دیگر پوسٹس

تازہ ترین

فاٹا انضمام کے معاملے پر مشران کی سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل

ضلع خیبر سے جبران شنواری بالجبر انضمام اور پولیس نظام...

پرندے اور پودے ماحول کی روح جنہیں بچانا فرض ہے !!سدھیر احمد آفریدی کی تحریر

لہذا درختوں کو بھی اس صورت میں کاٹنا چاہئے جب وہ خشک ہوچکے ہوتے ہیں اور مزید پھل یا سایہ دینے کے قابل نہ ہو لیکن کسی سرسبز و شاداب اور گنے تناور درخت کو بلاضرورت کاٹنا بھی ظلم ہے اگر ضرورت کے لئے درخت کاٹنا ضروری ہو تو پھر یہ ذمہ داری بھی پوری کریں کہ دس متبادل پودے اور چھوٹے درخت کاشت کریں تاکہ پرندوں کی طرح پودوں اور درختوں کی نسل بھی آب و تاب کیساتھ برقرار رہے اور بڑھتی رہے جس سے ہمارا ماحول تر و تازہ اور خوشگوار رہتا ہے

طورخم بارڈر پر دو اداروں کے مابین تصادم کیوں ہوا ؟متضاد دعوے

طورخم(جبران شینواری ) طورخم نادرا ٹرمینل میدان جنگ بن گیا...

طورخم سرحد پر ہزاروں افغان شہری وطن واپسی کے منتظر، سہولتوں کا فقدان

سدھیراحمدآفریدی ،ضلع خیبر

اس وقت پاکستان سے ہزاروں افغان شہری اپنے وطن واپس جا رہے ہیں تاہم طورخم سرحد پر مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے واپس جانے والے افغان مہاجرین جن میں بڑی تعداد بچوں، بزرگوں اور خواتین کی ہے شدید مشکلات سے دو چار ہیں

وطن واپس جانے والے ایک شہری کے مطابق نادرا پوائنٹ پر کسٹم خواتین اہلکاروں کی تعداد اور اوقات کار بڑھانے کی فوری ضرورت ہے ، بے پناہ رش کی وجہ سے افغان خواتین اور بچوں کو مشکلات درپیش ہیں، حکومت سول انتظامیہ اور سماجی ادارے آگے بڑھ کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قیام و طعام ،واش رومز و دیگر ضروریات کا انتظام کریں،

افغان کمشنریٹ ہفتے میں 24 گھنٹے کام کریں، امدادی رقم کی تقسیم تیز کی جائے، افغانوں کی واپسی کو منظم بنایا جائے،

یہ بھی پڑھیں

  • افغان مہاجرین کی واپسی کو سہل اور آسان بنانے کی ضرورت ہے کچھ فکر مند افراد نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ واپس جانے والے افغان خاندانوں کو مختلف نوعیت کی مشکلات درپیش ہیں جن میں خواتین، بچوں اور مریضوں کی مشکلات ناقابل بیان ہیں

عینی شاہدین کے مطابق رضاکارانہ واپسی کرنے والے افغان پنجاب اور ملک کے دیگر دورافتادہ علاقوں سے صبح 9 بجے بھوکے پیاسے طورخم پہنچ جاتے ہیں جن کی رات 8 بجے کے بعد واپسی ممکن نہیں ہوتی جس میں خود افغان حکومت بھی قصور وار ہے

ذرائع نے بتایا کہ اگر ایف آئی اے حکام اور متعلقہ سٹاف صبح 6 بجے کام شروع کریں اور رات 10 بجے تک ڈیوٹی دیں تو کافی حد تک لوگوں کے جم غفیر کو با آسانی واپس بھیج دیا جاسکتا ہے

نادرا پوائنٹ کے اندر ایف آئی اے،کسٹم اور دیگر اداروں کے اہلکار خوش اسلوبی سے کام کرتے ہیں جن کی کارکردگی چمن بارڈر کے مقابلے میں بہتر ہے

تاہم زیادہ رش کی وجہ سے ان کی تعداد اور کاونٹرز زیادہ کرنے کی ضرورت ہے پولیس اور سیکورٹی فورسز نادرا پوائنٹ سے باہر تعینات تو ہیں لیکن دوردراز علاقوں سے افغان مہاجرین کے خاندان ایک ساتھ گاڑیوں میں صبح 9 بجے تک طورخم پہنچ جاتے ہیں اس لئے ہزاروں غیر منظم ہر عمر اور جنس کے افراد کو کنٹرول کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے

جہاں ان کو سائے، وبیت الخلاء اور دیگر ضروریات کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے خواتین، بچوں اور مریضوں کو خاص طور پر تکلیف اور مشکل صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے اگر مقامی لوگ، سیاسی اور سماجی تنظیمیں سول انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ ملکر کچھ بنیادی ضروریات جیسے پانی اور خوراک بھی فراہم کریں تو کافی پریشانی کم کی جا سکتی ہے

افغان شہریوں نے کہا کہ چمکنی میں افغان کمشنریٹ فی کس 375 ڈالرز دیتی ہے مگر ہفتے میں تین دن کام کرنے کی وجہ سے رش بڑھ جاتی ہے

افغان شہریوں کا مطالبہ ہے کہ افغان کمشنریٹ پورا ہفتہ 24 گھنٹے کام کریں اور کم از 80 خاندانوں کے ہر فرد کو 375 ڈالرز امدادی رقم دیا کریں تو پھر زیادہ پریشانی نہیں ہوگی

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ طورخم بارڈر پر ایکسپورٹ امپورٹ گاڑیوں کے لئے روٹ خالی رکھ کر کلئیرنس کا عمل تیز کیا جائے تاکہ دونوں ممالک کے مابین تجارت متاثر نہ ہو سکے

اور واپس جانے والوں کو کسی خالی میدان میں ٹھہرا کر ان کے عارضی قیام و طعام کا بندوبست کیا جائے اور ترتیب کے ساتھ معقول تعداد میں افغانوں کو نادرا امیگریشن کیطرف جانے کی اجازت دی جائے تاکہ رش اور شاہراہ کی بندش جیسے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے

مقامی لوگوں نے بتایا کہ افغان حکومت اگر رات دیر تک اپنے لوگوں کو افغانستان آنے کی اجازت دیں تو پھر طورخم بارڈر پر افغان خاندان کسی پریشانی کے شکار نہیں ہونگے۔