تحریر: احمد کمال
حالیہ دنوں میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ایک مکمل جنگ کے دہانے پر آن پہنچی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کے مختلف شہروں میں شدید فضائی حملے کیے گئے، جن کے نتیجے میں درجنوں افراد جاں بحق اور اہم عسکری و صنعتی تنصیبات کو نقصان پہنچا۔ ان حملوں کے ردعمل میں ایران نے غیر معمولی سرعت سے بھرپور جوابی کارروائی کی۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے میزائلوں، خودکار ڈرون طیاروں اور دیگر دفاعی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا، جس سے نہ صرف اسرائیل بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔
یہ صورتحال اب کسی محدود دائرے تک محدود نہیں رہی بلکہ عراق، شام، لبنان، اور خلیجی پانیوں تک اس تصادم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ایران کی اتحادی مزاحمتی قوتیں متحرک ہوچکی ہیں اور اسرائیل کے دفاعی نظام پر مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے۔
پاکستان کے لیے بڑھتا ہوا سفارتی اور سیکیورٹی دباؤ
اس خطے میں پاکستان کی حیثیت ایک واحد مسلم ایٹمی طاقت کی ہے، اور یہی حیثیت اسے اس تمام تر صورتِ حال میں ایک منفرد لیکن نازک مقام پر لا کھڑا کرتی ہے۔ پاکستان ایک طرف ایران کے ساتھ مذہبی، جغرافیائی، اور اقتصادی قربت رکھتا ہے، تو دوسری طرف سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ دیرینہ تزویراتی تعلقات کا حامل بھی ہے۔ ان دونوں بلاکس کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج میں پاکستان کا سفارتی توازن برقرار رکھنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
“ایران کے بعد پاکستان؟” — ایک گہری سوچ
خطے میں جاری جنگ کے پس منظر میں پاکستان کی اسٹریٹجک برادری، دفاعی تجزیہ کار اور پالیسی ساز ایک گہرے سوال پر غور کر رہے ہیں:
اگر اسرائیل، امریکہ اور ان کے حلیف لیبیا، عراق اور شام کے بعد ایران کو بھی کمزور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو کیا اگلا ہدف پاکستان ہو سکتا ہے؟
یہ اندیشہ محض مفروضہ نہیں بلکہ ماضی کے واقعات اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں۔ مئی 2025 کی پاک بھارت فضائی کشیدگی کے دوران اسرائیل ان چند ممالک میں شامل تھا جنہوں نے کھل کر بھارت کا ساتھ دیا۔ پاکستان کے دفاعی ذرائع کے مطابق اس دوران بھارتی فضائیہ نے اسرائیلی ساختہ ہتھیاروں، جنگی ڈرونز، اور انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ یہاں تک کہ اسرائیلی تکنیکی ماہرین بھارت میں موجود تھے تاکہ اس ہتھیار سازی کا مؤثر استعمال ممکن بنایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں
- ایران میںصدارتی انتخابات ،مضبوط امیدوار کون ہیں؟
- شام کی داستان خون آشام اور حوصلوںکاقصہ
- پاک بھارت کشیدگی ، اب تک ،کب کیا ہوا؟
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اسرائیل بھارت کے دفاعی و سٹریٹیجک انفراسٹرکچر کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے، اور خطے میں پاکستان کے خلاف بھارت کی ہر پیش قدمی میں اسرائیلی معاونت کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ ایسے میں اگر مشرق وسطیٰ میں ایران کے بعد کوئی ملک اسرائیل کی نظریں اپنے اوپر محسوس کر سکتا ہے، تو وہ پاکستان ہی ہے۔
پاکستان کے لیے چیلنجز اور لائحہ عمل
موجودہ صورتحال میں پاکستان کو درج ذیل چیلنجز کا سامنا ہے:
- سفارتی توازن کا بوجھ: ایران کے ساتھ یکجہتی یا حمایت دکھانے کی صورت میں خلیجی ریاستیں ناراض ہو سکتی ہیں، باوجودیکہ اس وقت تک سعودی عرب ، شام سمیت خطے کے تقریباً تمام عرب ممالک ایران پر اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کر چکے ہیں اور جوابی کاروائی کو ایران کا حق قرار دے چکے ہیں ،تاہم آثار یہی ہیں کہ فی الوقت یہ معاملہ زبانی یا سفارتی حمایت تک ہی محدود رہے گا تا وقتیکہ ایران یا اسرائیل میں سے کوئی ایک فریق تھک کر ہار نہیں مان لیتا ۔ اگرچہ اب تک پاکستانی سیاسی قیادت کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور ایران کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا جا چکا ہے ،جس کی کم از کم عرب دنیا میں عوامی سطح پر بھرپور پذیرائی کی جارہی ہے ۔ اور خاص طور پر 10 مئی کو پاکستان کے ہاتھوں بھارت کو ملنے والی ہزیمت نے عرب و مسلم دنیا میں پاکستان کو ایک منفرد اور ممتاز مقام پر لاکھڑا کیا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ عرب حکمران کی مبہم اور خاموش روایت سے نالاں عرب عوام کی تمام تر امیدوں کا مظہر اس وقت پاکستان ہی ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ لیکن ایک سب سے بڑی اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ معاشی مسائل کی گرداب میں الجھے پاکستان کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے تعاون کا حصول بڑی حد تک مغربی یا بالخصوص امریکی حمایت کا بھی مرہون منت ہے جو کہ ازخود اسرائیل کے سب سے بڑے پشت پناہ ہیں ۔ اور جنہوں نے غزہ میں بدترین نسل کشی کے باوجود ہر فورم پر اسرائیل کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کو بچانے کیلئے عملی کردار بھی ادا کیا ہے
- ۔
- داخلی سلامتی: اسرائیلی و بھارتی پراکسی گروہوں کی ممکنہ کارروائیاں، فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوششیں، اور انٹیلیجنس جنگ کے خطرات۔
- علاقائی تنہائی کا خدشہ: اگر ایران کو کمزور کر دیا جاتا ہے تو پاکستان خطے میں تنہا اور غیر محفوظ تصور کیا جا سکتا ہے، خصوصاً اگر عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ مزید مضبوط کرتی ہیں یا مجوزہ ابراہیمی معاہدہ مزید کوئی نئی صورت اختیار کرتا ہے باوجودیکہ اب اس کا بڑا انحصار اسرائیل کی ایران کیخلاف چھیڑی جانے والی جنگ کے نتائج پر منحصر ہے کیوں کہ پہلی مرتبہ ایران کی جانب سے ملنے والے کڑے جواب کی وجہ سے ممکن ہے مستقبل کے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے بارے میں قائم بہت سی آراء اور نظریات کالعدم قرار پا جائیں ۔
کیا کرنا ہوگا؟
پاکستان کو موجودہ عالمی منظرنامے میں غیرجانبداری سے بڑھ کر فعال سفارت کاری اپنانی ہوگی۔ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ثالثی کی پیشکش، مسلم امہ کے مفادات کے لیے مشترکہ حکمت عملی، اور اپنی سرحدوں کی سلامتی کے لیے جدید ٹیکنالوجی و دفاعی اتحادوں کی ازسرنو ترتیب ناگزیر ہے۔کیوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ مئی میں پاکستان کی سرخروئی نے عرب و مسلم دنیا میں بالخصوص اور مغربی دنیا میں بالعموم اس کیلئے نئے مقام کا تعین کیا ہے اور دنیا کیلئے پاکستان کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے جو ایک مفلوک الحال پاکستان کے بجائے ایک پراعتماد ، باوقار اور سنجیدہ کردار کا حامل ہے ۔ اس لئے اب اس کیلئے اپنے ہر قدم کا فیصلہ بردباری اور تحمل کے ساتھ کرنا ہوگا ۔اس لئے جہاں سفارتی محاذ زیادہ تحمل وبردباری کا متقاضی ہے وہیں عسکری پہلوئوں پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے
ساتھ ہی، عالمی فورمز پر یہ مقدمہ بھی بھرپور انداز میں اٹھانے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی اسلامی ریاست، خاص طور پر ایران جیسی خودمختار اور مزاحمتی قوت کو کمزور کرنا صرف خطے نہیں، پوری مسلم دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیوں کہ تمام تر آثار و شواہد اور عالمی گھیرا بندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اگر آج ایران کو زیر کیا گیا، تو کل پاکستان اس ہدف پر ہو سکتا ہے۔اور وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ بھارت کی صورت میں ایک شکست خوردہ حریف شدید رنج و کرب کا شکار ہو۔
مشرق وسطیٰ ،پاکستان اور مستقبل کا راہ عمل
اسرائیل
یہ سوال نہایت اہم اور بروقت ہے کہ جب اسرائیل جیسا ایک واضح حریف، بالواسطہ یا بلاواسطہ پاکستان کی سرحدوں کے قریب اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے، اور ایران سے اس کا تصادم سفارتی دائرے سے نکل کر براہِ راست جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے، تو پاکستان کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ آئیے اس صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں:
1. سٹریٹیجک تیاری اور انٹیلی جنس وارننگ سسٹمز کی مضبوطی
ایسی کسی بھی ممکنہ خطرناک صورت حال میں سب سے پہلی ضرورت قومی سلامتی کے اداروں کی بھرپور تیاری اور انٹیلیجنس نیٹ ورک کی مضبوطی ہے۔
- اسرائیل کی بھارت میں موجودگی اور اس کی پراکسی سرگرمیاں کسی طور نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔
- پاکستان کو اپنی انٹیلیجنس ایجنسیز، سائبر ڈیفنس، اور بارڈر سرویلنس نظام کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے ممکنہ مداخلتوں کو قبل از وقت ناکام بنانا ہوگا۔
2. فعال سفارت کاری اور عالمی سطح پر بیانیہ کی جنگ
اگرچہ جنگ کا دائرہ پھیل رہا ہے، لیکن پاکستان کو سفارتی محاذ پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
- اقوام متحدہ، او آئی سی، اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اسرائیل کی جارحیت، بھارت کے ساتھ اس کے اتحاد، اور مسلم ممالک کے خلاف اس کی پالیسیوں کو بے نقاب کرنا پاکستان کا اخلاقی و سیاسی فرض ہے۔
- کیوں کہ حالیہ پاک بھارت تنازعہ کے دوران اور بعدازاں پاکستان کی موثر سفارت کاری اور بالخصوص بیانیہ کی مضبوط جنگ نے عالمی سطح پر پاکستان کردار اور قد بڑھانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے ، بالخصوص سوشل میڈیا پر اس جنگ کو زیادہ موثر انداز میں لڑے جانے کی ضرورت ہے ،یہ پاکستانی قیادت اور عوام کی بڑی کامیابی قرار دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں جنگ کے بعد مغربی ممالک میں بلاول بھٹو زرداری کی زیرقیادت جانے والے سفارتی وفود کو ملنے والی پذیرائی سے زیادہ واضح ہوتی ہے جبکہ اس برعکس بھارتی بیانیہ دنیا میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہا اور بھارتی سفارت کاری دنیا میں ایک مذاق بن کر رہ گئی ۔ جہاں دنیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت کو اس کے دیرنیہ مغربی حلیفوں نے بھی وہ پذیرائی نہیں دی جس کی مودی حکومت کا توقع تھی
- ایران، ترکی، چین، ملائشیا اور روس جیسے ممالک کے ساتھ سفارتی اور سٹریٹیجک تعاون کو مزید گہرا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔اور بیانیہ کی جنگ کو مضبوط بنانے کیلئے عوامی سطح پر اقدامات کو ناگزیر بنانا ہوگا ، تاکہ ان عناصر کی بھی حوصلہ شکنی ہو سکے جو ایسے نازک مواقع پر انتشار اور کنفیوژن پھیلانے کا سبب بنتے ہیں
3. علاقائی اتحاد سازی کی فوری کوشش
یہ وقت ہے کہ پاکستان، ایران، ترکی، اور دیگر ہم خیال مسلم ریاستوں کے ساتھ ایک دفاعی و سٹریٹیجک بلاک بنانے کی بات کرے۔
- اگر اسرائیل عرب ممالک کی مدد سے ایک متحد محاذ تیار کر رہا ہے، تو پاکستان کو بھی خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک یا کم از کم دفاعی تعاون کا فورم تشکیل دینا ہوگا۔
- مشترکہ عسکری مشقیں، انٹیلیجنس شیئرنگ، اور دفاعی ٹیکنالوجی کے تبادلے جیسے اقدامات فوری اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔
4. دفاعی صنعت اور میزائل پروگرام میں خودانحصاری
اگرچہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے،اور اس کی میزائل ٹیکنالوجی میں مہارت ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔اور بالخصوص حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران عسکری مہارتوں کا واضح اور موثر استعمال یقینی بنا چکا ہے اس لئے ان مہارتوں کا تبادلہ اور توسیع زیادہ بہتر نتائج فراہم کرسکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ساتھ موجودہ وقت میں روایتی اور ہائبرڈ جنگی سازوسامان میں خود انحصاری کی اشد ضرورت ہے۔
- اسرائیلی ڈرونز، سائبر ہتھیار، اور انٹیلیجنس نیٹ ورکس کے مقابلے میں پاکستان کو اپنے دفاعی سائنسدانوں اور انڈسٹری کو جدید جنگی حکمت عملی سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔
5. داخلی اتحاد اور سوشل سیکیورٹی
اسرائیل کی پراکسی جنگی حکمت عملیوں میں معاشروں کو فرقہ واریت، قوم پرستی، اور سوشل ڈِسکورس کے ذریعے کمزور کرنا شامل ہے اس لئے بالخصوص داخلی محاذوں پر سیکورٹی انتظامات کو بڑھانا ہوگا اور ان عناصر کیخلاف کاروائیوں کو موثر انداز میں سرانجام دینا ہوگا جو قومی انتشار یا امن و امان کا سبب بن رہے ہیں ۔
- پاکستان کو اندرونی اتحاد پر توجہ دینی ہوگی۔
- فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت، اور میڈیا پر مؤثر کنٹرول ایسے اقدامات ہیں جو قومی یکجہتی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی ہم آہنگی کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں اور ان طبقات کے خدشات کو ختم کرنے کیلئے کوششیں کی جائیں جو ملک میں سیاسی افراتفری کا سبب بن رہے ہیں
6. اگر جنگ ناگزیر ہو تو؟
اگر صورت حال اس نہج پر جا پہنچے کہ جنگ پاکستان کے دروازے پر دستک دے تو:
- پاکستان کو اپنے اتحادیوں کو فوری متحرک کرنا ہوگا، خاص طور پر چین اور ترکی جیسے ممالک۔
- پاکستان کی دفاعی حکمت عملی میں ڈیٹرنس (خوف کی توازن) پالیسی کو مؤثر طریقے سے بروئے کار لایا جائے۔
- ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود پاکستان کو روایتی جنگ میں مہارت اور لچکدار دفاعی پالیسی کو اپنانا ہوگا، جیسا کہ حالیہ برسوں میں بھارتی دراندازیوں کا منہ توڑ جواب دیا گیا۔