سدھیراحمدآفریدی


سوشل میڈیا پر ایک موٹیویشنل وی لاگر شاہد انور کی گفتگو سن کر حیران ہوا کہ وہ غربت مٹانے کے لئے کونسے نسخے پیش کر رہے ہیں اور حیران ہوا کہ وہ لوگوں پر انتہاء درجے کا طنز کرکے گالیاں دیتے ہیں، مجبور اور غریب لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں مگر پھر بھی لاکھوں لوگ ان کو سنتے اور دیکھتے ہیں وہ معمولی میٹرک تک تعلیم شاید کر چکے ہیں اور یہی کہیں خیبر پختون خواہ کے ضلع سوات سے گھوم پھیر کر امریکہ پہنچ چکے ہیں اور وہاں کوئی آن لائن کاروبار کرتا ہے خیر وہ جو بھی ہے میں مانتا ہوں کہ انہوں نے غربت کے ہاتھوں بہت دھکے کھائے ہونگے

اور اب محنت کرکے کوئی بڑا مقام اگر حاصل نہیں بھی کیا ہے تو دولت ضرور کمائی ہے اور وہ قسمت اور امید کو کمزوروں اور غریبوں کا ہتھیار، وسیلہ یا وہم سمجھتے ہیں وہ جس انداز میں غریبوں کو متحرک بنانے کی کوشش کرتے ہیں وہ شاید درست نہیں مثلاً وہ استاد کا بہت بڑا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کو ناکام ترین انسان اور لوزر سمجھتا ہے تو اگر پاکستان کے اندر دیکھا جائے تو واقعی استاد غریب بھی ہوتا ہے اور بمشکل تنخواہ میں گھر کے اخراجات پورے کرتا ہے اور استاد کو کوئی عزت کا مقام بھی حاصل نہیں

اس لئے وہ جو کہتے ہیں کہ اگر کہیں کچھ نہ ملا تو آکے استاد بنا

سچی بات ہے پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں اور ان کے والدین کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ سول یا ملٹری بیوروکریسی میں کوئی بڑا عہدہ حاصل کرکے دولت، عزت اور شہرت کمائیں اور رعب داب والی زندگی گزار کر لوگوں کی گردنوں کو دبوچ لیں اور ان پر حکمرانی کریں

یہی سوچ ہمارے سیاسی قائدین کی بھی ہے کہ بس وہ کسی طریقے سے اقتدار تک پہنچ سکیں اور بلا شرکت غیرے لوگوں پر حکمرانی کر کے دولت کما سکیں خدمت، امانت اور دیانت ان کے تصورات میں شامل نہیں ہوتے اس لئے وہ اقتدار تک پہنچنے کے لئے مختلف چوکٹوں پر سجدہ ریز ہوتے ہیں اور عوام کے سامنے ھیمشہ جھوٹ بولتے ہیں


یہ بھی پڑھیں 


یہی وجہ ہے کہ وہ اقتدار کے لئے ہر جائز اور ناجائز کام کرتے ہیں اور اگر آج کے نوجوانوں کی اکثریت کو دیکھیں تو کھیل کود کرکٹ اور فٹ بال وغیرہ ان کا شوق نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اچھی صحت کے لئے کھیلتے ہیں بلکہ وہ کھیلوں کی دنیا میں آگے بڑھ کر صرف دولت اور شہرت کے چکر میں ہوتے ہیں

شاہد انور جیسے کم علم اور جاہل لوگوں کے وی لاگز نے نوجوانوں کو بڑا متاثر کیا ہے اور شوق سے سنتے ہیں حالانکہ ان کی ساری باتیں درست نہیں وہ دولت مند انسان تو بن گئے ہیں اور خود کہتے ہیں کہ وہ امریکی صدر جو بائڈن سے زیادہ امیر اور بہترین گاڑیوں کے مالک ہیں لیکن میرے خیال میں کوئی بڑا انسان شاید نہیں بنے

دولت سب کچھ نہیں ہوتی وہ یہ نہیں سمجھتے کہ استاد صرف سکول میں پڑھائی کرنے والا نہیں ہوتا معاشرے کے اندر جس سے کوئی نئی بات اور اچھی بات سمجھ جاتے ہیں وہ بھی استاد کہلاتا ہے اور معاشرہ خود بھی استاد کی مانند ہوتا ہے جو آپ کو بہت کچھ سکھاتا اور سمجھاتا ہے اور شاہد انور اگر عقل سے عاری نہ ہوتے تو وہ یہ سمجھ جاتے کہ وہ جو وی لاگ کرکے لوگوں کو متحرک کرتے ہیں یا ورغلاتے ہیں تو یہ بجائے خود بھی ٹیچنگ ہے

