شہناز یوسفزئی
نمائندہ خصوصی آزادی ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے
جب میڈیا کی بات آتی ہے تو خواتین صحافیوں کو زیادہ محفوظ پلیٹ فارم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس تناظر میں، CEJ (Centre for Excellence in Journalism)، IBA نے خواتین صحافیوں کے لیے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ یہ ورکشاپ یونیسکو (اقوام متحدہ برائے تعلیمی، سائنسی، اور ثقافتی تنظیم) کے تعاون سے منعقد کی گئی۔
میڈیا میں کام کرنےوالی خواتین کوآن لائن اور آف لائن ہراسگی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور رجحان کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا ہے جو خواتین صحافیوں کی ذہنی و جسمانی صحت کیلئے ضرر رساں ثابت ہورہی ہے ۔ان حملوں میں ٹرولنگ، جنس پرستانہ تبصرے، نفرت انگیز بیانات ، بدنامی، تشدد، اور صنفی بنیاد پر امتیاز شامل ہیں۔
یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین صحافیوں کو ان کے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں زیادہ آن لائن نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مطالعات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خواتین پر ان کے کام کے تناظر کی بجائے ان کے پس منظر اور جسمانی خصوصیات کی بنیاد پر حملہ کیا جاتا ہے۔
ان دھمکیوں کی وجہ سے آزادی اظہار کے ساتھ ساتھ تفتیشی صحافی کا کام بھی زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں میڈیا میں آزادی اظہار کے مواقع محدود تر ہوتے جارہے ہیں اور اسی رجحان نے معاشرے اور نیوز روم دونوں میں عدم مساوات کو جنم دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
- جنسی بنیاد پر تشدد کے خاتمہ میں میڈیا کا کردار کلیدی:ورکشاپ
- اگلے انتخابات کی تیاری ،ہزارہ ڈویژن میںاربوں کے منصوبے
- سالانہ0 2 لاکھ حاملہ خواتین عطائی ڈاکٹروںکے تجربات کی بھینٹ چڑھنے لگیں
- ڈیجیٹل پاکستان نوجوانوں اور خواتین کی ترقی کی ضمانت، مسائل کا حل
اس سلسلے میں سی ای جے نے خواتین صحافیوں میں ان کی آن لائن اور آف لائن سیکیورٹی کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ ورکشاپ کا پہلا سیشن ڈیجیٹل سیکیورٹی پر مبنی تھا جس کی تربیت کار فریحہ عزیز نے سوشل میڈیا ایپس بشمول واٹس ایپ، ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ کی حفاظت پر توجہ مرکوز کی۔
سیشن کے دوران ٹرینر نے ان پہلوئوں پر بھی زور دیا جو خواتین صحافیوں کو ہر صورت اپنا چاہیے تاکہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اکثر، معلومات کی حساسیت صحافیوں کی زندگی اور کیریئر کو ممکنہ حد تک خطرات سے محفوظ رکھا جاسکے ۔
ورکشاپ سے شہریار پوپلزئی نے ڈیجیٹل فشنگ اور سوشل انجینئرنگ پر تفصیلی روشنی ڈالی جس میں بتایا گیا کہ سوشل انجینئرنگ ایک قسم کی بدنیتی پر مبنی سرگرمی ہے جس میں انسانی عمل دخل شامل ہے۔ جس میں نفسیاتی حربوں کے ذریعے حساس معلومات تک رسائی حاصل کی جاتی ہے ۔
خواتین صحافیوں کیلئے رہنما اصول
جہاں انسانی لاپرواہی یا کمزوری کی وجہ سے ہیکرز کو حساس معلومات تک رسائی مل سکتی جہاں ہیکرز مہینوں ان معلومات تک رسائی کیلئے تحقیق اور کام کرتے ہیں اور کسی بھی کمزور پہلو کے سامنے آنے کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں
ورکشاپ کا ایک سیشن ادارتی رہنما خطوط پر مبنی تھا۔ اس سیشن کی نظامت آئی بی اے کی ڈائریکٹر سی ای جے عنبر رحیم شمسی نے کی۔ سیشن کے دوران، ٹرینر نے اس بات پر زیادہ توجہ مرکوز کی کہ کن چیزوں کو عوامی ہونا چاہیے اور کن چیزوں کو نجی رکھنا چاہیے۔ سیشن میں کیا کریں اور نہ کریں کے پبلشنگ پلیٹ فارمز کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ یقیناً یہ رہنما اصول صحافت کے پیشے کو مدنظر رکھتے ہوئے قابل قدر ہیں۔
ورکشاپ میں خواتین کی سائبر سیکیورٹی سے متعلق قوانین کو سمجھنے کے لیے ایک سیشن کا بھی اہتمام کیا گیا۔ جس میں کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ (ترمیمی) ایکٹ، 2022 کا مختصر تعارف شامل تھا۔ اس کے علاوہ، ٹرینر نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (PECA)، 2016 پر بھی روشنی ڈالی ۔ ورکشاپ کے دوران مقررین میں نے سائبر خطرات اور آن لائن ہراساں کرنے کے مسائل سے متعلق شکایت درج کرنے کے طریقہ پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ورکشاپ نے خواتین کی سائبر سیکیورٹی سے متعلق قوانین کو سمجھنے کے لیے ایک سیشن کا بھی اہتمام کیا۔ اس میں کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ (ترمیمی) ایکٹ، 2022 کا مختصر تعارف شامل تھا۔
اس کے علاوہ، ٹرینر نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (PECA)، 2016 پر بھی گفتگو کی اس کیساتھ ساتھ سائبر خطرات اور آن لائن ہراساں کرنے کے مسائل سے متعلق شکایت درج کرنے کے طریقہ پر تبادلہ خیال کیا۔
آخر میں ڈائریکٹر CEJ، امبر رحیم شمسی نے ٹرینر فریحہ عزیز کے ساتھ ڈیجیٹل رسک اسیسمنٹ کے حوالے سے ایک سیشن دیا۔ سیشن میں مختلف منظرناموں کے لیے ڈیجیٹل، قانونی، اور ادارتی تدارک کے طریقہ ہائے کار کے حوالے سے بھی گفتگو کی گئ مثلاً جیسے کہ جب اکاؤنٹ ہیک ہوتا ہے اور متعلقہ حکام شکایت درج نہیں کرتے یا جب صحافی کو آن لائن دھمکی دی جاتی ہے تو ایسی صورت میں خاتون صحافی کس طرح قانونی تحفظ حاصل کرسکتی ہیں ۔
یا اگر جب کبھی کسی معاملے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر کسی صحافی کو کسی معاملے میں طلب کریں تو ایسی صورت میں انہیں کیا کرنا چاہیے ؟