اعجاز علی فری لانس صحافی ہیں۔ انہوں نے جرمنیسے
یوروپین اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی ہے ,مختلف قومی و بین الاقوامی معاملات پر لکتھتے ہیں سماجی خدمات کے حوالے سے سرگرم ہیں ان سے ijazsrsp@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
پاکستان کی صحافت میں چند نام ایسے ہیں جنہوں نے اپنی محنت,لگن اور پیشہ ورانہ مہارت سے ملکی صحافت پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں .آنے والے وقتوں میں جب بھی پیشہ وارانہ صحافتی دیانت کا اگر کہیں ذکر ہوگا تو ان میں رحیم اللہ یوسفزئی کا نام اولیں فہرست میں ضرور شامل ہوگا
ملکی سیاست کے علاوہ افغان امور پر ان کی رائے مستند تسلیم کی جاتی تھی اور جنہوں نے افغان جہاد اور بعدازاں بھی قلم کے زریعے انسانی المیوں کو اجاگر کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا
گذشتہ چند سالوں سے علالت کے باوجود انہوں نے قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ نہیں توڑا .تاوقتیکہ 9 ستمبر کو آسمان صحافت کا یہ درخشاں ستارہ داعی اجل کو لبیک کہہ گیا
رحیم اللہ یوسفزئی صحافت کا ایک معتبر و محترم نام ہے ،جنہوںنے 1979 میں افغانستان پر روسی جارحیت کے بعد سے اب تک جنگ زدہ علاقوںکے حوالے سے موثر رپورٹنگ کے ذریعے صحافت میںاپنا منفرد مقام پیدا کیا
.جس میںدنیا کے مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن اور طالبان لیڈر ملامحمد عمر کے (پہلے اور آخری ) انٹرویوسے انہیںعالمگیر شہرت ملی
.
رحیم اللہ یوسف زئی آخری وقت میں انگریزی روزنامے دی نیوز پشاور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جبکہ جیونیوز کے ساتھ بحیثیت تجزیہ نگار اور اس کے علاوہ وہ بی بی سی اردو اور پشتو سروس کے ساتھ بطورنمائندہ کام کرتے رہے
.جبکہ وہ کافی عرصہ تک پاکستان میںٹائم میگزین کی نمائندگی بھی کرتے رہے .اس کے علاوہ وہ کئی بین الاقوامی اداروںمثلا دینیوزانٹرنیشنل ،گلف نیوز ،ایشین نیوز ،ایشین افیئرز ،ٹائم ،عرب نیوز ،نیوز لائن ،انڈیا ٹوڈے ،آئوٹ لک اور الجزیرہ کیلئے بھی تسلسل کیساتھ لکھتے رہے ہیں
ارطغرل رزم و بزم کا نیا عنوان کیسے بنا ؟
تنم فرسودہ جاں پارہ ،جامی کی تڑپ جو آج بھی عشاق کو تڑپاتی ہے
صحافتی طرزعمل کو نئی اور مضبوط بنیاد فراہم کی
ڈان خیبر پختونخواہ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اسماعیل خان جنہوںنے اسامہ بن لادن کے انٹرویو کیلئے ان کے ساتھ سفر کیا
وہ بتاتے ہیںکہ مجھے رحیم اللہ یوسفزئی جیسے کہنہ مشق صحافی کی نگرانی میں دس سال تک کام کرنے کا موقع ملا ،بعض اوقات وہ کئی گھنٹوںتک مسلسل کام کی وجہ سے تھک کر اپنی کرسی پر ہی سوجاتے
.خبروںکی تلاش اور اور حقائق کی تصدیق کےلئے وہ دنوںسفر کرتے .اور پوری طرح چھان پھٹک کے بعد ہی خبرکو شائع کرنے کےلئے بھیجتے .
رحیم اللہ یوسفزئی کا کام منفرد کیسے ہوتا تھا ؟
رحیم اللہ یوسفزئی نے خبروںکے حصول اور اشاعت کےلئے اپنا مستند اور مصدقہ طرزاپنایا ،اور ان کا یہی طریقہ کار ان کے منفرد مقام کا سبب بنا.1978 سے افغان جنگ اور بعدازاں2001 کے بعد انہوں نے خبروںکے حصول کےلئے کئی بار اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے سے بھی گریز نہ کیا .بعضاوقات وہ بمباری کی زد میںبھی آئے اور کئی بار بارودی سرنگوںمیںبھی جا پھنسے
اس حوالے سے رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا 1978 کے بعد افغانستان میں رپورٹنگ کے دوران اور 2001 کے بعد پاکستان میںکام کے دوران مختلف فریقین کی جانب سے انہیںمتعدد باردھمکیاںبھی دی گئیں،اور بعضاوقات انہیں نشانہ بنانے کی کوشش بھی کی گئی.
اسماعیل خان بتاتے ہیں،میںنے رحیم اللہ یوسفزئی سے خود کو غیرجانبدار رکھتے ہوئے خبرکے حصول سے لیکر پوری کہانی کو جوڑنے تک ہر مرحلہ کو سیکھنے کی کوشش کی
،کیوںکہ اپنے بے باک و بے خوف اندازاظہار کی وجہ سے نرم خو رحیم اللہ یوسفزئی اپنے خبروںکےذرائع کیلئے ہمیشہ ایک بااعتماد ذریعہ رہے .
اور اپنے پیشہ ورانہ فرائضکے دوران انہوںنے صحافت کی ساکھ ،مقصدیت کو ترجیحدی جو ان کے کام کے دیرپا اور موثر ہونے کا ذریعہ بنا .اس تمام عرصہ کے دوران ان کا دامن ہرطرح کی آلائشوںسے پاک رہا
اثرات
دی نیوز کے کالم نگار مراد علی کہتے ہیں رحیم اللہ یوسفزئی کی اپنے پیشے سے محبت اور اخلاص کی اس سے بڑی اور کیا نشانی ہوگی کہ انہوں نے متعدد حکومتوںکی جانب سے کئی بار پیش کی جانے والی مراعات و عہدوںکو رد کردیا ،
انہوں نے پاکستانی صحافت اور صحافیوںپر گہرے اثرات مرتب کئے ،اور وہ صحافت میںقسمت آزمائی کرنے والے کئی لوگوںکےلئے اس پیشے کے انتخاب کا سبب بنے .
دی نیوز کے ساتھ گزشتہ 21 سال سے وابستہ اور کیٹ ویب ایوارڈ اور DAG Hameerskjold fello of 2009جیتنے والے صحافی مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں.
رحیم اللہ یوسفزئی ایسے صحافی ہیںجنہوںنے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوںکو نبھانے میںکبھی صحافتی اقدار کو نظر انداز نہیںکیا .ان کے ساتھ کام کرنے کےلئے دل سے خوف کو نکالنا ہوتا ہے جو سچی صحافت کےلئے پہلی شرط ہے .
انہوں نے صحافت میں کام اورنام کا جذبہ رکھنے والوںکی ہر قدم پر رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ،وہ کام کرنے والوںکی حوصلہ افزائی کرتے ، جمع کروائی جانے والی ہر خبراور سٹوری کو خود پڑھتے ،اس میںکمی بیشی کی نشاندہی کرتے اور اسے بہتر بنانے کیلئے رہنمائی فراہم کرتے .
رحیم اللہ یوسفزئی کا کٹھن سفر
اپنی انتھک محنت اور جدوجہد سے عالمی سطح پر صحافت کی دنیا میںنام اور مقام کمانے والے رحیم اللہ یوسفزئی 1954 میںخیبرپختونخواہ (سابقہ شمال مغربی سرحدی صوبہ )میںمتوسط گھرانے میںپیدا ہوئے
1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد ان کے والد جنگی قیدی بنالئے گئے تو اپنے خاندان کی کفالت کیلئے انہیںگریجویشن کے بعد اپنی تعلیم کو سلسلہ منقطع کرتے ہوئے روزگار کی طرف رجوع کرنا پڑا
،انہیںپہلی نوکری کراچی سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار د ی سن میںبطور پروف ریڈر ملی کچھ عرصہ بعد انہیںاسی اخبار میںبطور سب ایڈیٹر نوکری مل گئی
،لیکن بدقسمتی سے کچھ عرصہ بعد ہی اخبار فوجی آمر جنرل ضیاءکی آمریت کی بھینٹ چڑھ کر بند ہوگیا .یہ وہ دور تھا جب صحافیوںکو فوجی عدالتوںکے ذریعے مقدمات چلا کر قید وبند اور کوڑوںکی سزائیں ملیں.
لیکن اس وقت تک صحافت رحیم اللہ یوسفزئی کے خون میںرچ بس چکی تھی ،وہ جنوبی ایشیا کے بارے میںلکھتے ،اس دوران انہوںنے افغانستان کے متعدد دورے کئے جہاںان کی تمام قیادت سے ملاقاتیںہوتی رہیں،اور پھر جب 1991 میںدی نیوز انٹرنیشنل کے پشاور ایڈیشن کا آغاز ہوا تو وہ اس ادارے کیساتھ بطور ایڈیٹر وابستہ ہوگئے .
اہل خانہ کے تاثرات
رحیم اللہ یوسفزئی کے بڑے بیٹے ارشد یوسف زئی بتاتے ہیں ،ایسا کئی بار ہوا کہ ہم ان سے کوئی بات کررہے ہوتے تو درمیان میںان کا فون بجنا شروع ہوجاتا اور وہ
بات کو چھوڑ کر فون کی طرف متوجہ ہوجاتے ،شاید ہی ہمیں اپنی بات پوری کرنے کا موقع مل پایا ہوا،اورشروع سے ہی ایسا ہوتا رہا ہے
لیکن وہ بتاتے ہیںکہ جب میںچھوٹا تھا تو میں 1986 میںان کے ساتھ پشاور منتقل ہوگیا ،جبکہ باقی گھر والے گائوںمیں ہی تھے ،تو ہر روز صبحسکول جانے کےلئے خود انہیںاپنے ہاتھوںسے ناشتہ تیار کرکے دیتے ،کنگھی کرتے ،اور جوتے پالش کرکے تیار کرکے بھیجتے تھے ،حالانکہ گھر میںملازم بھی تھے لیکن میرے زیادہ تر کام وہ خود کرتے تھے
لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوںنے اپنی زندگی ایک طرحسے صحافت کیلئے وقف کررکھی تھی ،وہ زیادہ تر فیلڈ میںرہتے ،کیوںکہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ صحافت ہی میری زندگی کا مقصد ہے
افغان جنگ کے دوران وہ بہت مصروف رہا کرتے تھے،اگر ناشتے پر ملتے تو پھر کہیںدو یا تین دن بعد جا کر ہی ان سے ملاقات ہوپاتی ،کیوںکہ کبھی انہیںکوئٹہ جانا ہوتا ،اور کبھی ہمیںمعلوم ہوتا کہ وہ خوست ،قندھار میں ہیںاور کبھی خبر آتی کہ وہ وزیرستان کے راستے افغانستان جاچکے ہیں
فلاحی کام اور اعزازات
رحیم اللہ یوسفزئی اپنے علاقے اورلوگوںکیلئے فلاحی و سماجی سرگرمیوںمیںبڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں،کئی بار وہ غریب و مستحق مریضوںکو شہرمیںعلاج معالجے کیلئے خود لے کر جاتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میںتعمیر و ترقی کےلئے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں
ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئےحکومت پاکستا ن نے انہیں 2005 اور 2010 میںدو بارستارہ امتیاز سے نواز ا .
رحیم اللہ یوسفزئی کو افغان امور کے حوالے سے ایک مستندرائے تسلیم کیا جاتا تھا،ان کی ذات سیکھنے والوںکےلئے بذات خود ایک ادارے کی حیثیت رکھتی تھی اپنی ملنسار طبیعت کے باعث جہاں اپنے لوگ ان سے محبت کرتے تھے وہیں صحافت میں ان کے اعلی اخلاقی اور تجزیاتی معیار کی وجہ سے دنیا اس کا احترام کرتی تھی