لیکن مدرسے کی چاردیواری سے باہر آزاد فضاء میں سوشل میڈیا پر وی لاگ کے ذریعے کرتے ہیں اگرچہ ان کی زبان، ان کا لہجہ اور الفاظ کسی مہذب انسان کے نہیں لگتے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جاہل انسان ہے

نبی مہربان صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے خود فرمایا تھا کہ وہ استاد بنا کر بھیجے گئے ہیں یہ میں بھی پھر کہوں کہ اگر کسی بیوروکریٹ کے پاس چلے گئے یا کسی اور عہدے پر براجمان سرکاری آفیسر کے پاس گئے تو وہ آپ کی شکل وصورت،دولت اور مرتبے و مقام کو دیکھ کر ہی گفتگو کریگا اور عزت دیگا لیکن جونہی ان کو معلوم ہوگا کہ بندہ استاد ہے تو فوراً اس کا رویہ اور لہجہ تبدیل ہو جاتا ہے اور حقیر نظروں سے دیکھ کر کام کئے بغیر رخصت کریگا

اگرچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری آفسران اور عام لوگ استاد کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھیں ان مشکلات حل کریں کیونکہ یہی اساتذہ معماران قوم ہوتے ہیں یہ جو ٹیچر ڈے منایا جاتا ہے یہ محض ایک دھوکہ ہے کیونکہ عملاً مشاہدے کی بات ہے کہ استاد کو وی آئی پی لوگ عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے البتہ غریبوں کی سوسائٹی میں استاد قابل احترام شخصیت ہوتا ہے

حالانکہ آجکل کے دور میں اگر دیکھا جائے تو کسی بیوروکریٹ سے استاد اعلیٰ اور بہتر تعلیم یافتہ ہوتا ہے اور بیوروکریٹ کے مقابلے میں استاد کے پاس ڈگریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں لیکن شاہد انور تو یہ سب کُچھ تسلیم نہیں کرتے کہ بہترین تعلیم و تربیت کے باوجود بھی کوئی استاد بن جاتا ہے

تو کوئی نکما،متکبر اور سرمایہ دار گھرانے کا چشم و چراغ بیوروکریٹ بن جاتا ہے ہم اس کو قسمت سمجھتے ہیں اور وہ اس کو نالائقی، کم ہمتی،کمزور سوچ اور ناقص منصوبہ بندی سمجھتے ہیں تاریخ اگر دیکھی جائے تو دنیا میں کافی تعداد میں بڑے لوگ پہلے اساتذہ تھے اور بعد میں کچھ اور بنے جنہوں نے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دئے ہیں

میں اس کے حق میں ہوں کہ بچوں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف مائل کیا جائے، اکیڈیمک تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی بچوں کو سیکھائیں تاکہ ہم بنیادی تعلیم کے ساتھ عزت کا رزق حلال بھی زیادہ کماسکیں اور کسی کی غلامی اور محتاجی بھی نہ کرنی پڑے

لوگوں کو مادہ پرست بنانا کوئی اچھی سوچ نہیں ہاں تعلیم و تربیت، آگاہی اور سمجھداری، بہترین منصوبوں بندی، محنت، لگن اور دیانت داری جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنا کمال کی بات ہے دولت کا نشہ جب سر چڑھ جاتا تو انسانیت کا تصور ہی ذہنوں سے نکل جاتا ہے اور پھر دولت کمانے کے لئے لوگ ہر جائز اور ناجائز کام کرتے ہیں جس سے معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے

ہمدردی،اخلاص، قربانی اور اخوت کے رشتے دم توڑ دیتے ہیں بحیثیت انسان ہمارا اولین فرض بنتا ہے کہ ہم معاشرے میں امن کے قیام، قانون اور انصاف کی بالادستی، مساوات اور انسانی بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کے لئے کام کریں اور امتیازات اور اونچ نیچ کے تصورات کو ختم کرنے کے لئے کردار ادا کریں اور اگر دولت کا حصول نصب العین ٹہرا تو پھر ہر معاشرہ عدم استحکام،بدامنی اور لاقانونیت کا شکار ہوگا.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے