؤ سیاسی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
نتیجہ: خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کو سب سے بڑا خطرہ اپوزیشن کی ممکنہ تحریک عدم اعتماد، عدالتی فیصلوں سے کمزور ہونے والی اکثریت، اندرونی اختلافات، اور وفاقی مداخلت سے ہے۔ اس کے علاوہ، صوبے میں امن و امان کی خراب صورتحال اور معاشی چیلنجز بھی حکومت کی مقبولیت اور استحکام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اگر اپوزیشن اپنی حکمت عملی کو موثر طریقے سے استعمال کرتی ہے اور پی ٹی آئی اندرونی اتحاد بحال کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو صوبائی حکومت کا خاتمہ ممکن ہے۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے حالیہ بڑے واقعات ، 2022 کے بعد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگ بندی کے اعلان کے بعد حالات :
- باجوڑ کے پولیس افسر وقاص رفیق نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ باجوڑ کی تحصیل خار کے علاقے میں گاڑی پر بم دھماکے کی نوعیت کا تعین کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دھماکے میں پانچ افراد جاں بحق جبکہ 11 زخمی ہوئے ہیں۔
- دو جولائی کو خیبر پختونخواہ کے ضلع باجوڑ میں ایک بم دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر ناوگئی سمیت پانچ افراد شہید ہو گئے ۔
- شہید ہونے والے افراد میں اے سی ناوگئی فیصل اسماعیل ، تحصیلدار عبدالوکیل اور دیگر تین افراد شامل ہی
- شمالی وزیرستان، میر علی خودکش حملہ (28 جون 2025):
- واقعہ: شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا، جس میں 13 اہلکار جاں بحق ہوئے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جوابی کارروائی میں 14 شدت پسند مارے گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم حافظ گل بہادر نیٹ ورک سے منسلک اسود الحرب نامی تنظیم نے قبول کی۔ٓ
- اہمیت: یہ حالیہ برسوں کے مہلک حملوں میں سے ایک تھا، جس نے صوبے میں سکیورٹی کی خراب صورتحال کو اجاگر کرتا ہے ۔
- ڈرون حملوں میں اضافہ (مارچ-جون 2025):
- واقعہ: ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق، 2025 میں مارچ سے جون تک کم از کم پانچ ڈرون حملوں میں 17 افراد، جن میں 5 بچے شامل تھے، مارے گئے ہیں ایک قابل ذکر حملہ جنوبی وزیرستان کے علاقے دُشکہ میں ہوا، جہاں ایک اسکول کا بچہ جاں بحق اور پانچ زخمی ہوئے۔ شمالی وزیرستان کے خوشخالی گاؤں میں بھی ڈرون اور مارٹر گولوں سے حملہ ہوا، جس میں معصوم بچوں سمیت کئی افراد زخمی ہوئے۔
- اہمیت: ان حملوں نے عام شہریوں، خاص طور پر بچوں، کو متاثر کیا، جس سے عوامی خوف اور عدم اعتماد میں اضافہ ہوا۔
- ٹارگٹ کلنگ اور سکیورٹی فورسز پر حملے:
- واقعہ: 2025 کے پہلے چھ ماہ میں خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے 756 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 80 آئی ای ڈی دھماکے، 5 خودکش حملے، 94 بھتہ خوری، اور 41 ٹارگٹ کلنگ کے واقعات شامل ہیں۔
- اہم واقعات: پشاور، ہنگو، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، بنوں، اور نوشہرہ میں سکیورٹی فورسز، پولیس، اور مذہبی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا۔ مثال کے طور پر، نوشہرہ میں سب انسپکٹر فیاض اور کانسٹیبل سجاد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔
- ان حملوں نے پولیس اور سکیورٹی فورسز کو مسلسل نشانہ بنایا، جس سے صوبے میں خوف کی فضا بڑھ گئی۔
- مذہبی رہنماؤں پر حملے:
- واقعہ: خیبر پختونخوا پولیس نے دعویٰ کیا کہ مولانا حامد الحق شہید اور مولانا فضل الرحمن پر حملوں میں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم ملوث تھی، جسے دو دشمن ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مدد حاصل تھی۔
- جس سے یہ واضح ہوتا ہے یہ حملے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں، جو سماجی تقسیم کو بڑھاوا دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔
- جنوبی اضلاع میں جھڑپیں:
- واقعہ: جنوبی اضلاع (شمالی و جنوبی وزیرستان، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت) میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہوا۔ ان علاقوں میں کرفیو اور آپریشنز جاری ہیں، لیکن مقامی افراد کے مطابق یہ کارروائیاں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں۔
