دیگر پوسٹس

تازہ ترین

غزہ جنگ ماحولیاتی تباہی اور زیتون کی سرگوشی

ڈاکٹر وسیم احمد

ایک ایسے وقت میں جب عالمی قیادت نے دبئی میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی 28 ویں سالانہ ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کی ۔جس کے مرکزی نکتہ ماحولیاتی نظام کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے راہیں تلاش کرنا تھا ۔لیکن بدقستمی سے عرب خطے میں پیدا ہونے والے ایک طویل المدت انسانی بحران اور ماحولیاتی تباہی کے پہلو کو اس طرح توجہ نہیں دی گئی جو دی جانی چاہیے تھی ۔

اسرائیلی جارحیت اور بڑھتے خطرات

غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں جہاں انسانی جانوں اور شہری ڈھانچے کو خطرات لاحق ہوئے ہیں ۔وہیں اس خطے کو درپیش ماحولیاتی بحران بھی سنگین تر ہورہا ہے ۔جو  حالیہ تباہی اور بربادی کے نتیجے میں بالآخر قحط کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے ۔

فلسطین میں تحفظ ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے)  Palistine Envoirement Networkکے کوآرڈینیٹرعبیر

بوتمہ کے مطابق اسرائیلی جارحیت نے خطے میں ماحولیات کیلئے خطرات پیدا کردیئے ہیں ۔جو درجہ حرارت ،زرعی پیداوار  کو متاثر کرسکتے ہیں ۔جبکہ خطے کی سیاسی صورتحال حالات کو مزید گھمبیر بنا سکتی ہے کیوں کہ  فلسطین میں زراعت و انسانی حیات کیلئے بنیادی جزو یعنی آبی ذخائر کے بڑی مقدار اسرائیل کے کنٹرول میں ہے ۔اس کے علاوہ کنوئوں کی کھدائی پرپابندی  اور آبی ذخائر ،شہری ڈھانچہ کی تباہی  ،فراہمی و نکاسی آب کے ڈھانچے کا انہدام  اور سیوریج کی سمندر میں غیر محفوظ نکاسی ایسے مسائل ہیں جو مجموعی ماحولیات اور انسانی جانوں پر دورس منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں

یہ بہترین موقع تھا جہاں دنیا بھر کی قیادت اپنے عمل کے ذریعے یہ ثابت کرسکتی تھی کہ ماحولیاتی تحفظ کا صرف پالیسی سازی اور اہداف کے مقرر کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس سے متاثر ہونے والے ہر خطے کے باسیوں کا تحفظ بھی اسی قدر اہم ہے

  1. غزہ جنگ ،حماس کی 10 نکاتی حکمت عملی جو اسرائیل کو زمین بوس کرسکتی ہے
  2. مزاحمت فلسطین ،آزاد دنیا کیلئے امید کی کرن
  3. مہلت کا آخری دن ،11 ہزار سے زائد افغان شہری وطن لوٹ گئے
  4. اہل غزہ ہمیں معاف کرنا !!

ماحولیاتی تباہی اور زیتون کی سرگوشی

میسا چوسٹیس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی اور چند دیگر ماہرین اپنی رپورٹس میں خطے میں ماحولیاتی تباہی کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں جن کے مطابق یہ خطہ بارش کی کمی ،درجہ حرارت میں اضافہ  اور زرعی پیداوار میں کمی جیسے مسائل سے دو چار ہوسکتا ہے ۔اس طرح فلسطینی جہاں ایک جانب جارحیت کا مقابلہ کررہے ہیں وہیں وہ ماحولیات خطرات سے بھی نبردآزما ہیں ۔

اور عالمی قیادت کا کردار COP28

دنیا بھر کی قیادت کو فلسطین میں پیدا ہونے والے انسانی و ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کیلئے مشترکہ ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے جہاں ماحول اور انسانی حقوق دونوں خطرے میں ہے ۔کانفرنس میں شریک عالمی قائدین کو اس مسئلہ سے نمٹنے کیلئے جہاں انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے تھا وہیں ماحولیاتی تحفظ کیلئے ٹھوس کردار ادا کرنے کی ضرورت تھی ۔اور اس مقصد کیلئے ٹھوس موقف اپنانے کی ضرورت تھی تاکہ ماحول اور انسانی حقوق دنوں کا تحفظ ممکن ہو پاتا ۔کیوں کہ یہ بہترین موقع تھا جہاں دنیا بھر کی قیادت اپنے عمل کے ذریعے یہ ثابت کرسکتی تھی کہ ماحولیاتی تحفظ کا صرف پالیسی سازی اور اہداف کے مقرر کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس سے متاثر ہونے والے ہر خطے کے باسیوں کا تحفظ بھی اسی قدر اہم ہے ۔

متحدہ عرب امارات میں منعقدہ کوپ 28 کانفرنس میں جہاں ماحول کے تحفظ کیلئے اربوں ڈالر خرچ کرنے کے اعلانات ہوئے وہیں فلسطین کے معاملے کو نظرانداز کیا گیا ۔اور اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں پیدا ہونے والے انسانی و ماحولیاتی بحران سے صرف نظر کرتے ہوئے کانفرنس کی ترجیحات کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے ہیں ۔ایک جانب جہاں دنیا اور ماحول کو بچانے کیلئے دعوے اور تقریریں ہو رہی ہیں وہاں فلسطین کی صورتحال کو نظر انداز کرنا تضاد کا اظہار ہے ۔اور زمین کے تحفظ اور مستقبل کی بات کرتے ہوئے بحران میں پھنسے انسانوں کو بھول جانا عالمی ضمیر کیلئے قابل گرفت ہے ۔

یہاں ہمیں قرآن حکیم کی حکمت کو مدنظر رکھنا ہوگا جس نے ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت بچانے کے مترادف قرار دیا ہے ۔یہ مسلم دنیا اور عالمی  قیادت کی  اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس انسانی بحران سے پہلو تہی نہ کریں ۔لیکن عالمی ماحول کا بچانے کا بیانیہ انصاف کے آفاقی تقاضوں کے بجائے سیاسی ترجیحات کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے ۔

امیدیں جو دم توڑ گئیں

یہاں ہمیں قرآن حکیم کی حکمت کو مدنظر رکھنا ہوگا جس نے ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت بچانے کے مترادف قرار دیا ہے ۔یہ مسلم دنیا اور عالمی  قیادت کی  اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس انسانی بحران سے پہلو تہی نہ کریں ۔لیکن عالمی ماحول کا بچانے کا بیانیہ انصاف کے آفاقی تقاضوں کے بجائے سیاسی ترجیحات کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے ۔