دیگر پوسٹس

تازہ ترین

!ایوان یا میدان ؟ اور بیان مولانا فضل الرحمن

تحریر : سدھیر احمد آفریدی مولانا فضل الرحمان...

غزہ کی صورتحال اور ٹرمپ پلان بمقابلہ مسلم پلان

احمد کمال: صحافی 2025غزہ کی سرزمین آج بھی لہو...

موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کو کم کرنے میں باغات کا کردار اور اہمیت

تحریر:- طارق زمان صوبہ خیبر پختونخواہ میں بد قسمتی سے...

ہالینڈ کی نوریلی اور ہمارے معاشرتی رویے

تحریر:- طارق زمان گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک وائرل...

باب خیبر :قبائلی رہنما کی رہائی کیلئے کل جماعتی کانفرنس، قید ماورائے قانون ہے : اعلامیہ

خیبر (سسدھیراحمدآفریدی) جمرود میں زوان کوکی خیل اتحاد کے زیر...

!ایوان یا میدان ؟ اور بیان مولانا فضل الرحمن

تحریر : سدھیر احمد آفریدی

مولانا فضل الرحمان مدظلّہ العالی کا یہ جملہ پڑھ کر قاضی حسین احمد مرحوم کی بات یاد آگئی۔ ایک بار سینیٹر قاضی حسین احمد مرحوم نے پارلیمنٹ کو گندگی کا ڈھیر کہا تھا اور اگلے روز استعفیٰ دیا۔۔ وہ خود بطور سینیٹر اور سینیٹر پروفیسر خورشید احمد مرحوم کے بارے میں سنا اور پڑھا ہے کہ وہ دونوں تنخواہ بھی نہیں لیتے تھے اور اپنی تنخواہیں ایوان کے کلاس فور ملازمین میں بانٹتے تھے۔

افسوس تو یہ بھی ہے کہ اس ملک میں ڈاکٹر قدیر خان جیسے ہیروں کی بھی کبھی قدر نہیں کی گئی ہے۔ جو اپنے محسنوں کی بے قدری کرتے ہیں وہ ہمیشہ ذلیل ہوتے ہیں۔


مولانا محترم موجودہ سیاستدانوں میں بلاشبہ سب سے زیادہ زیرک اور باخبر رہنماء ہیں اور اپنی بات اور اپنا مؤقف دلیل اور جرات کے ساتھ پیش کرنے کی خداداد صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بلکل مولانا صاحب کی بات درست ہے کہ موجودہ ایوان کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں۔ یہ تو پاکستان کا ہر باشعور شہری سمجھتا ہے کہ جعلی پارلیمنٹ ہے اور خود مولانا محترم کی سیٹ کے بارے میں لوگوں کی رائے ہے کہ فارم 47 کی پیداوار ہے بحر حال میں الزام تو نہیں لگا رہا لیکن عام خیال یہی ہے کہ یہ جعلی ایوان ہے۔


اب اگر یہ فارم 47 کی بنیاد پر بنائی گئی جعلی پارلیمنٹ ہے تو یقیناً اس کی اہمیت اور حیثیت نہیں ہوگی لہذا مولانا محترم درست کہتے ہیں۔ مولانا محترم پی ڈی ایم کے شاید آج بھی صدر ہیں لیکن جب وہ عمران خان کی حکومت گرانے کے لئے عدم اعتماد کی تحریک لا رہے تھے اس وقت بھی مولانا نے ارشاد فرمایا تھا کہ آئی ایس آئی کی مس میں قانونی سازی اور مشاورت ہو رہی تھی اور وہاں سے ان کو گائڈ لائن ملتی تھی اور مولانا کی تائید کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف وغیرہ نے بھی انہی باتوں کا اعتراف بار بار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں


لہذا اصولی بات یہ ہے کہ اگر پارلیمان کی اہمیت نہیں رہی ہے اور یقیناً آج کی پارلیمنٹ بے معنی اور بے اختیار ہے اس کو کسی بھی صورت میں عوام کا نمائندہ، منتخب اور بااختیار پارلیمنٹ نہیں کہا جا سکتا۔بس ایک شو پیس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں اور یہی سچائی ہے جو مولانا فضل الرحمان مدظلّہ العالی نے بیان کی ہے۔ ہائبریڈ رجیم بنا دی گئی ہے جس میں پارلیمنٹ کا کردار نمائشی ہے

کچھ سیاستدان تو اس کو ربڑ اسٹمپ بھی قرار دے چکے ہیں وہ بھی غلط نہیں کہتے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے فیصلے از خود کرتی آرہی ہے اور بعد میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔سزا پہلے ملیگی اور مقدمہ بعد میں چلیگا والی بات ہے۔
قانون ساز ادارے میں اگر اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ آزادانہ ماحول میں ملک و قوم کی بھلائی بقاء اور بہتری کے لئے قانون سازی نہیں کر سکتے تو میرا خیال ہے کہ اس پارلیمنٹ کا قیدی بننے سے بہتر ہے

