لیڈز یونیورسٹی کے پروفیسر سلمان سید جو اسلاموفوبیا سے متعلق امور کے ماہر ہیں کے مطابق فلسطین میں جاری نسل کشی کیخلاف مزاحمت نے دنیا کو ایک نئے جذبے سے روشناس کروا دیا ہے جو اس سے قبل اسی طرح کے واقعات مثلاً بوسنیا ،میانمار کے روہنگیا مسلمانوں ،چیچن جدوجہد یا ویغور اور کشمیر کے حوالے سے ناپید تھا اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے ایک نئی اور بہتر دنیا کی امید کو روشن کر دیا ہے
حال ہی میں ترک خبر رساں ادارے انادولو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں پروفیسر سید سلمان نے دنیا بھر میں اسرائیل مخالف مظاہروں کو نیولبرل آرڈر کے انہدام کا پیش خیمہ قرار دیا ہے
سوال :دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت اور ان پر ہونے والے تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ،جو فلسطین اور فلسطینیوں کیساتھ اظہار یک جہتی کر رہے ہیں ۔ مغرب میں وہ لوگ بھی جن کا فلسطین اور اسلام سے کوئی واسطہ نہیں جیسا کہ یہودی طبقات ، ملحد یا دیگر مغربی نسلی گروہ ؟
سید سلمان : میرے خیال میں صرف مغربی ممالک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں لاکھوں لوگ غزہ اور فلسطین کی حمایت میں مظاہروں اور ریلیوں میں شریک ہو رہے ہیں ۔لاطینی امریکہ اور افریقہ کی غیر مسلم حکومتیں تل ابیب پر سخت تنقید کرتی رہی ہیں ،جنوبی افریقہ کی حکومت جو خود اسی طرح کی عصبیت کیخلاف نبردآزما رہی ہے کا ردعمل بھی شدید رہا اور ان میں سے بہت سے ممالک اور قوموں کو فلسطینیوں کیساتھ روا رکھا جانے والے سلوک میں اپنے ساتھ ماضی میں رکھے جانے والے ناروا سلوک کی جھلک نظر آ رہی ہے ۔انہیں اندازہ ہے کہ انہیں بھی اسی طرح کے استحصال اور جبر کا سامنا رہا ہے جن حالات کا اب فلسطینی شکار ہیں
میں سمجھتا ہوں کہ فلسطینیوں کے حق میں احتجاج ایک طرح سے ان قوموں اور ملکوں کی جانب سے انسانیت کو پامال کرنیوالی جابر قوتوں کیخلاف ایک طرح کی بغاوت ہے ۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں احتجاج میں یہودی ،مسلمان اور ملحد سب شامل ہیں جنہیں کوئی ایک نکتہ نہیں بلکہ کئی پہلو یکجا کرتے ہیں اور جو غزہ میں ہو رہا ہے وہ ان سب کو متاثر کر رہا ہے

یہ بھی پڑھیں
- فلسطین اسرائیل تنازعہ اور کشمیری انتفادہ
- غزہ جنگ ،حماس کی 10 نکاتی حکمت عملی جو اسرائیل کو زمین بوس کرسکتی ہے
- غزہ،جہاں زندگی ہرلمحہ موت کا انتظار کرتی ہے
سوال: موجودہ نظام میں انسانیت کیخلاف جرائم کا ارتکاب اتنا آسان کیوں بن گیا ہے ؟ اور دنیا ایسا نظام وضع کرنے ناکام کیوں رہی جہاں ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں سزا دی جا سکے اور انسانیت کے مجرموں کو اسی وقت سزا کیوں نہیں دی جاتی بلکہ اس کیلیے عشروں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔
سید سلمان: کہا جا سکتا ہے کہ بوسنیا میں ہونیوالی نسل کشی سے دانستہ طور پر صرف نظر کیا گیا جس کے نتیجے میں میانمار میں روہنگیا کیخلاف ان واقعات کے اعادہ کی جرات پیدا ہوئی ۔روہنگیا کا معاملہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ میانمار جیسے ایک چھوٹے اور انتہائی کمزور ملک میں رونما ہوا جو فوجی و اقتصادی لحاظ سے کئی مسلم ممالک کے مقابلے میں بہت کمزور ہے

۔لیکن اس معاملے میں مسلم ممالک کی خاموشی اور ناکامی نے ان قوتوں کو یہ طاقت عطا کر دی کہ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کیخلاف جو چاہے کر سکتے ہیں
میرا مطلب ہے یہ نظام اتنا فرسودہ اور کھوکھلا ہو چکا ہے کہ اب اس پر کوئی یقین نہیں کر سکتا ۔باوجود یکہ وہ ہر وقت یہی گردان کرتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا کا نظام کیسے چلانا ہے؟ان حالات میں دنیا کو ایک نئے نظام کی ضرورت ہے جو کسی طرف نظر نہیں آ رہا ۔
سوال : آپ سمجھتے ہیں کہ دنیا کیلئے موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے بہتر دنیا کی امید باقی ہے ؟
پروفیسر سید سلمان : فلسطین اور غزہ میں نسل کشی کیخلاف مزاحمت نے ایک نئی بہتر دنیا کی امید پیدا کی ہے ۔ وہ امید جو ہمیں بوسنیا کے وقت ، روہنگیا کے معاملے ،چیچن مزاحمت یا کشمیر اور ویغور مسلمانوں کے وقت یا دیگر کئی مواقع پر نظر نہیں آئی تھی
مثال کے طور پر کشمیر یا ویغور مسئلہ کے حوالے سے مسلم دنیا کے کئی ممالک میں آپ احتجاج نہیں کر سکتے ۔بالکل اسی طرح اب بھی آپ ریاض میں شکیرہ کا میوزک میلہ تو دیکھ سکتے ہیں لیکن فلسطین کے بارے میں احتجاج یا بات نہیں کر سکتے ۔
تاہم کئی مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا ہے اگرچہ بعض جگہوں پر حکومتوں نے ان ریلیوں اور مظاہروں کو روکنے کی کوشش کی ہے جس کی بڑی وہ ان کے اندر کا خوف بھی ہے انہیں ڈر ہے کہ لوگوں کو نکلنے دینے کی اجازت کی صورت میں احتجاج کا رخ خود ان کی جانب بھی ہو سکتا ہے ۔ اور اسی خوف سے وہ عوام کو یکجا نہیں ہونے دیتے ۔
سوال : آپ کے خیال میں اس کا حل کیا ہے ؟
سید سلمان : مسائل کا حل کبھی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے شعور جگانے اور سیاسی جدو جہد کی ضروت ہوتی ہے جس میں ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔جو لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور انہیں متبادل کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں
یعنی معاشی مقاطعہ (بائیکاٹ) ایک مؤثر ہتھیار ہے ۔جس کے بارے میں لوگوں کو ازخود قائل اور مائل کرنے کیلئے تربیت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کام آپ خود کر سکتے ہیں کیونکہ آپ کسی حکومت کو انتہائی قدم کے بارے میں مجبور نہیں کر سکتے ۔
لوگوں کے پاس زیادہ معلومات اور رہنمائی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے بہتر امکانات کی تلاش زیادہ موثر نہیں ہوتی ۔

یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم لوگوں کو بتائیں گے ان کی رہنمائی کرینگے اور دنیا میں اٹھنے والی مزاحمت کی تحریکوں کے بارے میں انہیں تعلیم دینگے ۔ مثلاً اس وقت کتنے مسلمان ہیں جنہیں میلکم ایکس کی جدو جہد ، الجزائر کی تحریک آزادی یا امام شامل کی مزاحمتی تحریک کے بارے میں معلومات ہیں ۔کیونکہ ہمارے ہاں مروج نظام تعلیم کی وجہ سے ایسی بہت سی چیزیں ہمارے ذہنوں سے گم ہو چکی ہیں یا کر دی گئی ہیں ۔یعنی ہمارا ناطہ ٹوٹ چکا ہے اس لیے ہمیں خود کو ایک بار پھر تعلیم دینا ہو گی ۔ اس امید پر کہ ہم آپ یہ تبدیلی لا سکتے ہیں اور یہ تبدیلی لانا آپ کا فرض ہ
سوال : آپ کے خیال میں اس طرح کے نظام تعلیم کی اساس کیا ہو گی ؟
پرفیسر سید سلمان : میرے خیال میں سب سے پہلے ہمیں نوآبادیاتی سوچ سے خود کو آزاد کرنا ہوگا ۔اور اسے جڑوں سے ختم کرنا ہوگا جس کے بعد ہماری خود اعتمادی بحال ہو گی
مثال کے طور پر اسلامی تعاون تنظیم میں ماسوائے ایک دو ممالک کے تمام فوجوں کی بنیاد مغربی بنیادوں پر قائم ہے ۔ یوں ان کی ادارہ جاتی یادداشت نوآبادی سوچ تک محدود ہے ۔جو ان اپنے ہی ہم مذہب مسلمانوں کیخلاف جنگوں اور معرکہ آرائیوں پر مشتمل ہے ۔جس کا مظاہرہ وہ مصر، الجیریا،پاکستان اور انڈونیشیا میں کر چکے ہیں
جب آپ مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور آپ کے پاس ان کا مقامی یا طبع زاد حل جو اپنی تعلیم اور تجربات پر مبنی نہ ہو تو آپ اس کا حل مغربی تعلیم یا تجربات کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں ۔لیکن یہ ان مسائل کا حل نہیں ہوتا اور اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کا ہمیں اس وقت سامنا ہے ۔کیونکہ یہ نظام ایک بہتر اور دیرپا حل دینے کے بجائے طاقت اور جبر کا راستہ دکھاتا ہے ۔اس لیے میں سمجھتا ہوں بہتر مستقبل کیلیے ہمیں نوآبادیاتی سوچ سے خود کو آزاد کرنا ہوگا ۔
یہہ مسائل کا حل ہے جن پر قابو پاتے ہوئے ہم ایک مسلم سیاسی شناخت کے طور پر ابھر سکتے ہیں جس کا واضح مستقبل ہے اور جو خود اپنے مستقبل کی راہ تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
اس کے بغیر ہماری مثال اس بحری جہاز (ٹائٹینک)کے مسافروں جیسی ہے جن میں سے کچھ بڑی اور شاندار کرسیوں پر اور کچھ چھوٹی کرسیوں پر بیٹھے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں لیکن سب کو اندازہ ہے آخر اس جہاز نے ڈوب جانا ہے اور اس کے ساتھ ہم بھی ڈوب جائیں گے