محمد صدیق کھیتران

جنوبی بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر بحرہند اور خلیج فارس سے 400 کلومیٹر  کے دھانے پر واقع ہے۔یہ شہر 1783 سے سلطنت عمان کا حصہ رہا ہے۔نزدیک ترین شہر تربت اور 170 کلومیٹر ایرانی بلوچستانی ساحل چاہ بہار واقع ہے۔500 سال قدیم تاریخ بتاتی ہے کہ سلطنت عثمانیہ میں سید علی رئیس نے1550 میں اس جگہ کا دورہ کیا۔اس کے مطابق گوادر کے رہنے والے بلوچ ہیں۔اور ان کے سربراہ کانام ملک جلاالدین ولد دینار تھا۔پندرہویں صدی میں ولندیزیوں نے اومان کے ساتھ ساتھ کچھ علاقے برصغیر بشمول گوادر پر واسکوڈے گاما کی سربراہی میں قبضہ کیئے۔میر اسماعیل بلوچ کی قیادت میں ولندیزیوں کو شکست دی۔تاہم وہ  حملوں کے دوران لوٹ مار اور گھروں کو آگ لگاتے رہے۔مگر وہ مستقل قبضہ قائم نہ رکھ سکے۔آج بھی حملہ آوروں کی توپوں کے ڈھانچے گوادر کی جیل کے نزدیک نشانی کے طور پر پڑے ہیں۔

کہتے ہیں اس جنگ کے ہیرو میر اسماعیل بیباک  اور نڈر آدمی تھے انہوں نے اپنی قبر مرنے سے پہلے خود ہی تیار کروائی تھی۔ان کی وفات 1552 میں ہوئی قبر کے نشان ابھی بھی کوہ باطل پر موجود ہے۔  سولہویں صدی میں مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے گوادر اور بلوچستان پر قبضہ کیا۔جو آنے والے دوسو سالوں تک برقرار رہا۔

1783 میں خان قلات میر نوری نصیر خان نے گوادر شہر کو مسقط کے شکست خوردہ حکمران تیمور سلطان کو اس کے روزمرہ کے اخراجات چلانے کیلئے اس شرط پر دیا کہ جیسے ہی ان کے خاندانی معاملات طے ہونگے تو گوادر واپس خان قلات کو لوٹا دیاجائے گا۔ مسقط کے حکمرانی کے معاملات طے ہونے کے بعد گوادر واپس کرنے کی بجائے اس نے ایک "والئی” مقرر کردیا۔والئی کو حکم دیاگیا کہ وہ چاہ بہار کو بھی اپنے زیر انتظام لائے۔

 

خان قلات کو یہ گوارا نہ ہوا اور اس نے گوادر پر چڑھائی کی اس کو واپس اپنی حکمرانی میں لے آیا۔والی چونکہ گچکی خاندان سے تھا لہذا خان قلات کو احساس ہوا کہ اس خاندان کے تعاون کے بغیر اس پر مستقل قبضہ رکھنا مشکل ہوگا۔خان قلات اور گچکی خاندان  نے گوادر کے آدھے محصول پر باہم معاہدہ کرلیا۔یہ انتظام 1783 تک چلتا رہا۔

اسی دوران اومان کے شاہی خاندان کے اندر سید سلطان کا جھگڑا ہو گیا اور ایک دفعہ پھر اس نے بھی خان قلات سے مدد مانگی۔خان نے  دوبارہ گوادر کا محصول و انتظام سید سلطان کو پہلے والی شرائط پر دے دیا۔1797 کو سید سلطان اومان کے تخت پر قابض ہوئے مگر اس نے گوادر کا انتظام واپس نہیں کیا۔

ادھر برصغیر پر برطانوی راج قائم ہوچکاتھا۔کمزور اومان اس پوزیشن میں نہ تھا کہ وہ انگریز سے لڑائی کا خطرہ مول لے۔برطانوی حکومت نے ٹیلیگراف دفتراور بحری جہازوں کی آمدو رفت شروع کردی۔ 1878-1863 کے دوران برطانوی راج کا ایک پولیٹیکل ایجنٹ یہاں پر تعینات رہا۔انگریز کے چلے جانے کے بعد تک یہ علاقہ واپس اومان کے پاس رہا۔


یہ بھی پڑھیں


اس ساحلی علاقے کی اسٹرٹیجک اہمیت کا اندازہ 1954 میں امریکی جیالوجیکل سروے کے دوران ہوا۔کہ قدرتی طور پر یہاں کے پانی کی گہرائی بڑے بڑے سمندری جہازوں کیلئے بہت موزوں ہے۔1958 میں فیروزخان نون وزیراعظم پاکستان اور ان کی اہلیہ بیگم وقارالنسا نون نے اومان کے حکمران سے پاکستانی 5.5 بلین روپے یعنی 3 ملین ڈالر پر خرید لیا جس کی ادائیگی پرنس کریم آغا خان چہارم نے کی۔اور پھر یوں گوادر واپس بلوچستان کا حصہ بن گیا۔حکومت کے پیش نظر یہ تھا کہ کراچی کے علاوہ ایک اور ایسی بندر گاہ کی مستقبل میں ضروت پڑے گی۔ جو کہ دفاعی لحاظ سے براہ راست ہندوستان کے اثر میں نہ ہو۔

آنے والے سالوں نے اس حقیقت کو اس وقت آشکارا کیا جب 1971 میں ہندوستانی بحریہ نے کراچی بندرگاہ کو حصار میں لے لیاتھا۔دوسرا واقعہ 1990 میں ہوا جب دونوں ملکوں کے درمیان تناو بڑھا اور ایک دفعہ پھر ہندوستانی بحریہ نے کراچی کی بندرگار کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی۔ کراچی سے 652 کلومیٹر دور واقع ہونے کی وجہ سے گوادر کی اسٹریٹجک اہمیت مزید بڑھ گئی ۔

ذولفقار علی بھٹو نے 1970 میں  امریکہ کو یہاں بندرگاہ تعمیر کرانے کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی۔مگر اس نے دلچسبی نہیں لی۔ چین کی اقتصادی ترقی، ایران میں مغرب دشمن حکومت، سرد جنگ کے خاتمے اور روس کے سکڑنے کی وجہ سے اس شہر کی جغرافیائی اہمیت بین الاقوامی اہمیت اختیار کرگئی۔

مائو کے ثقافتی انقلاب کے دنوں میں پاکستان کے وزیرخارجہ میاں ارشد حسین نے چار درجن آموں کا ایک تحفہ مائو کو پیش کیا۔جس کو بےحد سراہاگیا۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان باہم تجارت کی شروعات کا ذریعہ یہ آموں کا تحفہ  بنا۔اس وقت پاکستان کی جی ڈی پی چین سے کئی گنا بہتر تھی۔

مگر ٹھیک 44 سال بعد 2012 میں چین کی جی ڈی پی پاکستان سے کئی گنا بڑھ چکی تھی۔چین کی معیشت کاحجم 35 گنا پھیل گیا ہے۔2021  میں پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کا حجم 16.4بلین ڈالر تھا جس میں سے  70فیصد چینی مصنوعات کی درآمد شامل ہے۔اس کے مقابلے میں ہندوستان اور چین کے درمیان تجارت کایہ حجم 125.7 بلین ڈالر ہے۔

اسی طرح جب پاکستان کی معیشت کے برابرچین کے ایک اور ہمسائے ملک فلپائین کو جب دیکھتے ہیں تو اس  کے چین کے  ساتھ باہم تجارت کا حجم 56 بلین ڈالر یعنی پاکستان سے 4 گنا زیادہ ہے۔چینی 3 ہزار سال سے دنیا سے الگ تھلگ رہنے والی قوم رہی ہے حتئی کہ مائو زے تنگ کے انقلاب کے بعد کی دو دھائیوں تک اس کو یورپ اور مغرب نے تسلیم نہیں کیا تھا۔پاکستان کے ساتھ اس کی سرحد صرف 520 کلومیٹر ہے وہ بھی انتہائی دشوار گزار پہاڑی سلسلے کی وجہ سے ناقابل استعمال تھی۔

یہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں دنیا کی 30 اونچی چوٹیوں میں سے 13 چوٹیاں پائی جاتی ہیں۔ان اونچی چوٹیوں کی وجہ سے ہر دواطراف ثقافت،زبان، اہم رابطے اور معاشی ربط میں کوئی قدر مشترک نہیں رہی۔1950 میں چین نے تبت پر قبضہ کیا۔جس کے خلاف 1959 میں بغاوت ہوئی اور دلائی لامہ آٹھارہ دن  تک پیدل چل کر ہندوستان میں پہنچا۔سرحدی تنازعہ شروع ہوا اور پھر 1962 میں ہندوستان اور چین کے درمیان ایک مہینے تک جنگ ہوتی رہی۔ کنٹرول لائن کے اس طرف 1947-1948 میں  قبائلی لشکروں کو  مسلح کرکےکشمیر کی آزادی کی تحریک کھڑی کی گئی۔

1965میں ان لشکروں میں پاک فوج کے جوان  بھی شامل کئے جاتے رہے یوں کشمیریوں کی ازادی کیلئے دونوں مملک کے درمیان  باضابطہ جنگ ہوئی۔ بظاہر پاکستان کو فوجی محاذ اور ناہی سیاسی  محاذ پر کوئی ہمدردی مل سکی۔امریکہ اور برطانیہ ان دونوں ممالک کو فوجی اسلحہ دیا کرتے تھے مگر جنگ کے دنوں میں ہر دو ملکوں نے  اسلحے کی سپلائی پر پابندی لگادی۔

ہندوستان اور پاکستان نے اس پابندی کو بےوفائی اور دھوکہ سمجھا۔چنانچہ انڈیا نے روس سے اور پاکستان نے چین سے تعلقات بڑھانا شروع کئے۔اس پس منظر میں پاکستان اور چین نے ہنگامی بنیادوں پر شاہراہ قراقرم کی تعمیر  کافیصلہ کیا۔ بغیر کسی خاص تیاری اور سروے کے دونوں ممالک نے  1966 میں شاہراہ کے ہر دو اطراف کام شروع کیا۔اگلے دوسالوں میں اپنی روایت کے عین مطابق  پاکستان صرف 13 کلومیٹرتک سڑک تعمیر کر سکا۔جبکہ چین نے اپنی طرف کی مکمل 413 کلومیٹر سڑک مکمل کرلی۔

پاکستان کی طرف کے 887 کلومیٹر کی دشوار گزار شاہراہ کی تعمیر اس کے بس سے باہر  تھی۔ چنانچہ فرنٹیر ورکس ارگنائزیشن کو بےدخل کرکے بڑا کام چین کو دے دیا گیا۔پانچ سال بعد 1971 تک ایک کمزور سا روڈ بنادیاگیا۔جس کی کل لمبائی 1300 کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ اونچائی 15466 فٹ تھی اس سال بارشوں کی وجہ سے اس سڑک کا کافی حصہ شدید  لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے تباہ ہوگیا۔ بارشوں اور پاک بھارت جنگ کی مالی دشواریوں کی وجہ سے کام کئی سالوں تک التوا میں چلا گیا۔ 1978 میں جنرل ضیا نے ایک دفعہ پھر اس سڑک کو کھولا جوکہ ایک سال کے مزید کام کرنے کے بعد آخری چینی  18 نومبر 1979 کو کاشغر کے اس پار لوٹ گیا۔اس شاہراہ کے دشوار گزار کام اور عمدہ  فن تعمیرکو آٹھویں عجوبے کانام دیا گیا۔اونچائی اورسسمک فالٹ لائن کی وجہ سے شاہراہ اکثر بند پڑی رہتی تھی۔دوسری طرف چین کے جنوبی علاقے گوانگذو اور زیچانگ جنوبی مشرقی چینی سمندری ساحلوں کے نزدیک پڑتے تھے اس لیئے رسد کا تمام سامان بھی بحری راستوں سے کراچی آتاتھا۔قراقرم سے محض 8 فیصد سامان ٹرانسپورٹ ہو تا رہا۔قراقرم شاہراہ چین کے سب سے بڑے مگرلینڈ لاکڈ صوبے سنگیانگ سے ملتی تھی جوکہ اس وقت بہت ہی پسماندہ تھا۔ پاکستان کا انحصار کراچی پورٹ پر ہی رہا جو کہ دفاعی نقطہ نگاہ سے غیر محفوظ تھا۔حکومت پاکستان نے گوادر بندر گاہ کی تعمیر کا ایک منصوبہ برطانوی کنسورشیم کے سامنے رکھا مگر سیاسی، تیکنیکی اور مالی دشواریوں کی وجہ سے اس کو منظوری نہ مل سکی۔

مگر چین نے 2001 میں پاک چین دوستی کی پچاسویں سالگرہ پر گوادر بندر گاہ کی تعمیر کی تعمیری لاگت 248 ملین ڈالر میں سے 198 ملین ڈالر حصہ ڈالنے ہر تیار ہوا۔اس کے علاوہ اضافی  200 ملین ڈالر امداد مکران کوسٹل شاہراہ کی تعمیر کیلئے بھی دی۔پہلے مرحلے میں 3 برتھ،  سمندر کی گہری گھدائی اور سروس برتھ رکھی گئی۔ جوکہ 2006 تک مکمل کرلی گئی۔افتتاحی تقریب 2007 میں ہوئی۔مکران ساحلی شاہراہ نے اس علاقے کا دیرینہ مسلہ تو حل کیا مگر اس سے کمرشل مقاصد حاصل کرنا اتنا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس کا کراچی بندرگاہ سے فاصلہ 652 کلومیٹرتھا جب کہ کراچی پورٹ اور اس سے منسلک شاہراہیں پہلے ہی  سے بڑھے وزن کو اٹھانے کے قابل نہیں تھیں۔

بہرحال گوادر کی بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکہ سنگاپور پورٹ اتھارٹی کودے دیاگیا جس کے اندر اضافی 4 برتھیں، تیل اور اناج کے مال برداری کیلئے علیحدہ علیحدہ ٹرمینل اور آئل ریفانری کی تعمیر بھی مفاہمتی یادداشت میں شامل کی گئی تھیں۔اسی طرح ایک اور شاہراہ گوادر سے رتو ڈیرو کیلئے کا ایک بلین ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا۔ یہ دونوں پروجیکٹ کئی معاملات کی وجہ سے ہنوز مکمل نہ کیئےجاسکے۔بلوچستان میں شورش جڑ پکڑ نے لگی۔

26 اگست 2006 کو اکبر بگٹی کا کوہلو کے قریب روپوشی کے دوران غار میں دھماکے سےسانحہ ہوا۔ آنے والے سال  3 مارچ 2007 کو عدلیہ پر جنرل مشرف نے حملہ کیا اور آئین کو معطل کردیا۔  ملک کے طول وعرض میں وکلا کی تحریک چل پڑی۔ اس دوران سیاسی محاذ پر ایک اندوہناک حادثہ ہوا۔

27 دسمبر 2007 کو بےنظیر بھٹو انتخابی جلسے سے واپسی پر قتل کردی گئیں جس کی ذمہ داری تحریک طالبان نے لی تھی۔مذہبی انتہا پسندی، قوم پرستی کی یلغار اور وکلا کی تحریک کے ساتھ سیاسی خلفشار بے قابو ہوا تو اقتدار پر فوجی اشرافیہ کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔

18 فروری 2008 کو انتخابات  ہوئے پیپلزپارٹی کو اکثریت ملی اور ٹھیک 4 مہینے کے بعد 18 اگست کو اسی سال مشرف کو استعفئی دینا پڑا۔لیکن بلوچستان میں امن امان کے حالات مخدوش ہونے لگے۔دن کے وقت شاہراہوں پر سفر کرنا مشکل ہوتا گیا۔گوادر تقریبا” دنیا سے کٹتا چلا گیا۔

سنگاپور پوراتھارٹی کا پاک نیوی سے 584 ایکڑ پورٹ کی زمین کا تنازعہ کھڑا ہواتو معاملہ عدالت تک چلاگیا۔ مقدمے کی طوالت اور بدامنی کی وجہ سے سنگاپور پورٹ اتھارٹی معاہدے سے نکل گئی۔فروری 2013 میں چین نے گوادر پورٹ کا آپریشن خود سنبھال لیا۔

ایک دفعہ پھر پراپرٹی کی قیمتوں میں تیزی آئی۔کچھ ہی دنوں میں گوادر کے اردگرد کا 30 کلومیٹر کا علاقہ بک گیا۔بلوچ قوم کو پہلے ہی سے فکر لاحق تھی کہ اگر 20 لاکھ آدمی جس میں سے 5 لاکھ چینی  آکر گوادر میں بسیں گے تو بلوچ  قوم اقلیت میں بدل جائےگی۔صوبے کی اسمبلی سمیت تمام اقتداراعلی پر اجنبی اقوام کا غلبہ ہوجائےگا۔

چنانچہ 3 مئی 2004 کو بلوچ مزاحمتی تنظیم نے ایک ریموٹ بم کے ذریعے چینی انجنیروں کی وین کو گوادر شہر کے اندر نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں3 انجئیرز مارے گئے۔مکران کو بجلی ایران سے ملتی تھی پہلے تو وہ کم ہوتی تھی پھر کئی کئی دنوں تک غائب ہونے لگی۔ کیونکہ مزاحمت کاروں نے املاک اور بجلی کے کھمبوں کو تباہ کرنا شروع کردیا تھا۔بہت سارا علاقہ نوگو ایریا بن گیا۔

سنگاپور پورٹ اتھارٹی اس پروجیکٹ میں خالص کاروباری مقصد سے آئی تھی اس نے دیکھا کہ  پروجیکٹ  پر سست روی اور بڑھتی بدامنی کی وجہ سے اس کے اخراجات بڑھ کرسفید ہاتھی بنتے جارہے ہیں تو اس کا جوش ماند پڑتا گیا۔ مزید سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔دوسری طرف چین کو اس منصوبے سےتیل، گیس پائپ لائین گزار کر 2000 کلومیٹر  دور مگر 15،466 فٹ کی اونچائی پر پمپ کر کے لے جانا سمندری راستے سے چار پانچ گنا مہنگا پڑ رہا تھا۔البتہ وہ اپنی تمام معاشی سرگرمیوں کو ایک ہی  سمندری گزرگاہ  اور خاص کر مخالف  ملکوں کے بیچ آبنائے ملاکہ سے گزارنا بھی صحیح حکمت نہیں لگ رہی تھی۔

اس کے نزدیک مستقبل میں اگر آبنائے ملاکہ عالمی تصادم کی زد میں آتی ہے تب پھر چین مکمل طور پر محاصرے میں رہے گا۔ اس کی مشکلات لامحدود ہوجائیں گی۔لہذا اس کو گوادر بندرگاہ بوقت ضرورت ایک بحری اڈے کے ساتھ ساتھ اقتصادی کھڑکی کے طور پر بھی کام دے گی ۔قراقرم اور گوادر اس کے لیئے کاروباری سے زیادہ دفاعی اور متبادل اقتصادی روڈ کے طور پر کام دینے کی استعداد رکھتی ہے۔

جاری۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے