احمد کمال
پاک بھارت کشیدگی کے بارے میں تازہ ترین تناؤ کی ابتدا 22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشت گرد حملے سے ہوئی، جس میں 26 افراد، جن میں زیادہ تر سیاح تھے، ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا، لیکن کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔ اس کے جواب میں بھارت نے کئی سخت اقدامات اٹھائے، جن میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی، اٹاری سرحد کی بندش، پاکستانی شہریوں کے ویزوں پر پابندی، اور سفارتی عملے میں کمی شامل ہے۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی اور بھارت کے اقدامات کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے ذمہ دارانہ ردعمل کا مظاہرہ کیا۔
اس کے بعد سے سرحدی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ بھارت نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر متعدد سیکٹرز میں مسلسل 10 دنوں تک جنگ بندی کی خلاف ورزی کی، جس میں نکیال، کھوئی رٹا، شاردا، کیل، نیلم، اور حاجی پیر سیکٹرز شامل ہیں۔ پاک فوج نے بھارتی فائرنگ کا منہ توڑ جواب دیا۔ بھارت کی جانب سے جوابی کارروائی کے امکانات پر قیاس آرائیاں جاری ہیں، جبکہ پاکستان نے واضح کیا کہ کسی بھی مہم جوئی کا سخت جواب دیا جائے گا۔
عالمی سطح پر ردعمل میں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ روس نے بھی مذاکرات پر زور دیا، جبکہ ترکی نے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا۔ تاہم، امریکہ نے پہلگام حملے پر بھارت کی حمایت کی، لیکن مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر واضح موقف سے گریز کیا۔
یہ بھی پڑھیں
- جدوجہد آزادی کشمیر کا بطل جلیل تاریخ میں امر ہوگیا
- پاکستان کے راستے چین افغان تجارت کا آغاز
- متحدہ عرب امارات کی ثالثی میں پاک بھارت خفیہ مذاکرات
دونوں ممالک کے درمیان سفارتی، فوجی، اور تجارتی تعلقات مزید خراب ہوئے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کی جانب سے پانی روکنے کو جنگی اقدام قرار دیا، جبکہ بھارت نے پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے متاثر ہونے والی اپنی ایئرلائنز کے نقصانات کا ذکر کیا۔ اس صورتحال نے خطے میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے، اور مبصرین کو خدشہ ہے کہ یہ تناؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔
پاک بھارت حالیہ کشیدگی نے خطے میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے، جس کی ابتدا 22 اپریل 2025 کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے سے ہوئی، جس میں 26 ہندو سیاح ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے “آپریشن سندور” کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں میں مبینہ دہشت گردی کے ٹھکانوں پر حملے کیے، جن میں بہاولپور، مریدکے اور مظفرآباد شامل ہیں ۔
اہم واقعات:
- پاکستان کا ردِعمل: پاکستان نے بھارتی حملوں کو “بزدلانہ” قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان میں 31 شہری ہلاک اور 57 زخمی ہوئے۔ پاکستان نے جوابی کارروائی میں پانچ بھارتی طیارے مار گرانے اور 25 بھارتی ڈرونز تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ۔
- سرحدی جھڑپیں: لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر دونوں جانب سے شدید فائرنگ اور گولہ باری کی اطلاعات ہیں، جس سے مزید جانی نقصان ہوا ہے ۔
- ایٹمی خطرہ: پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارت کے ساتھ ایٹمی جنگ کے خطرے کو “واضح اور موجود” قرار دیا ہے، جبکہ عالمی برادری، بشمول امریکہ، چین، اور روس، دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کر رہی ہے
- سفارتی کوششیں: ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا ہے، جبکہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل کے اجلاس کی تجویز دی ہے ۔
- معاشی اثرات: کشیدگی کے باعث بین الاقوامی ایئرلائنز نے پاکستان کی فضائی حدود سے گریز کرنا شروع کر دیا ہے، جس سے پاکستان کی فضائی آمدن متاثر ہو رہی ہے ۔

