دیگر پوسٹس

تازہ ترین

غزہ،جہاں زندگی ہرلمحہ موت کا انتظار کرتی ہے

آزادی ڈیسک

صہیونی حکومت کی جانب سے محصور غزہ پر بلاتعطل فضائی حملوں کا سلسلہ 18 ویں روز بھی جاری ہے ،جس میں غزہ کے محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 5 ہزار سے زائد افراد جن میں زیادہ تعداد بچوں ،خواتین اور معمر افراد کی ہے شامل ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں ہوچکی ہے

واضح رہے کہ 7 اکتوبر کو غزہ پر حکومت کرنے والی تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل کے زیرقبضہ علاقوں پر زمینی ،فضائی اور بحری حملوں جسے آپریشن طوفان الاقصی کانام دیا گیا ہے میں 2 سو سے زائد اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسرائیلی حکام کے دعووں کے مطابق حماس کے حملوں میں اس کے 12 سو شہری مارے گئے تھے ۔ ۔جو اب تک بغیر کسی وقفہ کے جاری و ساری ہے

ان فضائی حملوں کے نتیجے میں اب تک ہزاروںافراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔جبکہ شمالی غزہ کا اکثریت علاقہ بلاتخصیص بمباری کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا ہے

غزہ پر حملوں کے آغاز کے بعد صہیونی حکام نے فلسطینی شہریوں کا شمالی غزہ سے جنوب کی جانب شہر چھوڑنے کا حکم دیا تھا ، کیوں کہ اسرائیل بھرپور فضائی حملوں کے بعد غزہ پر زمینی کاروائی کی تیاریوں میں مصروف ہے اور اس نے غزہ کی سرحد پر لاکھوں فوجی اور بھاری فوجی سازو سامان جمع کرنا شروع کردیا ہے ۔جس کا مقصد غزہ پر فیصلہ کن کاروائی کرنا اور وہاں حکمران حماس اور دیگر مزاحمتی گروپوں کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے ۔تاہم دو ہفتوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال غزہ پر زمینی کاروائی شروع نہیں ہو سکی ہے

دوسری جانب شمالی غزہ سمیت جنوبی غزہ اور محصور پٹی کے تمام چھوٹے اور بڑے شہر اور پناہ گزین کیمپ صہیونی فضائی کی بے رحمانہ بمباری کے زد میں ہے جس کے نتیجے میں شمال سے جنوب کی جانب ہجرت کرنے والے ہزاروں شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں

یہ بھی پڑھیں

 ان ہزاروں خاندانوں میں ایک خاندان فلسطینی شہری عبدالرحمن کا بھی ہے جن کے خاندان کے آٹھ افراد ایک اسرائیلی فضائی حملے کا اس وقت نشانہ بنے جب وہ 13 اکتوبر کو شمال سے جنوب کی جانب جانے والی شاہراہ صلاح الدین پر قافلے کے ہمراہ سفر کررہے تھے ۔

یہ وہ قافلہ تھا جو صہیونی حکام کی جانب سے 24 گھنٹے کی مہلت کے دوران شمالی علاقہ چھوڑ کر غزہ کے جنوبی حصے کی جانب سفر کررہے تھے ۔

اس قافلے پر حملے کے نتیجے میں 70 سے زائد شہری شہید ہو گئے تھے

عبدالرحمن عمار کے بقول وہ اس ٹرک سے چند سو گز کے فاصلے پر اپنے والد اور بہنوں کے ہمراہ جارہے تھے جب ایک میزائل سے اس ٹرک کو نشانہ بنایا گیا جس پر سینکڑوں لوگ سوار تھے۔

26 سالہ عبدالرحمن عمار کے مطابق دھماکے کے بعد سڑک پر ہر جانب لاشیں بکھری پڑی تھیں اور زخمیوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی ۔

ان حالات میں ان کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا کہ وہ جنوب کی جانب اپنا سفر جاری رکھیں یا واپس غزہ شہر میں اپنے گھر کی جانب چلے جائیں

تاہم بہنوں اور والد کی موجودگی کے باعث انہوں نے جنوبی علاقے کی جانب سفرجاری رکھنے کا فیصلہ کیا ۔جہاں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ایک سکول میں انہوں نے پناہ حاصل کی ۔

لیکن یہاں بھی حالات انتہائی بدتر تھے ،کھانے پینے اور بنیادی ضروریات کا شدید فقدان تھا ۔بالخصوص خواتین کیلئے انتہائی مشکل حالات تھے ،جہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں 30 سے زائد افراد ٹھہرے ہوئے تھے ان حالات میں پردہ یا دیگر بنیادی لوازمات کا تصور بھی محال تھا ۔

انہیں اس کیمپ میں ٹھہرے چند روز ہی گزرے تھے کہ بمباری کا سلسلہ وہاں بھی قریب ترین علاقوں میں شروع ہوگیا ۔جس کی وجہ سے انہوں نے اس جگہ کو چھوڑنے کا بھی فیصلہ کرلیا ۔

لیکن سوال یہ تھا کہ اب کہاں جائیں ؟

عبدالرحمن عمار کے مطابق انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہاں سے نکل کر وہ اپنی پانچ بہنوں کو کہاں لیکر جا سکتے ہیں ۔

عبدالرحمان کہتے ہیں اسرائیل ہمیں اپنے وطن اور زمین سے اسی طرح بے دخل کرنا چاہتا ہے جس طرح میرے دادا اور بزرگوں کو جافا شہر سے نکالا گیا تھا

اور جب ہم نہیں نکلنا چاہتے تو وہ ہمیں بے رحمی سے قتل کرنا چاہتے ہیں

لیکن ان کے پاس ماسوائے اپنے آبائی گھر یعنی غزہ شہر واپس جانے کے سوا کوئی آپشن نہ تھا ۔واپسی کا سفر بھی انتہائی کٹھن اور خطرناک تھا کیوں کہ گاڑیاں دستیاب تھی نہ آنے جانے کا کوئی ذریعہ

وہ اپنا سامان اٹھائے کئی گھنٹے پیدل چلتے رہے تاوقتیکہ ایک ٹیکسی مل گئی جس میں وہ آٹھ افراد اور سامان ٹھونس کر بمشکل بیٹھ کا اپنے گھر کے قریب پہنچے جہاں ملبے اور تباہی کے سوا کچھ بھی باقی نہ تھا

عبدالرحمان کہتے ہیں اسرائیل ہمیں اپنے وطن اور زمین سے اسی طرح بے دخل کرنا چاہتا ہے جس طرح میرے دادا اور بزرگوں کو جافا شہر سے نکالا گیا تھا

اور جب ہم نہیں نکلنا چاہتے تو وہ ہمیں بے رحمی سے قتل کرنا چاہتے ہیں

عبدالرحمن اور ان کے اہلخانہ ان دس لاکھ فلسطینیوں میں شامل ہیں جو 7 اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی صیہونی جارحیت کے نتیجے میں اپنے گھر بار سے محروم ہوچکے ہیں ۔

جبکہ اب تک ان فضائی حملوں کے نتیجے میں 6 ہزار کے قریب شہری شہید اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوچکے ہیں اور یہ اعداد ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