احمد کمال: صحافی
2025غزہ کی سرزمین آج بھی لہو سے لال ہے۔ دو سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے جب اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر اپنا وحشیانہ حملہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں 66 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں، اور غزہ کی 80 فیصد سے زیادہ عمارتیں تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔
یہ انسانی المیہ نہ صرف فلسطینیوں کی جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کی منافقت کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ پاکستان، جو ہمیشہ سے فلسطینی قوم کا سچا حامی رہا ہے، اس بحران کو اپنے دلوں کی گہرائیوں سے محسوس کرتا ہے۔ ہمارے لیے غزہ صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں، بلکہ امت مسلمہ کی مشترکہ جدوجہد اور انصاف کی آواز ہے۔آج جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی “غزہ امن پلان” سامنے آیا ہے، جو اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کی توثیق پا چکا ہے،
تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ واقعی امن کا راستہ ہے یا ایک نیا قبضہ؟
دوسری طرف، مسلم دنیا کا اپنا پلان – جو عرب لیگ اور تنظیم اسلامی تعاون (OIC) کی جانب سے پیش کیا گیا – فلسطینی خودمختاری اور انصاف پر مبنی ہے۔
ایک پاکستانی صحافی کی حیثیت سے میں دونوں پلانوں کا تفصیلی جائزہ لیتا ہوں۔ یہ آرٹیکل غزہ کی موجودہ صورتحال، دونوں پلانوں کی تفصیلات، ان کی موازنہ، اور پاکستان کی پالیسی پر روشنی ڈالے گا۔غزہ کی موجودہ صورتحال: ایک انسانی المیہ غزہ، جو دنیا کے سب سے گنجان علاقوں میں سے ایک ہے، آج ایک کھلی جیل کی طرح ہے۔ اسرائیلی حملوں نے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا بلکہ پانی، بجلی، اور صحت کی سہولیات کو ختم کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ کی 90 فیصد آبادی خوراک کی شدید قلت کا شکار ہے، اور بچوں کی اموات کا سلسلہ رکا نہیں۔
حماس کے پاس اب بھی 48 یرغمال اسرائیلی ہیں، جن میں سے 20 زندہ سمجھے جاتے ہیں، جبکہ اسرائیل نے ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار کر رکھا ہے۔
پاکستان کی نظر میں یہ صورتحال “انسانی نسل کشی” ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسے “دل دہلا دینے والا المیہ” قرار دیا، اور پارلیمنٹ نے متحدہ طور پر اسرائیل کی مذمت کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
- غزہ جنگ ،حماس کی 10 نکاتی حکمت عملی جو اسرائیل کو زمین بوس کرسکتی ہے
- غزہ،جہاں زندگی ہرلمحہ موت کا انتظار کرتی ہے
- فلسطین اسرائیل تنازعہ اور کشمیری انتفادہ
ہمارا مؤقف واضح ہے: فلسطینیوں کا 1967 کی سرحدوں پر مبنی آزاد ریاست کا حق تسلیم کیا جائے، اور بیت المقدس کو دارالحکومت بنایا جائے۔
ٹرمپ پلان: ایک امریکی خواب یا فلسطینی خواب توڑنے کا ہتھیار؟ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی پلان 29 ستمبر 2025 کو وائٹ ہاؤس میں پیش کیا گیا، جسے نیتن یاہو نے قبول کر لیا ہے۔
ٹرمپ نے اسے “تہذیب کی عظیم ترین کامیابی” قرار دیا، اور حماس کو “تین چار دن” میں قبول کرنے کا الٹی میٹم دیا، ورنہ “بہت افسوسناک انجام” کی دھمکی دی۔
ٹرمپ پلان کے اہم نکات یہ ہیں:
- فوری جنگ بندی اور یرغمالوں کا تبادلہ: حماس تمام 48 یرغمال (زندہ اور مردہ) 72 گھنٹوں میں واپس کرے، بدلے میں اسرائیل 250 عمر قید کی سزائیں اور 1700 فلسطینی قیدی چھوڑے۔
- حماس کا خاتمہ: حماس غزہ کی حکومت سے ہٹے، اس کے ارکان کو “امن پسند” ہونے پر معافی دی جائے، یا باہر نکلنے کی اجازت۔
- عارضی حکومت: غزہ میں “پیس بورڈ” قائم ہو، جس کی سربراہی ٹرمپ کریں گے، اور ٹونی بلیئر (سابق برطانوی وزیر اعظم) شامل ہوں گے۔ فلسطینی ٹیکنوکریٹس خدمات چلائیں گے۔
- انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (ISF): عرب اور مسلم ممالک کی فوج غزہ کی سلامتی سنبھالے، اسرائیل مرحلہ وار واپس ہو، لیکن سرحد پر موجود رہے۔
- انسانی امداد اور تعمیر نو: فوری امداد، انفراسٹرکچر کی بحالی، اور غزہ کو “مڈل ایسٹ کی ریویئرا” بنانے کا وعدہ – بغیر فلسطینیوں کو زبردستی نکالے۔
یہ پلان نظر تو بھلانے والا ہے، لیکن ایک پاکستانی کی نظر میں یہ اسرائیلی مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔ حماس کو ختم کرنے کا مطالبہ فلسطینی مزاحمت کو کچلنے کی کوشش ہے، جبکہ ٹرمپ کی سربراہی غزہ کو امریکی نوآبادیاتی پروجیکٹ بنا دیتی ہے۔
فلسطینیوں کے لیے کوئی ضمانت نہیں کہ اسرائیل واپس ہوگا، اور “ریویئرا” کا خواب اصل میں جنوری 2025 میں ٹرمپ کے اس بیان کی یاد دلاتا ہے جہاں انہوں نے غزہ کو “امریکی ملکیت” قرار دیا تھا۔
مسلم پلان کیا ہے ؟

مسلم پلان: فلسطینی خودمختاری کی بنیاد پر امنمسلم دنیا کا پلان، جو مارچ 2025 میں قاہرہ میں عرب لیگ کے سمٹ میں پیش کیا گیا اور OIC نے جدہ میں منظور کیا، ایک متوازن اور فلسطینی مرکز پرست نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔
اس کے تین مراحل ہیں:
- عارضی اقدامات (6 مہینے): فوری جنگ بندی، یرغمالوں کا تبادلہ، انسانی امداد کی بحالی، اور غزہ میں فلسطینی اتھارٹی (PA) کی واپسی۔
- تعمیر نو (2-3 سال): 53 بلین ڈالر کی لاگت، عرب اور مسلم ممالک کی فنڈنگ سے غزہ کی بحالی، بغیر فلسطینیوں کو منتقل کیے۔ حکومت اور سلامتی (2 سال): PA غزہ کی حکومت سنبھالے، حماس کو خطرہ نہ بننے دیا جائے، لیکن فلسطینیوں کی خودمختاری یقینی بنائی جائے۔ اقوام متحدہ کی نگرانی میں بین الاقوامی فورس۔
- یہ پلان فلسطینی ریاست کی بنیاد رکھتا ہے، جہاں PA کی اصلاحات ضروری ہیں لیکن اسرائیلی قبضے کا خاتمہ لازمی ہے۔ OIC اور یورپی ممالک (فرانس، برطانیہ، اٹلی، جرمنی) نے اس کی حمایت کی ہے۔
پاکستان، جو OIC کا اہم رکن ہے، اس پلان کو فلسطینی خود ارادیت کی ضمانت سمجھتا ہے۔
ٹرمپ پلان بمقابلہ مسلم پلان: ایک موازنہ دونوں پلانوں میں مماثلتیں ہیں جیسے جنگ بندی اور امداد، لیکن فرق بنیادی ہے۔ نیچے ایک جدول میں موازنہ پیش ہے:
پہلو | ٹرمپ پلان | مسلم پلان |
---|---|---|
حکومت | ٹرمپ کی سربراہی میں عالمی بورڈ، حماس کا خاتمہ، PA کی تاخیری واپسی | PA کی فوری واپسی، فلسطینی خودمختاری پر زور |
سلامتی | ISF (عرب/مسلم فوج)، اسرائیل سرحد پر رہے | UN کی نگرانی میں بین الاقوامی فورس، اسرائیلی واپسی مکمل |
تعمیر نو | امریکی/عالمی فنڈز، “ریویئرا” ماڈل | 53 بلین ڈالر، عرب/مسلم فنڈنگ، فلسطینیوں کی بغیر نقل و حرکت |
فلسطینی حقوق | محدود، حماس کو سزا، کوئی ریاست کی ضمانت | 1967 سرحدیں، آزاد ریاست، بیت المقدس دارالحکومت |
نقصانات | اسرائیلی مفادات کی حفاظت، امریکی مداخلت | فنڈنگ کے چیلنجز، حماس کی مزاحمت |
ٹرمپ پلان اسرائیلی دائیں بازو کی ضروریات پورا کرتا ہے، جبکہ مسلم پلان فلسطینی جدوجہد کا احترام کرتا ہے۔
پاکستان کا نقطہ نظر: فلسطین ہمارا ایمان ہےپاکستان کا مؤقف ہمیشہ واضح رہا: اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے جب تک فلسطینی ریاست نہ بنے۔
ہم نے غزہ کو انسانی امداد بھیجی، فلسطینی طلبہ کو سکالرشپس دیے، اور OIC میں فعال کردار ادا کیا۔
حالیہ طور پر، وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے غزہ میں مسلم امن فورس کے لیے پاکستان کی ممکنہ شمولیت کا اشارہ دیا، لیکن صرف UN کی نگرانی میں۔
تاہم، وزیر اعظم شہباز شریف کا ٹرمپ پلان کی حمایت کا بیان متنازع ہو گیا ہے، جس پر X پر شدید تنقید ہوئی۔
ایک پاکستانی کے طور پر، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا کردار مسلم پلان کی حمایت اور ٹرمپ پلان کی تنقید ہونا چاہیے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی فلسطینیوں کی آواز بن سکتی ہے، جیسا کہ جنرل اسمبلی میں شریف نے کہا: “ملٹی لیٹرلزم کی ضرورت ہے۔”
نتیجہ: انصاف ہی امن کی ضمانت ہےغزہ کی صورتحال ایک امتحان ہے – امت کا، اور انسانیت کا۔ ٹرمپ پلان ایک امریکی شطرنج کا کھیل ہے جو فلسطینیوں کو بے سمت کر دیتا ہے، جبکہ مسلم پلان انصاف کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ پاکستان، جو 1947 میں فلسطین کی حمایت کر چکا، اب بھی فلسطینیوں کا سہارا بن سکتا ہے۔ OIC کو فوری سمٹ بلانا چاہیے، اور عالمی برادری کو مسلم پلان کی حمایت کرنی چاہیے۔یاد رکھیں، امن زبردستی نہیں، انصاف سے آتا ہے۔ فلسطین زندہ باد! پاکستان فلسطین کے ساتھ!