بندہ معاشرے میں کوئی مثبت رول ادا کرے آزادی سے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
مولانا فضل الرحمان اگر واقعی موجودہ ایوان سے میدان کی اہمیت و افادیت زیادہ سمجھتے ہیں تو دیر نہ کریں بس ایک لات مار کر دونوں ایوانوں سمیت صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں سے مستعفی ہو کر باہر آئیں اور عوام کو منظم اور بیدار کر کے ایک بڑی عوامی سیاسی تحریک کا آغاز کریں دیر کرینگے تو اور خرابی پیدا ہوگی۔

مولانا پہل کرینگے تو شاید پی ٹی آئی بھی پیروی کر سکے گی

ملک مشکلات اور آزمائشوں سے دوچار ہے غریب عوام کی قوت خرید جواب دے چکی ہے مہنگائی اور بے روزگاری کا دور دورہ ہے پختونخوا اور بلوچستان میں شدید بدامنی ہے ملک بھنور میں ہے جتنا ہلتا ہے ڈوبتا ہے۔ خارجہ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے بیک وقت روس،چین اور امریکہ کی کشتیوں پر سوار ہیں۔ افغانستان جیسے برادر پڑوسی اسلامی ملک کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ یہ سب کیا ہورہا ہے۔


اس لئے ملک و قوم کو بچانے کے لئے اور مضبوط تر بنانے کے لئے از سر نو انتخاب کی طرف جانا ہوگا اور یہ کوئی خزانے اور وسائل کا نقصان نہیں ہوگا شاید عوام اس بار تو کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہلیت، صلاحیت اور صالحیت کی بنیاد پر پاکستان اور عوام کے سچے خیر خواہوں کو ووٹ دیکر آگے لائیں یقیناً پاکستان پھر درست ٹریک پر روانہ ہوگا۔


ایسی مثالیں دنیا میں خصوصاً جاپان کی موجود ہیں جہاں جلدی جلدی کرپٹ اور نااہل حکومتیں گرا دی گئی ہیں اور از سر نو عوام کی رائے سے نئی حکومتیں قائم کی گئی ہیں اب وہاں مثالی حکومتیں قائم ہیں اور ان کے عوام خوش و خرم ہیں۔


مولانا پہل کرینگے تو شاید پی ٹی آئی بھی پیروی کر سکے گی اور یا پھر مشاورت سے تمام ایوانوں سے بیک جنبش قلم مستعفی ہو کر عوام سے رجوع کریں اور نئے انتخابات کے لئے ماحول تیار کریں شاید یہ ایک راہ بچی ہے جس سے ملک اور قوم کی بہتری کے لئے کرداد ادا کیا جا سکتا ہے۔
اگر دیکھا جائے جی زی کی نئی اصطلاح متعارف ہوئی ہے جس کی رو سے نوجوانوں نے پہلے بنگلہ دیش پھر سری لنکا اور انڈونیشیا وغیرہ میں حکومتوں کو یا تو ختم کر دیا یا گھٹنے ٹیک لینے پر مجبور کر دیا

اور ہاں اسی جی زی نے پورے یورپ میں اٹھ کر اپنی حکومتوں کو اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام کی نسل کشی کی مذمت اور فلسطین کی ریاست تسلیم کروانے پر مجبور کر دیا پاکستان میں بھی نوجوان طبقہ مایوس ہے ہر سال لاکھوں تعلیم یافتہ اور ہنر مند ملک سے بھاگ جاتے ہیں یہ کوئی حوصلہ افزا بات نہیں برین ڈرین ہو رہی ہے یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہماری یوتھ وسائل سے مالامال ملک سے مایوس ہو چکے ہیں

۔ نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور ڈریں اس دن سے جب پاکستان کے مایوس اور مجبور نوجوان بغیر قیادت کے کبھی اٹھے تو یہ غیر منظم ہونگے اور اتنا فساد برپا کرینگے کہ ان کو کنٹرول کرنا ریاست کے بس کی بات نہیں ہوگی اور پھر اشرافیہ کو ملک کے اندر جائے پناہ نہیں ملیگی۔ یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے ہر شاخ پہ الو ظالم بن کر بیٹھا ہے۔ٹھیک ہے معاشرہ مذہبی، مسلکی، لسانی،علاقائی اور قومی و ثقافتی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن اس منتشر اور تقسيم در تقسیم پاکستانی معاشرے کی کئی تکالیف اور پریشانیاں مشترک بھی ہیں اور یہی مشترکہ تکلیف اور پریشانیاں اوریہ مجموعی مایوسی کی لہر ان کو جگانے اور اشتعال دلانے کے لئے چنگاری کا کام دیکر بہت کچھ کر سکتی ہے پھر نہ رہیگا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