سدھیر احمد آفریدی: خیبر
طورخم کے راستے افغان تاریکین کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے واپسی کا عمل خوش گوار انداز میں جاری رکھا گیا ہے پشاور سمیت ضلع خیبر کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی افغان شہریوں اور افغان سیٹیزن کارڈز کے حامل افراد کو نکلنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ لنڈی کوتل کے علاقہ خیبر میں رقت آمیز مناظر بھی دیکھنے کو ملے جب ایک افغان خاندان 40 اور 50 سال بعد پاکستان چھوڑ کر افغانستان روانہ ہونے لگے
زین اللہ 25 سال گزارنے کے بعد جب جا رہا تھا تو بہت رویا۔چیخ چیخ کر رونے والوں میں زیادہ تر وہ نوجوان شامل تھے جن کی پاکستان میں پیدائش ہوئی تھی اور جو یہاں بڑھے ہو کر کسی حد تک تعلیم بھی حاصل کی ہے مقامی لوگوں نے گرم جوشی سے افغان بھائیوں کو رخصت کیا اور نیک
یہ بھی پڑھیں
- پاکستان کے راستے چین افغان تجارت کا آغاز
- طورخم سانحہ جس نے بہت سی آنکھوں سے خواب چھین لئے
- طورخم کے راستے افغان انڈر 19 ٹیم کی پاکستان آمد
تمناؤں کا اظہار کیا پاک افغان شہریوں نے ایکدوسرے سے تعلق قائم رکھنے اور غمی خوشی میں شریک ہونے کا عزم ظاہر کیا
یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی کے گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کے مطابق پہلے فیز میں 9 لاکھ لوگ افغانستان واپس چلے گئے تھے۔ پھر 2021 میں افغانستان میں رجیم چینج کے بعد 6 لاکھ افراد واپس پاکستان آئے تھے جن میں سے 4 لاکھ 80 ہزار افراد نے یو این ایچ سی آر کو اپروچ کیا تھا۔ ترجمان کے مطابق گزشتہ 10 دنوں میں۔کم و بیش 41 ہزار افراد واپس جا چکے ہیں

جن میں 13 ہزار افراد کو ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔ جبکہ مقامی ذرائع کے مطابق یکم اپریل سے 4620 خاندان طورخم کے راستے چلے گئے ہیں جن میں مردوں کی تعداد 13622 ہے، خواتین کی تعداد 9877 بتائی گئی ہے جبکہ بچوں اور بچیوں کی تعداد 20143 بتائی گئی ہے۔ موصولہ فیگرز کے مطابق کل 43642 افراد واپس اپنے وطن افغانستان چلے گئے ہیں۔ افغان شہری سب سے پہلے پنجاب، اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہروں سے نکال دئے گئے ہیں
جہاں اطلاعات کے مطابق اور مبینہ طور پر کچھ افغان خاندانوں کو زبردستی وہاں سے نکال دیا گیا ہے جبکہ خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں سے ابھی تک کسی کے ساتھ زور زبردستی کی اطلاعات نہیں ملی ہیں تاہم مختلف جگہوں پر مساجد کے علماء و خطیبوں، میڈیا اور مقامی عمائدین کے ذریعے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانوں اور افغان سیٹیزن کارڈز رکھنے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ مجوزہ ٹائم فریم کے اندر رضاکارانہ طور پر چلے جائے تاکہ زور زبردستی سے نکالنے کی نوبت نہ آئے
متمول مہاجرین مطمئن ، غریب دربدر
جبکہ حیات آباد پشاور جیسے پوش علاقوں میں وہ افغان مطمئن ہیں جن کے پاس پروف آف رجسٹریشن کے کارڈز ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جون تک ان کے پاس مہلت ہے اس وقت تک کوئی نرمی پیدا ہو سکتی ہے ایسے افغان بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں جو کم و بیش 50 سال پہلے آئے تھے اور ان کے مطابق افغانستان میں ان کی رہائش کے لئے کوئی گھر نہیں اور اگر وہ بنانا چاہے بھی تو غربت کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے ہیں
اسی طرح کچھ افغان طلباء پریشان دکھائی دئے کہ انہوں نے تو پرائمری سے میٹرک اور ایف ایس سی اور بی ایس سی تک یہاں پاکستان میں پڑھا ہے لہذا وہ افغانستان میں تعلیم کیسے جاری رکھ سکیں گے اور وہاں کا نصاب کیسے ان کی سمجھ میں آئیگا۔ کچھ افغان طورخم کے راستے بادل ناخواستہ جاتے ہوئے کہنے لگے کہ اچھا ہوا واپس جاکر اپنے افغانستان کو آباد کر سکیں گے۔