دیگر پوسٹس

تازہ ترین

!!!مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے

سدھیر احمد آفریدی کوکی خیل، تاریخی اور بہادر آفریدی قبیلے...

حالات کی نزاکت کو سمجھو!!!

سدھیر احمد آفریدی پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کو غریبوں...

ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات!!

کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے

متبادل پر سوچیں!! سدھیر احمد آفریدی کی تحریر

یہ بلکل سچی بات ہے کہ کوئی بھی مشکل...

فوج کو آئینی کردار تک محدود کرنے پر کچھ سیاسی حلقوں کو اعتراض ہے ،قمرجاوید باجوہ

آزادی ڈیسک


  • میں سمجھتا ہوں کہ جب فوج سیاسی عمل میں دخیل ہوتی ہے تو اس کی ساکھ پر سوال اٹھتا ہے ۔ان حالات میں ضروری تھا کہ فوج کو سیاسی معاملات سے دور کیا جائے
  • حل طلب تنازعات کی وجہ سے خطے کا امن دائو پر ہے ،جبکہ خطے میں تنازعات کی موجودگی اور عدم استحکام کی وجہ سے معاشی فوائد کا حصول ممکن نہیں ہوسکا
  • عالمی طاقتوں کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقتی کشمکش کے پیش نظر پاکستان کو مغرب اور چین کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہوگا ،تاکہ مستقبل میں یہ ملک کسی سرد جنگ کا حصہ نہ بنے
  • ملک کے مشکل ترین وقت میں دنیا کی چند بہترین افواج میں شامل پاک فوج کی قیادت کا اعزاز ملا

29نومبرکو اپنی مدت ملازمت پوری کرنے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک خلیجی اخبار گلف نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ ملک سیاست میں اہم کردار کی وجہ سے قومی سلامتی کی فیصلہ سازی میں پاک فوج غالب رہی جس کی وجہ سے اسے عوام اور سیاستدانوں دونوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا

لیکن ہم نے فوج کو سیاسی معاملات سے دور رہتے ہوئے اسے اس کے آئینی کردار کے اندر محدود رکھنے کا فیصلہ کیا ۔اگرچہ ہمارے اس فیصلے کو معاشرے کے کچھ حلقوں کی جانب سے ناپسندیدگی کاسامنا کرنا پڑا جو بالآخر ذاتی تنقید پر منتج ہوا ۔لیکن ہمارا یہ فیصلہ سیاسی عمل کو مضبوط بنانے اور ریاست کے تمام عناصر کو ان کا بہتر کردار ادا کرنے میں معاون ثابت ہوگا ۔اور ان سب سے بڑھ کر فوج کی ساکھ کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی

کیوں کہ ملکی تاریخ میں پاک فوج کو ہمیشہ قابل قدر حمایت اور اعتماد حاصل رہا ہے ۔اور قومی سلامتی اور ترقی میں فوج کے کردار کو ہمیشہ تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب فوج سیاسی عمل میں دخیل ہوتی ہے تو اس کی ساکھ پر سوال اٹھتا ہے ۔ان حالات میں ضروری تھا کہ فوج کو سیاسی معاملات سے دور کیا جائے

باوجودیکہ اس عمل سے فوج کے خلاف جھوٹابیانیہ گھڑا گیا لیکن فوج اپنے غیر سیاسی کردار پر سختی سے کاربند رہے گی ۔اور مجھے یقین ہے فوج کے اس فیصلے سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگا اور عوام اور فوج کے درمیان تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہوں گے ۔

خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات کا حوالہ دیتےہوئے آرمی چیف کا کہنا تھا خلیجی ممالک کیساتھ ملک کے دیرینہ مذہبی ،تاریخی اور ثقافتی تعلقات ہیں ،جن کی جڑیں ہماری تاریخ اور مذہبی سےجڑی ہیں ۔اور ہمارے یہ تعلقات سود و زیاں سے ماورا رہے ۔ہر مشکل گھڑی میں عرب بھائیوں کی پاکستان کی حمایت اور مدد قابل تعریف رہا ۔جبکہ پاکستان بھی کسی موقع پر پیچھے نہیں رہا اور نہ ہی مستقبل میں کبھی پیچھے رہے گا ۔


یہ بھی پڑھیں


آرمی چیف کا کہناتھا فوجی سفارتکاری پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے ۔جو دوست ممالک کیساتھ دوطرفہ تعلقات کی بہتری اور مضبوطی کیلئے جاری رہے گی ۔عرب ممالک کی قیادت کی سطح پرقریبی تعلقات کی وجہ سے باہمی دلچسپی کے طویل المدت تعلقات اور تعاون کو عملی صورت دینے میں مدد ملی ۔
اور مجھے یقین ہے کہ عرب برادر ممالک کے ساتھ وسیع البنیاد تعلقات مزید مضبوط ہونگے جو دیگرممالک کے اثرات سے آزاد ہونگے ۔

پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں آرمی چیف کا کہنا تھاحل طلب تنازعات کی وجہ سے خطے کا امن دائو پر ہے ،جبکہ خطے میں تنازعات کی موجودگی اور عدم استحکام کی وجہ سے معاشی فوائد کا حصول ممکن نہیں ہوسکا ۔

آرمی چیف کا مزید کہنا تھا اندرونی سطح پر معاشرے میں سیاسی عدم برداشت کا بڑھتا رجحان تشویشناک پہلو ہے ،لیکن ہم ایک ایسے معاشرے کے قیام کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے جہاں برداشت ہو اورکسی کیساتھ سیاسی ،عقیدے یا نسل کی بنیاد پر تفریق روا نہ رکھی جائے

اس کیساتھ ساتھ یہ خطہ ماضی میں عالمی طاقتوں کی کشمکش کا مرکز بھی رہا ۔حال ہی میں مغرب اور امریکہ کی افغانستان میں دوعشروں پر مشتمل دہشت گردی کیخلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کی مغربی سرحدوں پرعدم استحکام پیدا ہوا ۔تاہم امریکی انخلاء کے بعد ملک میں دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم صورتحال ابھی بھی مخدوش ہے

پاکستان اور چین کے درمیان کئی عشروں پر مشتمل شراکت ہے ، جو اپنی بلندیوں پر ہیں ،تاہم عالمی طاقتوں کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقتی کشمکش کے پیش نظر پاکستان کو مغرب اور چین کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہوگا ،تاکہ مستقبل میں یہ ملک کسی سرد جنگ کا حصہ نہ بنے ۔

 Pak Turkiya Strategic Relation

پاکستان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ مسلم ممالک کیساتھ مثبت تعلقات استوار رہیں،آرمی چیف کا عرب اخبار کو انٹرویو 

ہمارےمغربی ہمسایہ ایران کے حوالےسے پاکستان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ مسلم ممالک کیساتھ مثبت تعلقات استوار رہیں ۔داخلی محاذ پر اگرچہ پاکستان نے دہشت گردی کے معاملہ پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے تاہم ابھی بھی شدت پسندی اور دہشت گردی کے رجحان سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔

آرمی چیف کا مزید کہنا تھا اندرونی سطح پر معاشرے میں سیاسی عدم برداشت کا بڑھتا رجحان تشویشناک پہلو ہے ،لیکن ہم ایک ایسے معاشرے کے قیام کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے جہاں برداشت ہو اورکسی کیساتھ سیاسی ،عقیدے یا نسل کی بنیاد پر تفریق روا نہ رکھی جائے ۔

ایک اور اہم اور تشویشناک پہلو معاشی خرابی بھی ہے جس سے دیگر کئی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جن میں صحت ،تعلیم ،خوراک ،پانی اہم ہیں ،جبکہ ماحولیاتی تبدیلیاں بھی خطرناک ثابت ہورہی ہیں

دہشت گردی کیخلاف جنگ

دہشت گردی کیخلاف دوعشروں پر محیط جنگ کے بعد پاکستان نے آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا جس کا مقصد شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ تھا ۔2017 میں شروع ہونے آپریشن ردالفساد نپاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانے اور شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوا

قبائلی اضلاع کو قومی دھارے اور ترقی میں شامل کرنے کیلئے عوام تک رسائی حاصل کی گئی ۔تاکہ ان علاقوں کو ملک کے دیگر علاقوں کیساتھ برابری کی سطح پر ترقی کے مواقع فراہم کئے جاسکیں سرحدی علاقوں کے لوگوں کی ترقی و خوشحالی فوجی و سیاسی قیادت کی پہلی ترجیح رہے ۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا مجھے ملک کے مشکل ترین وقت میں دنیا کی چند بہترین افواج میں شامل پاک فوج کی قیادت کا اعزاز ملا ۔چالیس سال کے دوران میں نے پاک فوج کو ایک ایسی طاقت کے طور پر تشکیل پاتے ہوئے دیکھا جس نے جنگ کے بدلتے ہوئے ماحول کے مطابق خود کو ڈھالا ۔جہاں محدود اور موجود وسائل کے اندر رہتے ہوئے بدلتے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کیا گیا ۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاک فوج کا مستقبل ایک ایسی طاقت ہے جو ریاست کے دیگر اجزاء کیساتھ ہم آہنگ ہوتے ہوئے قومی ترقی کیلئے ایک مناسب ماحول کی فراہمی کو یقینی بنا سکتی ہے ۔

آرمی چیف کا اپنے انٹرویو میں مزید کہنا تھا میں اپنی قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ پاک فوج اپنی قوم و ملک کے تحفظ کے عزم پر کاربند ہے ،جو مادروطن کی سلامتی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں ۔اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عوام اور بالخصوص نوجوان نسل جو ملکی آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ ہیں اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے ۔

پاک فوج کو اپنے عوام کی حمایت کا احساس مزید بناتا ہے جو انہیں ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے حوصلہ فراہم کرتا ۔اس لئے میں اپنی نوجوان نسل کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں وہ اپنا اور توانائی تعلیم اور ہنرکے حصول پر لگائیں تاکہ ہم ایک ترقی پسند معاشرہ بن کر ابھر سکیں ۔اس کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو ایسے جھوٹے پروپگنڈے اور افتراء سے خود کو محفوظ رکھنا ہوگا جو معاشرے میں کسی بھی قسم کی تفریق کا سبب بن رہا ہے ۔

اور ہم سب کیلئے کسی بھی شناخت سے پہلے پاکستان ہی مقدم ہونا چاہیے