دیگر پوسٹس

تازہ ترین

میں جنید بلوچ، میں اسی دھرتی پر جینا چاہتا ہوں۔ مجھے بلوچستان سے محبت ہے

جنید بلوچ

میں جنید بلوچ ہوں۔میرا سگا بھائی اور ماموں بی ایل اے میں شامل تھے۔انہیں شاید یہ یقین تھا کہ آزادی کی راہ صرف بندوق کے دہانے سے نکل سکتی ہے۔ کامریڈز نے بھی انہیں یہی خواب دکھایا تھا کہ بلوچستان کی حقیقی آزادی پاکستان سے علیحدہ ہونے میں ہے۔ میرا ماموں ایک روز غائب ہوا اور پھر خبر آئی کہ وہ مارا گیا۔ کہنے کو وہ ’’شہید‘‘ ٹھہرا، لیکن مجھے یاد ہے میری نانی کی صبر سے عاری سسکیاں، میری ماں کا آنسوؤں سے تربتر چہرہ، میرے والد کی خاموشی جو دن رات بڑھتی چلی گئی۔ آنسو صرف ہمارے گھر میں نہیں، بلکہ اُس گلی میں بھی بہے جہاں ماموں نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ اس کی زندگی کے ساتھ ہمارے خاندان کے کئی خواب بھی دفن ہوگئے۔

ابھی اس غم کا زخم تازہ ہی تھا کہ خبر آئی میرے کزن کو کسی نے اٹھا لیا ہے۔ شہر میں یہی مشہور ہوا کہ وہ بی ایل اے سے رابطے میں تھا، یا ممکن ہے کچھ اور لوگ اسے لے گئے ہوں۔ کئی امکانات تھے، لیکن ان خدشات میں سے کون درست تھا، کسی کو معلوم نہ ہوسکا۔ بڑی صعوبتوں کے بعد بھی اس کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ ایک گھر تھا جو ویران ہوتا چلا گیا۔ بہنیں، مائیں اور بیویاں انتظار کرتی رہیں کہ شاید کوئی خبر آئے، شاید کوئی آواز سنائی دے؛ لیکن خاموشی کا اندھیرا گہرا ہی ہوتا چلا گیا۔

‏میں خود بھی ایک بار ایجنسی والوں کے ہتھے چڑھا۔ مجھے نہ جانے کیوں اٹھایا گیا، پوچھ گچھ ہوئی اور پھر رہائی مل گئی۔ شاید انہیں یقین آگیا کہ میں کسی بڑی سرگرمی میں شامل نہیں تھا، لیکن اس واقعے نے میرے اندر خوف اور بے یقینی کو مزید بڑھا دیا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس پورے پس منظر میں میری اپنی شناخت کہاں کھڑی ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ اگر قلم کے ذریعے میری سوچ کو آزاد کیا جائے تو میں اپنی سمجھ، اپنے اندر کی بےچینی کو کوئی شکل دے پاؤں گا۔

میری نانی ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ ’’بیٹا! اس دھرتی کے دکھ پڑھنے سے کم نہیں ہوں گے، لیکن سمجھنے سے شاید کوئی راستہ نکل آئے۔‘‘ اُن کی بات میری زندگی کا اصول بن گئی۔ اسکول میں داخلہ لیا تو استادوں نے جلد ہی بھانپ لیا کہ میں مطالعے میں دل چسپی رکھتا ہوں۔ مجھے اسکول کے ایک ڈرامے میں بھی کردار ملا اور میں نے بخوبی نبھایا۔ اساتذہ نے میری حوصلہ افزائی کی۔ جب میں مڈل میں پہنچا تو حکومت کی اسکالر شپ ملی۔ وہ قلیل ماہانہ وظیفہ تھا لیکن ہماری گھر کی ناگفتہ بہ حالت میں بھی وہ کسی نعمت سے کم نہ تھا۔

‏جیسے جیسے میں نے کتابوں سے دوستی بڑھائی، مجھے احساس ہونے لگا کہ بلوچستان کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں جیسے کوئی ایک جملہ بول کر اسے بیان کردیا جائے۔ میں نے ’’تاریخِ بلوچ‘‘ کے پرانے نسخے کھنگالے، میں نے پاکستان کے قیام کی سیاسی وجوہات بھی پڑھیں، برطانوی راج کے مظالم اور بلوچ قبائلی نظام کی پیچیدگیوں کا بھی مطالعہ کیا۔ تب یہ ادراک ہوا کہ یہ صرف وفاقی حکومت کی نااہلی یا جارحیت کی کہانی نہیں ہے۔ اِس میں سرداروں کی اپنی سیاست اور مراعات کی ہوس بھی شامل ہے۔ بی ایل اے کا دہشت گردی پر مبنی مزاحمتی طرزِ عمل بھی ایک سنگین المیہ ہے جو عام بلوچ کی زندگی اجیرن بنانے کا سبب بن رہا ہے۔

یہ بھی پڑھٰیں

‏سردار اسمبلیوں میں جاتے ہیں تو بلوچستان کے نام پر ملنے والے فنڈز کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اکثر انہوں نے اپنے ہی لوگوں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ تعلیم کی راہ میں کانٹے بو دیے جاتے ہیں۔ اگر کسی نوجوان کو وظائف یا پڑھنے کے مواقع ملیں تو سرداروں اور وڈیروں کو خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں بلوچ عوام زیادہ باشعور نہ ہوجائیں، اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کی صدیوں پر محیط حاکمیت اور جاہ و جلال کو دھچکا لگ جائے۔ دوسری طرف بی ایل اے جیسی تنظیمیں کسی بھی ترقیاتی منصوبے کو شروع ہو جانے سے پہلے ہی سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے نزدیک کہنے کو تو یہ سب آزادی کی راہ میں قدم اٹھانا ہے، مگر درحقیقت یہ عام بلوچ کو مزید غربت، بے بسی اور تاریکی کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہے۔

جیسے جیسے میں نے کتابوں سے دوستی بڑھائی، مجھے احساس ہونے لگا کہ بلوچستان کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں جیسے کوئی ایک جملہ بول کر اسے بیان کردیا جائے۔ میں نے ’’تاریخِ بلوچ‘‘ کے پرانے نسخے کھنگالے، میں نے پاکستان کے قیام کی سیاسی وجوہات بھی پڑھیں، برطانوی راج کے مظالم اور بلوچ قبائلی نظام کی پیچیدگیوں کا بھی مطالعہ کیا۔ تب یہ ادراک ہوا کہ یہ صرف وفاقی حکومت کی نااہلی یا جارحیت کی کہانی نہیں ہے۔ اِس میں سرداروں کی اپنی سیاست اور مراعات کی ہوس بھی شامل ہے۔ بی ایل اے کا دہشت گردی پر مبنی مزاحمتی طرزِ عمل بھی ایک سنگین المیہ ہے جو عام بلوچ کی زندگی اجیرن بنانے کا سبب بن رہا ہے۔

‏میں نے جرنلزم میں داخلہ لیا تو میرے اندر کی بےچینی کو ایک نیا محاذ مِل گیا۔ میں نے سوچا کہ میں صحافی بن کر اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کی کہانی بیان کروں گا۔ مجھے ایک اسکالر شپ کے تحت کوئٹہ منتقل ہونا پڑا۔ کوئٹہ کی مخلوط آبادی میں بھی بلوچستان کے حالات کا غبار چھایا رہتا ہے۔ وہاں خبریں اکثر دہشت گرد حملوں، احتجاجی مظاہروں اور گمشدہ افراد کے لواحقین کی دہائیاں دیتی رہتی ہیں۔

یونیورسٹی میں میں نے مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ کوئی بلوچستان کی مکمل علیحدگی کا حامی تھا تو کوئی پاکستان سے وابستگی میں عافیت دیکھتا تھا۔ اکثر لوگ ایسے بھی تھے جو بس چین سے روزی روٹی کمانے کی فکر میں گھر سے نکلتے اور شام کو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ جینے کی کوشش کرتے۔ میں نے وہاں رہتے ہوئے کئی بار سیکیورٹی فورسز کے نمائندوں سے بات چیت کی۔ ان میں زیادہ تر کا پس منظر بھی ہماری طرح متوسط یا غریب گھرانوں سے تھا۔ کوئی ضلع پشین سے تھا، کوئی سبی سے، کوئی پنجاب کے کسی دیہات سے آیا ہوا تھا۔

‏مجھے حیرت ہوئی کہ جنہیں ’’ظالم فورسز‘‘ پکارا جاتا ہے، ان کے اپنے چہرے بھی فکروں سے مرجھائے ہوئے تھے۔ گرمی سردی میں ڈیوٹی دینے والے یہ نوجوان اکثر مجبوری میں فوج یا ایف سی میں بھرتی ہوئے تھے، تاکہ گھر والوں کا پیٹ پال سکیں۔ پھر اگر کہیں دہشت گردی کا واقعہ ہوجاتا تو یہ بھی گولیوں کے درمیان پھنس جاتے۔ کون ہے جو اصل دشمن ہے؟ یہ سوال مجھے مسلسل پریشان کرتا رہتا تھا۔

پھر میں کچھ عرصے کے لیے ایک جرنلزم پروجیکٹ کے سلسلے میں کراچی گیا۔ پہلی بار مجھے پاکستان کا دوسرا رخ دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے سوچا تھا کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، ساحلِ سمندر کے سبب خوبصورت اور ترقی یافتہ ہوگا۔ یقیناً لوگ سکھی ہوں گے، لیکنمیں نے دیکھا کہ وہاں بھی پینے کا صاف پانی ٹینکروں سے خریدا جاتا ہے، سڑکیں گڑھوں سے بھری ہیں، ٹریفک جام روزمرہ زندگی کا حصہ ہے، کچرے کے ڈھیر گلی کوچوں میں تعفن پھیلاتے ہیں۔ کچھ علاقے بالکل ہی اجڑے ہوئے تھے۔ وہاں رہنے والے بھی حکومت کو کوستے تھے۔ وہ بھی بیچارے کسی نہ کسی طرح ظلم کا شکار تھے؛ بس یہ الگ کہ وہاں جبر کی شکل، بدعنوانی کی صورت یا لسانی سیاست کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس شہر میں میں نے پہلی بار سمجھا کہ کرپشن اور نااہلی تو ہر پاکستانی کے لیے دُکھ کا باعث ہے۔ یہ مسئلہ صرف ہم بلوچوں تک محدود نہیں۔

پھر میں واپس اپنے علاقے لوٹا۔ صحافت کے عملی میدان میں قدم رکھے مجھے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مجھے کئی خبروں کی صورت میں بلوچستان کے معدنیات سے متعلق رپورٹس مرتب کرنے کا موقع ملا۔ تانبہ، سونا، گیس، کوئلہ—یہ سب ذخائر اتنے ہیں کہ ہر بلوچ کروڑ پتی بن سکتا ہے۔ لیکن ہمارا نصیب کہ اندرونی طور پر ہمیں سرداروں نے غلام بنایا ہوا ہے، دہشت گرد عناصر نے ترقی کے ہر راستے کو بند کردیا ہے، اور بیرونی طاقتیں بھی ہمارے علاقوں پر بری نظر رکھتی ہیں ۔

‏مجھے اپنی اس سوچ پر کئی لوگوں نے طعنے دیے کہ ’’تم بکے ہوئے ہو، تمہیں سرکار کا وظیفہ ملا ہے اس لیے تم وفاداری کی باتیں کرتے ہو۔‘‘ مگر میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا، اپنے خطے کی سیاست دیکھی تو مجھے صاف دکھائی دیا کہ بندوق کی سیاست آگے چل کر ہمیں مزید تباہی کے گڑھے میں پھینک دے گی۔

میرا بھائی جس جذباتی رستے پر چلا تھا، وہ جان نہ پایا کہ طاقت کا توازن ہمارے حق میں نہیں۔ بی ایل اے کے ہاتھوں بندوق اٹھانے سے ہمیں ایک صدی بھی کوئی فائدہ نہ ملے گا۔ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جس کے وسائل ہم اگر سمجھداری سے استعمال کریں تو ہمارے لیے دروازے کھل سکتے ہیں۔ بلوچستان کی محرومیاں حقیقی ہیں، لیکن ان محرومیوں کے مکمل ذمہ دار صرف وفاقی ادارے ہی نہیں، ہمارے اپنے سردار اور قبائلی نظام کے جابر عناصر بھی ہیں۔

صحافت نے مجھے کچھ حوصلہ دیا۔ میں نے کئی مضامین لکھے۔ میں بلوچستان کے طول و عرض میں گھوم کر کئی غریب بلوچوں سے ملا، جو بیچارے ایک مزدوری کے لیے کراچی یا پنجاب کے بڑے شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ اکثر وہ سالوں بعد لوٹتے ہیں اور اپنی بچت سے گھر کے لیے آٹا، دالیں، پرانے کپڑے لاکر خاندان کے چہروں پر چند دن کی رونق لے آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے مار ڈالا کہ وہ ’’پنجابی فوج‘‘ کے لیے کام کررہے تھے، حالانکہ وہ صرف روزی روٹی کے لیے کسی ٹھیکیدار کے پاس مزدوری کر رہے تھے۔ دوسری طرف جو سیکیورٹی فورسز میں شامل بلوچ نوجوان ہیں، اُن کے گھروں میں بھی فسوس کا سماں تب بندھتا ہے جب وہ کسی بم دھماکے میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہاں کون اپنے، کون پرایا—سب غریب کے بچے مارے جاتے ہیں

‏میں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا:

’’کیا ہم قبر کو بھول چکے ہیں؟ کیا ہم نے اللہ کو حساب نہیں دینا؟ کیوں ہم ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے ہیں؟ بلوچ، پنجابی، پشتون، سندھی، مہاجر—سب تو ایک اللہ کی مخلوق ہیں۔ قبائلی جھگڑوں، لسانی نعروں اور بندوق کی سیاست نے ہمارا اجتماعی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔‘‘

اس تحریر نے کچھ لوگوں کے اندر روشنی کی شمع جلائی تو کچھ لوگ میرے سخت مخالف ہوگئے۔ مجھے دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں کہ میں کیوں ’’دشمن کی زبان‘‘ بول رہا ہوں۔ لیکن میں نے عہد کیا کہ مجھے اپنی بات جاری رکھنی ہے۔ یہی ہمارا واحد راستہ ہے کہ ہم آئینی حدود میں رہ کر مکالمہ کریں، اپنا حق مانگیں، اور اپنے جائز حقوق چھیننے کے لیے ووٹ اور سیاسی طاقت کا استعمال کریں۔

میں نے ایک مقامی اخبار میں کالم نگاری شروع کی۔ میرے کالموں میں کبھی ہلکی ہلکی گزرے دنوں کی یاد ہوتی ہے کہ کیسے میں نے بچپن میں چٹیل میدانوں میں گیند کے پیچھے بھاگتے ہوئے آزادی کا مفہوم سیکھا تھا۔ کیسے میں نے اپنے ماموں کی مسکراہٹ کو دیکھا تھا جب وہ خاندان کے درمیان بیٹھ کر بی ایل اے کے نعروں میں اپنی جان لڑانے کی بات کیا کرتا تھا۔ میں نے اکثر محسوس کیا کہ اس کے اندر ایک مجنونانہ جذبہ تھا، لیکن عقل سے محروم تھا۔ شاید کوئی اسے بتانے والا نہ تھا کہ نفرت کا راستہ آخر میں مزید نفرت کو جنم دے گا۔‏

وقت گزرتا رہا۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو یونیورسٹی میں داخل کروایا۔ وہ بھی میری طرح پڑھنا چاہتا ہے، کچھ بننا چاہتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ بندوق اٹھانے والوں سے دُور ہی رہے، کہ ہم نے کافی لاشیں اٹھا لی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے گھر میں جوانوں کی ریل پیل تھی، اب وہاں خوف کا جمود ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم بھی کبھی آزادانہ قہقہے لگایا کرتے تھے۔ اب ہمیں مسکرانا بھول سا گیا ہے۔

ایک مرتبہ میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک لمبی سڑک پر کھڑا ہوں۔ سڑک کے دونوں طرف وسیع صحرا پھیلا ہوا ہے۔ ایک طرف بی ایل اے کے جوان بندوقیں تھامے کھڑے ہیں، دوسری طرف سیکیورٹی فورسز ٹینکوں کے ساتھ تعینات ہیں۔ میں سرخ پھول اٹھائے دونوں کے بیچ بھاگتا جا رہا ہوں، لیکن اچانک صحرا سے گرد اٹھتی ہے، اور دونوں طرف سے بندوقوں کی گولیاں چلنے لگتی ہیں۔ میں بیچ میں اکیلا رہ جاتا ہوں۔ میرے پاس کوئی ڈھال نہیں، سوائے اس کے کہ میں شور مچا کر ان سے التجا کروں کہ ’’گولیوں سے زندگیوں کی حفاظت نہیں کی جاتی!‘‘ مگر میری آواز صحرائی ہواوں میں کھو جاتی ہے۔ میں گھبرایا ہوا جاگ جاتا ہوں۔ جاگ کر سوچتا ہوں کہ اگر میں خود اس خواب سے نہ جاگا تو یہ حقیقت بن جائے گا۔ شاید اسی لیے میں قلم اٹھا کر لکھنے بیٹھ جاتا ہوں، شاید میری تحریر کسی نہ کسی کو جگا دے۔

‏اس سارے سفر میں میرے اندر یہ یقین پختہ ہوگیا ہے کہ بلوچستان کو واقعی صدیوں سے نظر انداز کیا گیا۔ ہمیں شہری تعلیمی سہولیات کا بُہت فقدان ہے۔ ہماری بڑی تعداد بےروزگاری میں جکڑی ہوئی ہے۔ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حفاظت کے لیے بنیادی انتظامات نہیں کیے جاتے۔ سڑکیں نہیں، اسپتال نہیں، اسکول نہیں، اور یہ سب باتیں بجا ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ ہمارے اپنے سرداروں نے کبھی ان سہولیات کا نفاذ ہونے نہیں دیا۔ انہیں ڈر تھا کہ عوام پڑھ لکھ کر اُن سے اپنے حقوق نہ مانگ لیں، انہیں غلامی کے شکنجے سے آزاد نہ ہوجائیں۔ بی ایل اے کے چند رہنما یا بیرونِ ملک بیٹھے نام نہاد بڑے لیڈران بھی بے گناہ بلوچوں کو شہید کروانے میں مصروف ہیں، اور خود عیش و عشرت سے زندگی بسر کرتے ہیں۔

بیرونی طاقتوں کی مدد سے آزادی ملی تو ہماری قسمت بدل جائے گی

اگر ہم ایک خارجہ طاقت کے ساتھ معاہدہ کرکے بلوچستان کو علیحدہ کر بھی لیں تو کیا ہماری قسمت بدل جائے گی؟ کیا ہم قبضہ گروپوں سے بچ پائیں گے؟ کیا ہم آپس میں خود قبائلی تصادموں سے محفوظ رہیں گے؟ کیا ہم ایرانی یا افغانی توسّع پسندی کے آگے کمزور نہیں پڑیں گے؟ کیا ہمیں بین الاقوامی طاقتوں کا آلہِ کار بننے سے کوئی روک سکے گا؟ یہ تمام سوالات ہیں جو مجھے راتوں کو سونے نہیں دیتے۔ مجھے لگتا ہے کہ جہاں پاکستان کے حکمران طبقات کی کرپشن اور نااہلی اپنی جگہ ایک زخم ہے، وہاں بی ایل اے اور سرداروں کی ریشہ دوانیوں نے اس زخم کو ناسور میں بدل دیا ہے

‏میں اب بھی پنجگور کی ان گلیوں میں گھومتا ہوں۔ کبھی میں مدرسے کے باہر سے گزرتا ہوں تو چھوٹے چھوٹے بچے دعائیں پڑھ رہے ہوتے ہیں، مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے۔ کبھی میں اس جگہ جاتا ہوں جہاں میرا ماموں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا۔ اب وہاں ویرانی ہے، کچرے کے ڈھیر ہیں اور دیواروں پر گولیوں کے نشانات۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ دیواریں بھی چیخ چیخ کر ہم سے پوچھتی ہیں کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بارود کی نذر کیوں کیا؟

‏میں جنید بلوچ، میں اسی دھرتی پر جینا چاہتا ہوں۔ مجھے بلوچستان سے محبت ہے، میں یہاں کے پہاڑوں، صحراؤں اور ساحلوں سے پیار کرتا ہوں۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ میرے امن، سلامتی اور ترقی کے لیے پاکستان کے وفاق کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ ہم اپنی آواز کو اسمبلیوں میں بہتر طریقے سے بلند کرسکتے ہیں، ہم انتخابات کے ذریعے اپنے نمائدے چن سکتے ہیں، ہم بلوچستان کے وسائل پر حق جتاسکتے ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ہماری قیادت مخلص ہو اور بندوق کے بجائے دلیل و مکالمے کے راستے کو اپنائے

دنیا بدل رہی ہے۔ میڈیا کا دور ہے۔ آج ہم چاہیں تو سوشل میڈیا کی طاقت سے اپنے مسائل اجاگر کرسکتے ہیں۔ سرداروں کے خلاف بول سکتے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کی کرپشن بے نقاب کرسکتے ہیں۔ ہمیں اب بیدار ہونا ہوگا۔ بغاوت اگر کرنی ہے تو وہ جہالت اور کرپشن کے خلاف ہو۔ ہمیں تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا چاہیے، اپنے بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں تھمانا چاہئیں۔ نئے بلوچستان کی بنیاد صرف اسی صورت پڑے گی۔

میں نے اپنے قلم کو سرزمینِ بلوچستان کی آواز بنایا ہے۔ میں اپنے بھائی کے خون کا قرض چکانا چاہتا ہوں، مگر کسی اور کا خون بہا کر نہیں، بلکہ امن کی یہ شمع تھام کر آگے چلنا چاہتا ہوں۔ اگر بی ایل اے کے کسی جوان کے ہاتھ میں کتاب ہوتی تو شاید وہ گولی چلانے سے پہلے سوچتا۔ اگر سردار کی کرسی پر ایک تعلیم یافتہ بلوچ بیٹھا ہوتا تو شاید فنڈز ہڑپ کرنے سے پہلے اسے شرم محسوس ہوتی۔ اگر وفاقی حکمرانوں کو معلوم ہوتا کہ عوام اب سوئے ہوئے نہیں ہیں تو وہ بھی بے دریغ کرپشن سے ڈرتے۔

‏یہ لڑائی شاید لمبی ہے، مگر ہمیں اس کا آغاز کرنا ہوگا۔ میں اپنی شناخت اور اپنے مستقبل کو بچانے کی خاطر لڑوں گا، مگر میری لڑائی میں بندوق کی گنجائش نہیں، میرے ہاتھ میں صرف قلم ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کل جب مورخ بلوچستان کی تاریخ لکھے تو یہ ضرور کہے کہ ’’ہاں، ایک زمانہ ایسا آیا جب بلوچ نوجوانوں نے سوچ کی طاقت سے اپنے مقدر کا راستہ روشن کیا۔‘‘ یہی میرا خواب ہے، یہی میرا افسانہ، جو درحقیقت میری زندگی ہی کی داستان ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ یہ افسانہ ایک دن حقیقت بن جائے، اور میری دھرتی کے لوگ پہاڑوں، سمندر اور صحراؤں کی بے کراں وسعتوں میں آزاد سانس لے سکیں۔ کیونکہ بلوچستان صرف ایک ریگستان یا پتھریلی زمین کا نام نہیں، یہ ہماری رگوں میں دوڑتا ایک جذبہ، ایک ناموس، ایک غیرت، اور ایک پوری تاریخ ہے۔ اور اس تاریخ کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیں خون کی نہیں بلکہ عقل کی ضرورت ہے، ہمیں اجنبیت کی نہیں بلکہ اخوت کی ضرروت ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو میرا قلم اور میرا وجود پوری دنیا کو سنانا چاہتا ہے


جنید بلوچ بلوچستان کے حالات کا عمیق تجزیہ کرتے ہیں اور ان پہلوئوں پر بھی لکھتے ہیں جن پر عموماً بات کرنا ممنوع تصور کیا جاتا ہے ۔ ان کی مزید تحریریں پڑھنے کیلئے ان کے ایکس پر فالو کرسکتے ہیں