تحریر: سدھیر احمد آفریدی
2018 میں انضمام کے بعد خاصہ دار فورس خیبر پختون خوا پولیس میں ضم کر دی گئی ان کو یہی لولی پاپ دی گئی تھی کہ ان کو خیبرپختونخوا پولیس والی سروس سٹرکچر ملیگی اور جو مراعات اور سہولیات بندوبستی اضلاع کی پولیس کو حاصل ہیں وہی سب کچھ قبائلی پولیس کو بھی فراہم کر دی جائیگی اور یہ ان کے بنیادی قانونی حقوق ہیں مگر افسوس ایسا ابھی تک نہیں ہوا
یہ بھی پڑھیں
پہلے قبائلی عوام خاصہ داروں کے سروں پر پولیس کی ٹوپی برداشت نہیں کرتے تھے اس کو رسم و رواج کے منافی سمجھتے تھے اب ان کو باوردی بھی برداشت کرینگے تبدیلی آ نہیں رہی آ گئی ہے۔ توکل آفریدی کے کچھ اشعار یاد آئے وہ پڑھ لیں پھر آگے بڑھتے ہیں!
چہ تورے خولے ئے پہ سر کڑے پوئے شوو
چہ دا وطن ویرانوی خاصہ دار
درے گھنٹے پس راشی چہ ڈزے وشی
زان نہ بہ جوڑ کی مزری خاصہ دار
چہ امریکے آفسران راشی کلہ
ورتہ حیران وی غرنی خاصہ دار
جیل ئے حجرہ دو چہ ترے ونہ ڈور شو
پایتے تہ ناست وی غرمانی خاصہ دار
توکلہ ٹول خو داسے نہ وی گورہ
لک پکے غوڑ وی دا ڈپٹی خاصہ دار
- خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے بڑھتے سائے ، افغان سرزمین کی جانب اٹھتی شک کی نگاہیں
- باب خیبر پر سیاہ جھنڈوں کے ساتھ قبائل کا ایک ماہ طویل دھرنا
- اخوندسالاک کابلگرامی مغلیہ سلطنت کےخلاف قبائل کو متحد کرنیوالے صوفی بزرگ
جن خاصہ داروں نے رقم دیکر “خاصہ داری” خریدی تھی یا بطور مراعات کسی کو سابق پولیٹیکل انتظامیہ سے ملی تھی انہوں نے 60 سال تک ریاست پاکستان اور عوام کی خدمت کی 2018 میں جبری انضمام ہوا تو خاصہ دار پولیس اہلکار بن گئے بہت احتجاج ہوا، مظاہرے ہوئے اور خاصہ دار فورس کی کمیٹی بنی 22 نکات بھی پیش ہوئے اوپر نیچے ہر سطح پر خاصہ دار فورس کی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات ہوئے وعدے وعید کئے گئے نوٹیفیکیشن جاری ہوئے لیکن نہ تو ابھی تک ان کو سروس سٹرکچر اور نہ ہی پنشن ملی ہے آسمان سے گرا کھجور میں آٹکا کے مصداق سابق خاصہ دار فورس کے اہلکاروں نے عمر بھر ریاست پاکستان کی خدمت کی مگر ریٹائرڈ ہو کر خالی ہاتھ مایوس لوٹ گئے
ستم بالائے ستم جب سابق خاصہ دار فورس کے ملازمین ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو بس ڈی پی او آفس سے ان کو ایک کال موصول ہوتی ہے کہ آپ ریٹائرڈ ہوگئے “خدا حافظ” یا کسی کو سروس کا آخری مہینہ مکمل ہونے پر اے ٹی ایم مشین سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا اکاؤنٹ خالی ہے۔ نہ کسی کو ہار پہنا کر عزت کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے نہ ان کے لئے الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا جاتا ہے
بیچارہ قبائلی پولیس اہلکار آنکھوں میں آنسو لئے مایوسی کے ساتھ چادر کندھوں پر ڈال کر گھر کی راہ لیتا ہے خالی ہاتھ گھر پہنچ کر بے چارے کا شوگر لیول اور بلڈ پریشر دونوں اوپر جا چکے ہوتے ہیں ایسے میں وہ گھر والوں کے ساتھ بات کئے بغیر سیدھے اپنی چارپائی پر الٹا لیٹتا ہے اور رو رو کر سونے کی کوشش کرتا ہے مگر نیند تو نشے کی گولیوں سے بھی اس وقت نہیں آتی ایک ہفتے تک تو اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے بے چارہ یہ نہیں سمجھتا کہ اب کرنا کیا ہے بچوں کو کیسے کھلائیں گے۔ بچوں کی تعلیم بھی ادھوری رہ جاتی ہے دوسرے ذرائع معاش بھی نہیں ہوتے ہیں بچے یا تو چھوٹے ہوتے ہیں یا جوانی کی عمر میں بے روزگار ہوتے ہیں حد درجہ پریشانی ہوتی ہے
“نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے“
“نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم”
وہ خاصہ دور فورس بہتر تھی اگر پنشن نہیں تھی تو کم از کم خاصہ دار کے ریٹائرڈ ہونے پر اس کا بیٹا یا بھتیجا تو بھرتی کروا دیا جاتا جس سے گھر کا چولہا گرم رہتا پولیس کے نظام نے تو خاصہ داروں کا کچومر نکال کر برباد کر دیا صرف ضلع خیبر میں درجنوں خاصہ دار اور حوالدار سینئر ہوتے ہوئے بھی پروموشن نہیں پا سکے اور نہ ہی ان کی یہ خواہش پوری ہوسکی کہ وہ بھی اپنے کندھوں پر کوئی اسٹار تو لگا کر گھومیں پھریں
جبکہ ان کے بچوں کی عمر کے جونئیر دو اسٹارز لگا کر بغیر کسی اصول،قاعدے اور سینیارٹی کے اعزازی شولڈر پروموشن سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں جن کے اسٹارز اتارنے کی کسی میں جرآت نہیں اور نہ کوئی آرڈر وہ خاطر میں لاتے ہیں اور کچھ ابھی تک عدالتوں کی طرف سے اسٹے آرڈرز پر ہیں
“اپنوں نے ہمیں لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا”
“میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا”
سب سے بڑی زیادتی سابق خاصہ دار فورس کی کمیٹی کے اراکین سے سرزد ہوئی ان میں سے کئی خود ریٹائرڈ ہوتے ہوئے بھی پانچویں انگلیاں گھی میں کے مصداق مزے کر رہے ہیں اور اچھی پوزیشن پر ہیں جبکہ ان کی فورس کے ساتھی ذلیل ہو گئے بحر حال اب تو خاصہ دار فورس خیبر پختون خوا پولیس میں ضم کر دی گئی ہے
اس لئے اب نوحاں کناں ہونے یا رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوگا بس اب برداشت کریں اور خوشی سے پولیس کی وردی بھی زیب تن کریں کہ شاید اسی میں ان کی بھلائی ہوگی سروس اسٹرکچر اور پنشن خواب ہیں دیکھتے رہئیے۔ ہم آپ کے دکھ میں برابر شریک ہیں۔