دیگر پوسٹس

تازہ ترین

ہالینڈ کی نوریلی اور ہمارے معاشرتی رویے

تحریر:- طارق زمان

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ڈچ بائیک رائڈر کو پولیس کے غیر ضروری سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شمالی علاقوں کی سیر پر آئی نوریلی Noraly نامی سیاح سے پولیس ٹیم پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ اس دوران پولیس اہلکاروں کی جانب سے کچھ نامناسب سوالات پوچھے جا رہے ہیں جیسے ان کا شوہر کہاں ہے؟ 37 سال عمر ہونے کے باوجود انہوں نے شادی کیوں نہیں کی؟ خاتون سیاح نے ذاتی نوعیت کے سوالات پر ناراضی کا اظہار کیا اور سارے واقعہ کی ویڈیو ریکارڈ کرکے اپنے سوشل میڈیا چینل پر اپ لوڈ کر دی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بٹ گرام نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایک پولیس اہلکار کو معطل کر دیا جبکہ دیگر دو کے خلاف محکمانہ تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ ڈی پی او نے واضح کیا ہے کہ ایسے غیر پیشہ وارانہ اور نامناسب رویے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سیاحوں کو تحفظ دینا پولیس کا فرض ہے ان سے نامناسب سوالات پوچھنا ناقابل قبول ہے۔

پولیس اہلکاروں کو ایک غیر ملکی خاتون سیاح سے ایسے سوالات پوچھنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ ویڈیو وائرل ہونے سے چند اہلکار پولیس فورس کی جگ ہنسائی کا باعث بنے ہیں۔ یقیناً پولیس اہلکار سیاح کے ہیلمٹ میں لگے کیمرے سے بے خبر تھے اگر وہ جانتے کہ خفیہ کیمرے سے ان کی ویڈیو بن سکتی ہے تو وہ انتہائی شائستہ رویہ روا رکھتے۔ کیوں کہ ہمارے ہاں ایک چہرے پر دو روپ سجانے کا ہنر بھی عام ہے۔

یہ بھی پڑھیں

معاشرتی رویوں سے افراد کے درمیان تعلقات تشکیل پاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مہمان نوازی، صلہ رحمی اور بزرگوں کی عزت کرنے جیسے مثبت رویے بھی ہیں لیکن دوسری طرف کچھ منفی رویے بھی عام ہیں جن میں دوسروں کے معاملات میں بے جا مداخلت، اپنے پسندیدہ نظریات دوسروں پر تھوپنا، غیر ذمہ داری اور رواداری کی کمی قابل ذکر ہیں۔

دوسروں کے معاملات میں بے جا مداخلت اور کسی کی ذاتی معلومات کی کھوج لگانا باہمی اعتماد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں کچھ افراد اس کو فریضہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ فریقین کے مابین کوئی حل طلب مسئلہ زیر بحث ہو تو غیر متعلقہ لوگ بھی شامل ہو کر معاملہ بگاڑنے میں کسر نہیں چھوڑیں گے۔ پولیس اہلکار بھی آخر اس معاشرے کا حصہ ہیں ان کی پیشہ وارانہ تربیت ضرور ہوئی ہوگی لیکن جو تربیت معاشرہ کرتا ہے اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔

نوریلی شاید پہلی بار پاکستان آئی ہوں گی اس لیے انہوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے لیکن ہم ایسے رویوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم تو پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران دس نشستیں چھوڑ کر بیٹھے شخص کو روزگار اور ماہانہ آمدن کی تفصیل بتاتے ہوئے جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ کچھ لوگوں کو سر راہ ملاقات میں بچوں کی تعداد اور عمریں بتانی پڑتی ہیں۔ ایسے بھی مل جاتے ہیں جو پڑوسیوں اور دیگر رشتہ داروں کے متعلق موٹی موٹی تفصیلات نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی کھوجی سامنے سے نمودار ہوں تو ذہنی کوفت سے بچنے کے لیے اچانک راستہ بدلنا پڑتا ہے۔

وائرل ویڈیو میں نوریلی کی ناراضی دیکھ کر چند پولیس اہلکاروں کے خلاف شاید قانونی کارروائی بھی ہو جائے لیکن معاشرتی ڈھانچے کی مضبوطی کے لیے تعلیم، بیداری شعور اور اخلاقی آگاہی سے رویوں میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ دوسروں کی عزت نفس کے احساس اور رواداری کے جذبے کو فروغ دے کر ایک صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ بہر حال بٹ گرام پولیس کے چند اہلکاروں کے نامناسب رویہ کی وجہ سے خیبر پختونخواہ پولیس کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ ایک خاتون سیاح کو پیش آنے والا واقعہ علاقے میں سیاحت پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ حکام کو چاہیے کہ سیاحت کے لیے مشہور پر فضا مقامات پر بااخلاق اور تربیت یافتہ سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کریں جس سے سیاحوں کو سہولیات میسر آئیں