محمد طلحہ خان

پاکستان میں قومی زبان کے نفاذ کی اہمیت اور ضرورت

اردو ایک محبت بھری ، شیریں اور سلیقہ مند زبان ہے اگراس کو تاریخی تناظر میں دیکھیں تو اس کے ابتدائی ناموں میں ریختہ مستعمل ہے اسی طرح یہ ہندوستانی اور ہندوی زبان کے نام سے بھی پکاری جاتی تھی ، لفظ اردو ترکی زبان کے لفظ ” اوردو "سے ماخوذ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے آتے ہیں اسی لیے اُردو کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے کہ یہ عربی فارسی سنسکرت اور کم و بیش سبھی بڑی اور مقامی زبانوں کا مجموعہ ہے۔

اردو کی ابتدا بہت سے محققین کی نظر میں مسلمان فاتحین کی ہندوستان میں آمد کے بعد مقامی لوگوں سے میل جول کے نتیجے میں ہوئی۔

لسان اپنے اندر ایک ایسا ہنر رکھتی ہے جو انسان کے دل میں پوشیدہ جذبات و خیالات کو اظہار کی صورت عطا کرتی ہے ، اب یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ قومی زبان جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے یا دوسری زبانیں؟

بے شک! ہماری قومی زبان میں اتنی وسعت اور اس قدر گہرائی ہے کہ یہ ہمارے تخلیقی اظہار کا مؤثر ترین ذریعہ بن سکتی ہے جو ہمارے مافی الضمیر کو بہ آسانی بیان کرنے پر قدرت رکھتی ہے کیوں کہ اس کے ذریعے ہی عوام و خواص اور عالم و جاهل سب تک اپنے خیالات کو سہولت سے پہنچایا جا سکتا ہے۔


یہ بھی پڑھیں


آج اگر ہم دنیا کے بہت سے چھوٹے بڑے ممالک کی طرف نظر کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ سب نے اپنی قومی زبان ہی کو فوقیّت دی ، اپنی زبان کو اہم سمجها اور ترقی کے مدارج طے کیے ، بہت سے ایسے ممالک ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں جو دوسرے ممالک میں جاکر بھی اپنی زبان ہی سے استفادہ کرتے دکھائی دیتے ہیں

جب کہ ہمارا حال اس کے برعکس ہے ہم اپنی زبان کو ترقی دینے کے بہ جائے غیر ملکی زبانوں کو سیکھنے پر زور لگا رہے ہیں اور ہماری نئی نسل کے لئے انگریزی زبان یا دیگر وہ زبانیں جو عالمی منڈی کی سُرخیل ہیں اُن کو اپنی زبان سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی تعلیم اردو میں مکمل کرتا ہے تو اس کو تعلیم یافتہ تصور ہی نہیں کیا جاتا۔

ہم نے اپنی نسلِ نٙو میں ایسا رجحان پیدا کر دیا ہے جو اپنی تاریخ تو کیا اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے ، اگر ہم قومی زبان کو قائد اعظم رحمہ اللہ کے ارشادات کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں اس کی اہمیت واضح نظر آتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تو تم کو اپنی قومی زبان پر متحد ہونا پڑے گا کیوں کہ کوئی قوم مشترکہ قومی زبان کے بغیر نہ متحد ہو سکتی ہے اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے

گیسوئے اردو ابھی منت پزیرِ شانہ ہے
شمع یه سودائیِ دل سوزئ پروانه ہے

اردو ہماری قومی زبان ہے آئین کا حصہ ہے آج ہمیں آئین کی شقیں بھول گئیں ہیں لیکن یاد ہے تو 25 دسمبر قائد اعظم رحمہ اللہ کے پیدائش کے دن کی چھٹی یاد ہے مگر ان کے فرمان اور نظریات بھول گئے کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے ، ہمارے قائد جناب قائد اعظم رحمہ اللہ کے خود کے الفاظ ایک جلسے کے لیے کہ میں اردو میں تقریر کروں گا تا کہ ایک تانگے والا بھی میری زبان سمجھ سکے ، آج ہم نے اپنی زبان بالائے طاق رکھ چھوڑی ہے ہمارے سرکاری ادارے ہوں یا تعلیمی ادارے ہر جگہ ہمیں انگریزی زبان کا رواج ملتا ہے ایک عام آدمی ان اداروں میں جاتے ہوئے ہچکچاتا ہے کہ وہاں جا کر میں انگریزی کیسے بولوں گا،

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

آج قومی زبان کی حیثیت علاقائی زبان جیسی ہو گئی ہے جس کی اہمیت دن بدن کم ہوتی نظر آ رہی ہے خاص طور پر سوشل میڈیا اور ہماری نئی نسل نے اردو کو رومن میں لکھ لکھ کر اردو کی روح کو داغدار کر دیا ہے آج اگر کسی کو موبائل پر اردو میں پیغام بھیجو وہ کہتا ہے کہ رومن میں لکھا کرو اردو سمجھ نہیں آتی۔

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

اگر اب بھی ہم خوابِ غفلت میں پڑے رہے تو ہماری نسلوں سے اردو ناپید ہو جائے گی ہم اپنے ہاتھوں سے اردو کا گلا گھونٹ دیں گے ہمیں چاہیے اپنے گھروں میں اردو ادب کے مطالعے کی فضا پیدا کریں ہم خود بھی مطالعہ کریں اور اپنے بچوں کو بھی مطالعے کی عادت ڈالیں نیز اردو زبان کے تحفظ کے لیے تحریک چلائی جائے

جس میں حکومتِ وقت سے مطالبہ کیا جائے کہ سرکاری و تعلیمی اداروں میں تعلیمی نصاب اردو زبان میں ہو اور انگلش بطور مضمون پڑھائی جائے تا کہ ہماری آنے والی نسلیں اپنی قومی زبان کو فخریہ انداز میں اظہار کا ذریعہ بنا سکیں نہ کہ قومی زبان ان کے لیے باعثِ ندامت ہو۔

اُردو ہماری آن ہے اُردو ہماری شان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے