دیگر پوسٹس

تازہ ترین

پاکستان بعد از عمران

تلخیص و ترجمہ :صفدر حسین

تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کو آج دو سال مکمل ہو چکے ہیں ان واقعات کے دو سال مکمل ہونے پر آج ہم ان حالات کا معروضی جائزہ لیتے ہیں کہ ان کے ملکی ، قومی اور بین الاقوامی سیاسی حالات پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور مستقبل کا منظر نامہ کیسا دکھائی دیتا ہے ؟

1. کیا عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں سیاسی تقسیم بڑھی ہے؟

اس سوال کا سادہ سا جواب ہے ہاں ! عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں سیاسی تقسیم میں واضح اضافہ ہوا ہے۔

  • آغاز:
    • عمران خان کی گرفتاری کے بعد، خاص طور پر 9 مئی 2023 کے واقعات کے تناظر میں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں نے ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے کیے، جن میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سے پی ٹی آئی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔
    • سوشل میڈیا اور سیاسی بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا ہے: ایک طرف عمران خان کے حامی ہیں جو ان کی گرفتاری کو سیاسی انتقام سمجھتے ہیں، اور دوسری طرف مخالفین جو انہیں بدعنوانی اور تشدد بھڑکانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
    • ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت نے اداروں اور معاشرے میں تقسیم کو مزید گہرا کیا ہے۔
  • نتیجہ: عمران خان کی گرفتاری نے نہ صرف پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں بلکہ عوام اور اداروں کے درمیان بھی پولرائزیشن کو بڑھایا ہے، جس سے سیاسی استحکام مزید کمزور ہوا ہے۔

2. عمران خان کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے نتیجے میں پاکستان کی سیاسی، معاشی، اور دفاعی پوزیشن پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

سیاسی اثرات:

یہ بھی پڑھیں

  • عدم استحکام: اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے پاکستان مسلسل سیاسی بحران کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی اور مخلوط حکومت (پی ڈی ایم) کے درمیان جاری کشمکش نے سیاسی ماحول کو گدلا کیے رکھا ہے ہے۔
  • فوج سے تعلقات: عمران خان کے فوج کے خلاف سخت بیانات اور ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں نے فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلقات کو تاریخی نچلی سطح پر پہنچا دیا ہے۔

معاشی اثرات:

  • بحران میں اضافہ: عمران خان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد پاکستان کی معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ گئی۔ مہنگائی کی شرح 35 فیصد سے تجاوز کر گئی، روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی، اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات پیچیدہ ہو گئے۔
  • سبسڈی خاتمہ: شہباز شریف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ پر سبسڈی ختم کیں، جس سے کم آمدنی والے طبقات پر بوجھ بڑھا۔ اس سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، کیونکہ عوام نے معاشی بدحالی کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو ٹھہرایا۔
  • غیر ملکی سرمایہ کاری: سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی، اور توانائی کے بحران نے مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچایا۔

دہشتگردی اور امن و امان

  • دہشت گردی میں اضافہ: عمران خان کے دور میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھی گئی تھی، لیکن ان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ ہوا، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں۔
  • فوج کی ساکھ: فوجی تنصیبات پر حملوں اور عمران خان کے فوج مخالف بیانیے نے فوج کی عوامی ساکھ کو متاثر کیا۔ تاہم، فوج نے سخت کریک ڈاؤن کے ذریعے اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔
  • خارجہ پالیسی: سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کمزور کیا۔ مثال کے طور پر، بھارت کے ساتھ کشیدگی بڑھنے کے باوجود قومی یکجہتی کے فقدان نے سفارتی حکمت عملی کو متاثر کیا۔

عمران خان کے اقتدار سے ہٹنے نے پاکستان کو سیاسی طور پر غیر مستحکم، معاشی طور پر کمزور، اور دفاعی طور پر چیلنجز سے دوچار کیا۔ فوج اور سویلین قیادت کے درمیان عدم اعتماد نے ان مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا۔

3. عالمی سطح پر اس واقعہ کو کس انداز میں دیکھا جا رہا ہے؟

  • انسانی حقوق کے خدشات: ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے اداروں نے عمران خان کی گرفتاری کے طریقہ کار اور اس کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے گرفتاری کو آزادیِ رائے اور پرامن احتجاج کے حق پر حملہ قرار دیا۔
  • امریکی اور مغربی ردعمل: امریکی سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں نے عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان کے سیاسی استحکام کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر، زلمے خلیل زاد نے قومی یکجہتی کے لیے عمران خان کی رہائی کی ضرورت پر زور دیا۔
  • علاقائی تناظر: بھارت کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں، کچھ تجزیہ کار عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان کی داخلی کمزوری کے طور پر دیکھتے ہیں، جو علاقائی استحکام کو متاثر کر سکتی ہیں
  • عام تاثر: عالمی میڈیا اور تھنک ٹینکس (جیسے ولسن سینٹر) نے عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان کے جمہوری ڈھانچے کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ بحران معاشی اور سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کی پاکستان کی صلاحیت کو کمزور کر رہا ہے۔