- یہ بھی پڑھیں
- میانوالی فضائی اڈے پر حملہ آور 9 دہشت گرد مار دیئے ،پاک فوج
- پاک افغان سرحد پر تجارت و قسمت کی بندش ،تاجروں کو کروڑوں کا نقصان
- باجوڑ بم دھماکہ میں اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیلدار سمیت 5 افراد شہید
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے حالیہ اضافے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں، جو سیاسی، سماجی، جغرافیائی، اور بین الاقوامی سطح پر جڑیں رکھتے ہیں:
- افغانستان سے سرحدی مسائل:
- خیبر پختونخوا کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے، اور پاکستان نے بارہا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر الزام لگایا کہ وہ افغانستان سے کارروائیاں کرتی ہے۔ امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹیٹیوشن کی ماہر مدیحہ افضال کے مطابق، افغان طالبان ٹی ٹی پی کو “لوجسٹکل اسپیس” فراہم کر رہے ہیں۔
- 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد، ٹی ٹی پی کے کئی کمانڈرز سمیت قیدیوں کی رہائی نے دہشت گردی کو تقویت دی۔
- پاک-افغان سرحدی گزرگاہوں کی بار بار بندش نے بھی حالات کو پیچیدہ کیا۔
- کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں:
- تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی): ٹی ٹی پی نے 2022 میں جنگ بندی ختم کرنے کے بعد اپنا نام نہاد “آپریشن الخندق” شروع کیا، جس کے تحت وہ سکیورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
- حافظ گل بہادر گروپ: اس گروپ کی شاخ اسود الحرب سمیت دیگر چھوٹے گروہ بھی فعال ہیں۔
- اتحاد شدت پسند گروہ: لشکر اسلام، تحریک انقلاب اسلامی، اور اتحاد المجاہدین پاکستان کا اتحاد مقامی آبادی اور سکیورٹی فورسز کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
- سماجی و معاشی مسائل:
- خیبر پختونخوا کے قبائلی اور جنوبی اضلاع میں غربت، بے روزگاری، اور پسماندگی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ناکام رہا۔
- مقامی آبادی میں سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں دونوں کے خلاف عدم اعتماد پایا جاتا ہے، جو شدت پسندوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیتا ہے۔
- سکیورٹی پالیسیوں کی ناکامی:
- تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی پالیسی ردعمل پر مبنی ہے، جبکہ اسے فعال (پرو ایکٹو) ہونا چاہیے۔
- ڈاکٹر ارم خالد کے مطابق، انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں میں عوامی مشاورت کی کمی ہے، اور روایتی پالیسیاں عوامی حمایت سے محروم ہیں۔
- عسکری آپریشنز کو مقامی آبادی کی حمایت حاصل نہیں، جو ان کی تاثیر کو کم کرتی ہے۔
- بین الاقوامی عوامل:
- اگرچہ سوشل میڈیا پر بعض اکاونٹس پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ دو دشمن ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیاں دہشت گردی کی سرپرستی کر رہی ہیں، لیکن یہ ان ممالک کی جانب سے ان دعوئوں کو مسترد کیا گیا ہے ، تاہم حالیہ شنگھائی تعاون کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے دعووں کو پذیرائی ملی ہے جبکہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات کو مشترکہ اعلامیہ میں شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے بھارت کو ایک اور سفارتی سبکی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے اور علاقائی سطح پر پاکستان کے موقف کو تسلیم کرنا اس پہلو کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ پاکستان نے ہمسایہ ممالک کے سامنے ٹھوس ثبوت رکھتے ہوئے اپنے مقدمہ کو بہتر انداز میں اجاگر کیا۔
- پاکستان نے شمالی وزیرستان حملے کا الزام “انڈین سپانسرڈ” شدت پسندوں پر لگایا، جسے بھارت نے مسترد کیا۔
- اندرونی سیاسی تناؤ:
- خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان تناؤ، جیسے کہ فنڈز کی عدم ادائیگی، نے صوبے کی ترقیاتی صلاحیت کو متاثر کیا، جو بالواسطہ طور پر دہشت گردی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرتا ہے