آرمی چیف کی تعیناتی کا مرحلہ بخیر بخوبی مکمل ہونے کے بعد ملکی سیاست میں معرکہ آرائی کا نیا میدان بظاہر دو سیاسی قوتوں یعنی مسلم لیگ ن کی زیر قیادت سیاسی اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین سجتا ہوا دکھائی دے رہے ۔
لیکن آج یعنی 26 نومبر کو راولپنڈی میں ہونے والا آزادی مارچ دونوں فریقین کیلئے مستقبل کی راہوں کا تعین کردے گا ۔
واضح رہے کہ پنجاب سے شروع ہونے والا حقیقی آزادی مارچ کئی ہفتوں کے بعد بالاآخر اسلام آباد کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوچکا ہے ۔البتہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اسلام آباد میں داخلے کی حسرت شایدابھی پوری نہ ہوسکے ۔
یہ بھی پڑھیں
- 17 اگست :گائوں میںرہنے والے ایک لڑکے نے ضیاء کو ظلمت میںبدلتے کیسے دیکھا؟
- افغانستان میںنئی حکومت ، پڑوسی ممالک اور مستقبل کی راہیں
- 20جنوری 1990 آزربائیجان کی تاریخکا سیاہ دن ، ہم بھولے ہیں نہ بھولیں گے،گونل عباس
- میڈیا جس کا ڈسا پانی بھی نہ مانگے!!!! سلیم مغل
حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ؟
اور کون حاوی یا کون مغلوب قرار پاتا ہے ۔اس کا فیصلہ آج کا روالپنڈی جلسہ کردیگا ۔اگرچہ حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے کئی قومی معاملات بظاہر اس بات کا اشارہ ہیں کہ شاید عمران خان کو طاقت کے حلقوں میں ماضی کی طرح حمایت حاصل نہ رہی ہو ۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں عوامی سطح پر انہیں آج بھی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے ۔جس کے اظہارحالیہ مہینوں کے دوران ضمنی انتخابات میں چیئر مین پی ٹی آئی کی پے درپے کامیابیاں بھی ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ مسلسل امتحانات کے گرداب میں پھنسی اتحادی حکومت اور بالخصوص مسلم لیگ ن کیلئے ابھی سکھ کا کوئی سانس میسر آتا دکھائی نہیں دے رہا ۔کیوں کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک مسلم لیگ ن کی حکومت ابھی تک عوام کو کوئی بڑا ریلیف دینے میں کامیاب نظر نہیں آئی ۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر آزادی مارچ میں شرکت کیلئے قافلوں کی روانگی
معاشی صورتحال بدستور بے یقینی کا شکار ہے ۔ان حالات میں جب کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی اس کے ہاتھوں سے نکل کر عملاً عمران خان کی کمین گاہ بنا ہوا ،جہاں سے وہ آزادی مارچ کی صورت میں حکومت کو سخت آزمائش میں مبتلا کئے ہوئے ہیں ۔
حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو نہ صرف اتحادی حکومت بلکہ پاکستان تحریک انصاف دونوں ایک ایسے نکتے پر پہنچے ہوئے جہاں سے پیچھے ہٹنے کی صورت میں کسی ایک فریق کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔
وزیر اعظم میاں شہبازشریف ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے ہمراہ
کیوں کہ ایک جانب جبکہ پاکستان تحریک انصاف کئی گذشتہ ماہ سے احتجاج کیلئے عوام کا موڈ بنا رہی ہے ۔اگر وہ حکومت سے اپنے مطالبات کے حوالے سے کوئی ٹھوس ضمانت حاصل نہیں کرپاتی تو آئندہ کیلئے اسے اپنے سپورٹرز کو ایک بار پھر سڑکوں پر لانے اور حکومت پر دبائو بڑھانے کا موقع میسر آنا ممکن نہیں ہوگا ۔
اسی طرح حکومت اگر پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک جو بظاہرآئینی و قانونی مطالبات اور دائرہ کار کے اندردکھائی دے رہی ہے کیساتھ سختی سے نمٹنے کی کوشش کرتی ہے تو ایسی صورت میں بھی احتجاج کا دائرہ پھیلنے کا اور پرامن تحریک کو تشدد کی راہ پر ڈالنے کا خدشہ موجود ہے
کیوں کہ بعض حکومتی وزاراء کی جانب سے تسلسل کے ساتھ ایسے بیانات دیئے جارہے ہیں جو ان کی حکمت عملی کا اظاےرکررہے ہیں ۔جو کسی صورت قابل تائید نہیں کیوں کہ معاشی گرداب میں پھنسا ملک کسی بھی ایسی ناخوشگوار کا زیادہ دیر تک متحمل نہیں ہوسکتا ۔
ان حالات میں پاکستان تحریک انصاف کو بھی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔جہاں اس کے لئے بہت کچھ بدل چکا ہے ۔اور اس نئی صورتحال سے نمٹنے کا واحد طریقہ اور راستہ پارلیمان سے ہو کر جاتا ہے ۔
اس لئے ضروری ہے کہ عمران خان اپنی مسلسل جارحانہ کھیل کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے مقررہ وقت پر ہونے والے انتخابات کیلئے اپنی تیاریا ں کرے اور اپنے کارکنوں کی توانائیاں اور جذبے کسی ایسے لاحاصل راستہ پر ضائع نہ کی جائیں جس پر آنے والے دنوں میں کسی بڑے نقصان کا اندیشہ ہو۔
اس مرحلے پر جبکہ نئی فوجی قیادت کا تقرر ہوچکا ہے ،پاکستان کیلئے سیاسی ،معاشی اور فوجی استحکام کیلئے انتشار سے پاک فضا کا قیام ضروری ہے ۔جس کی سب سے زیادہ ذمہ داری اس وقت سیاسی قیادت کے کاندھوں پر ہے