عالمی برادری عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان میں جمہوری پسپائی اور سیاسی عدم استحکام کی علامت کے طور پر دیکھتی ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے اسے آمرانہ اقدامات سے جوڑتے ہیں، جبکہ علاقائی اور مغربی ممالک اسے پاکستان کی داخلی کمزوری کے طور پر دیکھتے ہیں، جو خطے کی سلامتی کو متاثر کر سکتی ہے۔

عمران خان کی گرفتاری اور اقتدار سے ہٹائے جانے سے پاکستان میں سیاسی تقسیم گہری ہوئی، معیشت بدتر ہوئی، اور دفاعی چیلنجز بڑھے۔ عالمی سطح پر اسے جمہوری تنزلی اور علاقائی عدم استحکام کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ سیاسی استحکام کے لیے مکالمے اور انتخابی عمل کی بحالی ناگزیر ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔

اب تک کی پیش رفت کو دیکھتے ہوئے فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان حالات بہتر ہونے کے امکانات کس حد تک موجود ہیں ؟

فوج اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان تعلقات کی موجودہ حالت اور عمران خان کی قومی سیاسی دھارے میں واپسی کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے ماضی اور حالیہ پیش رفت کو دیکھنا ضروری ہے۔ دونوں سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

1. فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان حالات بہتر ہونے کے امکانات کس حد تک موجود ہیں؟

  • کشیدگی کی وجوہات: عمران خان کی گرفتاری (اگست 2023) اور 9 مئی 2023 کے پرتشدد مظاہروں کے بعد، جن میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلقات تاریخی طور پر بدترین سطح پر ہیں۔ فوج نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا، اور عمران خان کے فوج مخالف بیانیے نے اس خلیج کو مزید وسیع کیا۔
  • فوج کا موقف: فوج نے 9 مئی کے واقعات کو ناقابل معافی قرار دیا ہے اور پی ٹی آئی کے خلاف سخت پالیسی اپنائی، جس میں پارٹی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور انتخابی عمل سے پی ٹی آئی کو محدود کرنا شامل ہے۔ فوجی ترجمانوں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عمران خان کو سیاسی استحکام کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
  • پی ٹی آئی کا موقف: پی ٹی آئی فوج کی مبینہ سیاسی مداخلت کو اپنی مشکلات کی بنیادی وجہ قرار دیتی ہے اور عمران خان نے فوج کے بعض اعلیٰ افسران پر براہ راست تنقید کی ہے، جو ماضی کے برعکس غیر معمولی ہے۔

بہتری کے امکانات:

  • مختصر مدت میں امکانات کم:
    • فوج کی طرف سے 9 مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا عزم اور پی ٹی آئی کی جانب سے فوج مخالف بیانیہ جاری رکھنے کی وجہ سے فوری طور پر مصالحت کے امکانات کم ہیں۔
  • طویل مدت میں امکانات:
    • اگر پی ٹی آئی اپنا بیانیہ نرم کرتی ہے اور فوج کے ساتھ مذاکرات کی طرف بڑھتی ہے، تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں فوج نے سیاسی جماعتوں (جیسے پی پی پی اور ن لیگ) کے ساتھ تنازعات کے بعد مصالحت کی مثالیں قائم کی ہیں۔
    • سیاسی استحکام کے لیے دباؤ، خاص طور پر معاشی بحران اور دہشت گردی کے بڑھتے خطرات کی وجہ سے، فوج اور پی ٹی آئی کو مذاکرات کی طرف لے جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے دونوں فریقوں کو نمایاں رعایت دینا ہو گی۔
  • رکاوٹیں:
    • عمران خان کی بطور لیڈر غیر لچکدار پوزیشن اور فوج کے خلاف ان کے عوامی بیانات مذاکرات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
    • فوج کی طرف سے پی ٹی آئی کو مکمل طور پر ختم کرنے یا اسے غیر متعلق بنانے کی کوشش جاری رہ سکتی ہے، خاص طور پر اگر موجودہ مخلوط حکومت یا دیگر سیاسی قوتیں مفادات کی بہتر خدمت کرتی ہیں۔

نتیجہ: فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان حالات بہتر ہونے کے امکانات فی الحال محدود ہیں، خاص طور پر جب تک عمران خان جیل میں ہیں اور پی ٹی آئی فوج مخالف بیانیہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ طویل مدت میں، سیاسی اور معاشی دباؤ دونوں فریقوں کو مذاکرات کی طرف دھکیل سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے دونوں طرف سے بڑی سیاسی لچک درکار ہوگی۔

ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان کی قومی سیاسی دھارے میں واپسی کا کتنا امکان موجود ہے؟

  • سیاسی اتار چڑھاؤ: پاکستان کی سیاسی تاریخ میں رہنماؤں کی واپسی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کو جلاوطنی، گرفتاریوں، اور سیاسی پابندیوں کے باوجود دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ یہ دونوں رہنما فوج کے ساتھ تنازعات کے بعد مذاکرات یا سیاسی سمجھوتوں کے ذریعے واپس آئے۔
  • عمران خان کی مقبولیت: عمران خان کی گرفتاری کے باوجود، ان کی عوامی مقبولیت برقرار ہے، خاص طور پر شہری متوسط طبقے، نوجوانوں، اور خیبر پختونخوا کے ووٹرز میں۔ سوشل میڈیا اور عوامی جلسوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہیں۔
  • فوج کی حمایت سے اقتدار: عمران خان 2018 میں فوج کی مبینہ حمایت سے اقتدار میں آئے تھے، لیکن ان کے فوج سے تنازع نے ان کی پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔ ماضی میں فوج نے سیاسی رہنماؤں کو دوبارہ موقع دیا ہے، لیکن اس کی شرائط سخت ہوتی ہیں۔

واپسی کے امکانات:

  • حمایتی عوامل:
    • عوامی حمایت: عمران خان کی گرفتاری نے ان کے ووٹرز کے جذبات کو مزید بھڑکایا ہے، جو انہیں ایک “سیاسی شہید” کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ مقبولیت ان کی واپسی کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔
    • سیاسی خلا: موجودہ مخلوط حکومت (پی ڈی ایم) کی ناکامی، خاص طور پر معاشی بحران کے انتظام میں، نے عمران خان کے لیے سیاسی خلا پیدا کیا ہے۔ اگر انتخابات شفاف ہوتے ہیں، تو پی ٹی آئی کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں۔
    • بین الاقوامی دباؤ: انسانی حقوق کے اداروں اور مغربی ممالک کی طرف سے عمران خان کی رہائی اور منصفانہ انتخابات کے لیے دباؤ ان کی واپسی کے امکانات کو بڑھا سکتا ہے۔
  • رکاوٹیں:
    • فوج کی مخالفت: فوج کی موجودہ پوزیشن عمران خان کے خلاف ہے، اور وہ انہیں سیاسی دھارے میں واپس لانے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ فوج کی حمایت کے بغیر واپسی مشکل ہے، جیسا کہ ماضی کے سیاسی رہنماؤں کے کیسز سے ظاہر ہوتا ہے۔
    • عدالتی مسائل: عمران خان پر متعدد مقدمات (توشہ خانہ، سائفر کیس، وغیرہ) ہیں، جن کی وجہ سے ان کی قانونی پوزیشن کمزور ہے۔ اگر عدالتوں سے سزا برقرار رہتی ہے، تو وہ الیکشن لڑنے سے نااہل ہو سکتے ہیں۔
    • پارٹی کی کمزوری: پی ٹی آئی کے کئی سینیئر رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں یا گرفتار ہیں، جس سے پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہوا ہے۔

ممکنہ منظرنامے:

  1. مذاکرات کے ذریعے واپسی: اگر عمران خان فوج کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہیں (جیسے نواز شریف نے 2017 کے بعد کیا)، تو وہ رہائی حاصل کر سکتے ہیں اور محدود سیاسی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں اپنا فوج مخالف بیانیہ ترک کرنا ہوگا۔
  2. عوامی دباؤ کے ذریعے واپسی: اگر پی ٹی آئی بڑے پیمانے پر پرامن احتجاج منظم کرتی ہے اور انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے، تو عمران خان یا ان کی پارٹی الیکشن جیت کر دھارے میں واپس آ سکتے ہیں۔
  3. مکمل کنارہ کشی: اگر فوج اور عدالتیں عمران خان کو نااہل اور پی ٹی آئی کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں، تو ان کی واپسی کے امکانات کم ہو جائیں گے، لیکن ان کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے یہ منظرنامہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔

عمران خان کی قومی سیاسی دھارے میں واپسی کے امکانات موجود ہیں، خاص طور پر ان کی عوامی مقبولیت اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں۔ تاہم، یہ واپسی فوج کے ساتھ تعلقات، عدالتی فیصلوں، اور پی ٹی آئی کی تنظیمی صلاحیت پر منحصر ہے۔ مختصر مدت میں واپسی مشکل ہے، لیکن طویل مدت میں، اگر سیاسی حالات بدلتے ہیں یا انتخابات شفاف ہوتے ہیں، تو ان کی واپسی کا امکان کافی زیادہ ہے۔

#نومئی ْ

#عمران