موجودہ صورتحال:
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے، اور عالمی برادری کی کوششوں کے باوجود حالات میں بہتری کے آثار کم نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے ہیں، اور دونوں جانب سے جوابی کارروائیوں کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ عالمی رہنماؤں کی جانب سے ثالثی کی پیشکشیں جاری ہیں، لیکن تاحال کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے امکانات محدود لیکن مکمل طور پر خارج از امکان نہیں ہیں۔ دونوں ممالک کی تاریخی دشمنی، کشمیر جیسے پیچیدہ مسئلے، اور باہمی عدم اعتماد نے ثالثی کی کوششوں کو ہمیشہ مشکل بنایا ہے۔ تاہم، موجودہ کشیدہ حالات کے پیش نظر عالمی برادری خاص طور پر کچھ ممالک اور بین الاقوامی ادارے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ممکنہ ثالثی کرنے والے فریق:

- چین:
چین چونکہ دونوں ممالک کا ہمسایہ ہے اور پاکستان کا قریبی اتحادی بھی، اس لیے وہ ثالثی کی پیشکش کر سکتا ہے، مگر بھارت عام طور پر چین کی ثالثی کو قبول نہیں کرتا۔ - امریکہ:
امریکہ نے ماضی میں بھی ثالثی کی پیشکش کی ہے، خاص طور پر جب کشیدگی حد سے بڑھ جائے۔ حالیہ بیانات میں بھی امریکہ نے دونوں ممالک سے تحمل اور مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ - ترکی، سعودی عرب، اور ایران:
ان مسلم ممالک نے ماضی میں پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات اور بھارت سے سفارتی روابط کو بنیاد بنا کر ثالثی کی کوششیں کی ہیں۔ حالیہ کشیدگی میں ایران کے وزیر خارجہ کی آمد اس جانب اشارہ ہے کہ خطے کے ممالک فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ - اقوام متحدہ:
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں کشمیر پر موجود ہیں، مگر بھارت ان کو “داخلی معاملہ” قرار دے کر مسترد کرتا ہے۔ اس کے باوجود، اقوام متحدہ محدود - سفارتی دباؤ ڈال سکتا ہے۔
مشکلات اور رکاوٹیں:
- بھارت کا مؤقف:
بھارت عمومی طور پر کسی بھی بین الاقوامی ثالثی کو مسترد کرتا ہے اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو “دو طرفہ” قرار دیتا ہے۔ - پاکستان کا مطالبہ:
پاکستان ہمیشہ سے بین الاقوامی ثالثی کا حامی رہا ہے، خصوصاً کشمیر جیسے مسائل میں، لیکن بھارت کی مزاحمت ثالثی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ - عالمی برادری کی ترجیحات:
یوکرین جنگ، مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال اور دیگر عالمی تنازعات نے دنیا کی توجہ تقسیم کر رکھی ہے، اس لیے فوری اور مؤثر ثالثی کی امید کم ہے۔
افواج پاکستان کی سافٹ کِل (تکنیکی) اور ہارڈ کِل (ہتھیاروں) سے اب تک 25 اسرائیلی ساخت کے :ہیروپ ڈرونز کو مار گرایا گیا ہے- آئی ایس پی آر

افواج پاکستان کی سافٹ کِل (تکنیکی) اور ہارڈ کِل (ہتھیاروں) سے اب تک 25 اسرائیلی ساخت کے ہیروپ ڈرونز کو مار گرایا گیا ہے-
بھارت کے 6/7 مئی کے بزدلانہ حملہ میں 5 جدید طیاروں، ڈرونز، متعدد پوسٹوں کے تباہ اور فوجی ہلاکتوں ہونے کے بعد، بھارت بوکھلاہٹ میں یہ اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرونز سے پاکستان پر حملہ کر رہا ہے-
یہ بزدلانہ حملہ بھارت کی پریشانی اور بھوکلاہٹ کی نشانی ہے-
لائن آف کنٹرول پر بھی بھارت نے بھرپور نقصان اٹھایا اور اٹھا رہا ہے-
پاکستان کے مختلف علاقوں سے اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرونز کا ملبہ اٹھایا جا رہا ہے-
*افواج پاکستان دشمن کو منہ توڑ جواب دے رہی ہیں اور اسکے تمام عزائم کو خاک میں ملا رہی ہیں