سدھیر احمد آفریدی
لنڈی کوتل کے مقامی لوگ تو پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن اب کاروباری لوگ، اکسپورٹرز اور امپورٹرز بھی طورخم میں کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ جانے کے بعد بوریاں بستر گول کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور زیادہ تر نے اپنا کاروبار دوسری طرف منتقل بھی کر دیا ہے اس کی وجوہات کئی ہیں لیکن فی الحال کسٹم حکام کی بات کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جو اپنے ماتحت سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹرز کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں چونکہ زیادہ تر ٹرانسپورٹرز اور کاروباری لوگوں کا واسطہ ان سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹرز سے پڑتا ہے
اس لئے ان کی نظر میں یہی لوگ بااختیار ہوتے ہیں جو موقع پر کوئی مسئلہ حل کر سکتے ہیں یا بگاڑ سکتے ہیں اور اگر ان لوگوں کی ہتھیلی کو گرم رکھا جائے تو پھر نچلے لیول پر ہی بات ختم ہوتی ہے اور یہی کسٹم کے سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹرز مال بردار گاڑیوں میں کیڑے نکال کر پریشانی بھی پیدا کرتے ہیں اور کرپشن کے لئے پھر مشکل سے نکلنے کے راستے بھی بتا دیتے ہیں
طورخم کسٹم کے سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹروں نے کرپشن اور لوٹ مار کا بازار بلا خوف و خطر گرم کر دیا ہے طورخم کسٹم کے سپرنٹنڈنٹس نے کرپشن کے لئے پرائیویٹ بندے بھی رکھے ہیں مقامی باخبر ذرائع کے مطابق ٹرانزٹ، پریوینٹیو اور اپریزمنٹ کے چند ایک کے علاوہ بعض سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹرز کرپشن کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے باز نہیں آتے ہیں اور اسی طورخم سے ان کی بادشاہت قائم ہے اور جو سہولیات سے بھری پر آسائش زندگی گزارتے ہیں
یہ صرف طورخم اور مچنی پوسٹ پر ان کی بے پناہ کرپشن کی وجہ سے ممکن ہے ورنہ تنخواہوں میں تو طورخم اور مچینی پر تعینات کسٹم کے سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹروں کی گاڑیوں کے اخراجات بھی پورے نہیں ہو سکتے باخبر ذرائع کے مطابق طورخم کسٹم کے بعض سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹروں نے طورخم اور میچنی کے مقامات پر لوٹ مار کا بازار ایک بار پھر گرم کر دیا ہے اور اس کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ معمولی رقم لیکر اس سے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں
طورخم اپریزمنٹ،پریوینٹیو اور ٹرانزٹ کے اہلکار ہر گاڑی سے سینکڑوں اور ہزاروں روپے مختلف ناموں سے رشوت کھلے عام لیتے ہیں اور کسٹم حکام کے ماتحت بعض سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹرز اس دھندے میں برابر شریک ہیں طورخم اور میچنی پوسٹ پر کسٹم کرپشن کا یہ منظم پروگرام سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹروں کے ذریعے چلتا رہتا ہے
یہ بھی پڑھیں
- طورخم سرحد پر پاکستانی مزدوروں کا دھرنا اور افغانستان کیلئے امدادی ٹرک
- افغانستان ،زلزلہ میںاموات 1 ہزار سے متجاوز،ہزاروںزخمی ،تعداد بڑھنے کا خدشہ
- طورخم بارڈر پر تاجروںکاکسٹم حکام کے رویے پراحتجاج ،آخر حقیقت کیا ہے ؟
- طالبان سے افغانیوں کا گلہ،شیخ رشید کی پریس کانفرنس اور طورخم زیرو پوائنٹ پر ایک دن
اگرچہ کسٹم کے آفسران انتہائی شریف، بااخلاق اور تعاون پر مبنی رویوں کے مالک ہیں جن سے ٹرانسپورٹرز اور کلئیرنگ ایجنٹس خوش ہیں تاہم کسٹم کے سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹروں نے ہر مقام پر پرائیویٹ افراد بیٹھا رکھے ہیں تاکہ اگر کہیں کوئی رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو پھر سارا ملبہ ان پرائیویٹ افراد کے اوپر ڈال دیتے ہیں اور ان کے اپنے سپاہی بھی نگرانی اور پیسے لینے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں
اسی طرح ذرائع نے بتایا کہ روڈ پاس، پل اور سپیڈ منی کے ناموں سے بھی طورخم اور میچنی پوسٹ کے سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹرز ہر گاڑی سے سینکڑوں اور ہزاروں روپے لیتے ہیں اور پھر حصہ بقدر جثہ آپس میں بانٹ دیتے ہیں اور اسی کرپشن کی رقم سے کسٹم کے سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹرز ذاتی اخراجات اور لنگر خانوں کے اخراجات پورے کرتے ہیں اور گرمی کے اس موسم میں ان کے کنٹینروں میں قائم دفاتر اور باقی پکے کمروں کے اندر جاکر بندہ اتنی سردی محسوس کرتا ہے
طورخم بارڈر کرپٹ افسران کے ہاتھوں مقامی لوگوں کا معاشی قتل
جیسے جنوری اور فروری میں سردی ہوتی ہے اور اس طرح کسٹم طورخم اور میچنی پر تعینات کسٹم کے اہلکاروں کی پانچوں انگلیاں ہر وقت گھی میں رہتی ہیں ذرائع نے یہ بھی بتا دیا کہ اگر کسی سپرنٹنڈنٹ کا طورخم سے تبادلہ کیا جاتا ہے تو وہ حکام بالا کو اپروچ کرکے تبادلہ رکوانے اور موخر کرنے کی کوشش کرتے ہیں معلوم ہوا ہے کہ طورخم کسٹم میں کرپشن کی وجہ سے متعلقہ سپرنٹنڈنٹس اور ان کے ماتحت اہلکار اور پرائیویٹ بندے پر آسائش اور سہولیات سے آراستہ زندگی گزارتے ہیں
حالانکہ ان کی تنخواہیں اتنی نہیں ہوتیں کہ وہ اس میں ضروریات بھی پوری کریں کچھ عرصہ پہلے جب کسٹم عملے پر کرپشن کے دروازے بند کر دئے گئے تھے تو ان کی روزمرہ زندگی اور دفاتر میں انتظامات اور کھانے پینے پر نمایاں منفی اثر پڑا تھا اور ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ طورخم سے نکلیں اور یہی لوگ ہیں جن کی کرپشن کی وجہ سے طورخم میں کاروبار برباد ہوا ہے
حال ہی میں طورخم میں عرصہ دراز سے کام کرنے والے ایک سپرنٹنڈنٹ کا تبادلہ جب طورخم سے غلام خان کیا گیا تو پہلے وہ لیت و لعل سے کام لیکر طورخم سے جانا نہیں چاہتے تھے اور جب کچھ عرصہ بعد چلے گئے تو انہوں نے خود راقم کو بتایا کہ چونکہ غلام خان بہت دور ہے اور وہاں سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے صرف ایک دن انہوں نے غلام خان جاکر حاضری لگائی اور باقی دن کسٹم پشاور کے ہیڈ کوارٹر میں گزار دئے۔
اب ماشاءاللہ وہ واپس طورخم آکر اپنے جنت نما کمرے کے اندر پڑے بیڈ روم میں تکیہ لگا کر وہیں سے سارے دفتری امور نمٹاتے ہیں اور خود سمیت کسٹم کے حکام کو لنڈی کوتل اور طورخم کی مٹی سے وفادار سمجھتے ہوئے ہر کسی کو نصیحت کرتے ہیں کہ خدارا اس چھوٹے سے ٹکڑے پر ہونے والے کاروبار کو خراب نہ کریں اور کہتے ہیں کہ یہاں بس یہی تھوڑا سا کاروبار زندگی بچا ہے اس کو خراب نہ ہونے دیں
تو گزارش ہے کہ یہاں طورخم میں تو مقامی لوگوں کا کاروبار اور معاش ان کرپٹ لوگوں کی وجہ سے پہلے ہی برباد ہو چکا ہے اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہو کر گھر بیٹھے ہیں جبکہ سپرنٹنڈنٹس،انسپکٹرز اور سپاہی طورخم سے باہر ایک دن بھی بممشکل گزار سکتے ہیں اگر دوبارہ ان کو طورخم اور میچنی پر غیر قانونی پیسے لینے سے منع کیا گیا تو قومی خزانے کو فائدہ ہوگا اور ٹرانسپورٹرز اور دیگر کاروباری لوگوں کو سکون ملیگا
مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ کسٹم حکام کے اوپر کرپشن نہ کرنے کی پابندی لگانے کے بعد وہ ایکسپورٹرز اور امپورٹرز سمیت ٹرانسپورٹرز کو بے جا تنگ کرنا شروع کر دیں اور انتقام پر اتر کر بلا وجہ گاڑیوں کی کلئیرنس میں مسائل پیدا کریں غرض کسٹم حکام کے اوپر بھی مانیٹرنگ کا نظام وضع کرنا چاہئے تاکہ روزگار اور تجارت بھی خراب نہ ہو اور کرپشن کا بھی قلع قمع کیا جا سکے
اور طورخم سمیت میچنی چیک پوسٹ خصوصاً امپورٹ اور ایکسپورٹ پر تعینات سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹروں کو یہاں سے بے دخل کرکے نئے لوگوں کو سامنے لاکر کام کا موقع دیا جائے اپنی کرپشن کو چھپانے کے لئے کبھی کبھی وہ کچھ سامان پکڑ کر نمبرز بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ کسٹم کرپٹ ترین ڈیپارٹمنٹ ہے۔