یہی وجہ ہے کہ اردو کے مزاج میں لچک اور رنگارنگی ہے لیکن وہ کسی زبان کی مقلد نہیں ہے، بلکہ صورت اور سیرت دونوں کے اعتبار سے اپنی ایک الگ اور مستقل زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ اردو مخلوط زبان ہونے کے باوجود اپنی رعنائی، صناعی اور افادیت کے لحاظ سے اپنی جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے اپنی ساخت، مزاج اور سیرت کو دوسری زبانوں کے تابع نہیں کیا۔ ان ظاہری ومعنوی خصوصیات اور محاسن کے اعتبار سے یہ دنیا کی اہم زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔
21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں خطاب کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا "مجھے علم ہے کہ علاقائی زبانیں بہت اہمیت کی حامل ہیں لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ ریاستی زبان ان تمام علاقے کے لوگوں میں امن و آشتی کی فضا برقرار رکھنے میں مددگار ہوتی ہے اور اس مملک خداداد پاکستان کی قومی زبان اردو ہے ، اور یہی زبان اس ملک کے باشندوں کی حقیقی ترجمانی کرتی ہے" ۔آپؒ کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اس نئی ریاست کو دنیا کے نقشے پر پنجے گاڑھنے کے لئیے اپنی شناخت مضبوط کرنا ہوگی اسی لئیے آپ نے فرمایا" صوبائی دفاتر میں جو مرضی زبان بولی جائے لیکن ان تمام معاملات میں جب ایک صوبے کو دوسرے صوبے کی معاونت درکار ہوگی تو صرف ایک ہی زبان ہوگی اور وہ صرف اور صرف اردو ہوگی"۔