دیگر پوسٹس

تازہ ترین

!!!مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے

سدھیر احمد آفریدی کوکی خیل، تاریخی اور بہادر آفریدی قبیلے...

حالات کی نزاکت کو سمجھو!!!

سدھیر احمد آفریدی پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کو غریبوں...

ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات!!

کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے

متبادل پر سوچیں!! سدھیر احمد آفریدی کی تحریر

یہ بلکل سچی بات ہے کہ کوئی بھی مشکل...

پاکستان کی بنیاد بننے والی اردو ہی ترقی و خوشحالی کی ضامن ،محمد عبداللہ

محمد عبداللہ جامعہ اصحابِ صفہ ، فتوچک روڈ ، نزد مویشی منڈی گوندل ، ضلع اٹک

اردو زبان مملکت خداد پاکستان کی قومی زبان ہے۔
یہ وہ زبان ہےکہ جس کی تاریخ کسی محقق نے قدیم آریائوں سے جوڑی ہے، تو کسی ماہر نے اردو زبان کی ابتداء کا سہرا مسلمان فاتحین کے برصغیر آنے کے بعد کے زمانے کے سر باندھا ہے، بہر صورت اردو کے ابتداء کے بارے میں حتمی بات کہنا مشکل ہے،

اسی طرح آتے آتے اگر ہم اگر فرنگی دور کی بات کریں تو اس وقت فارسی زبان کے ذریعے تعلیم و تعلم عام تھا انگریز نے اپنے ڈر کی وجہ سے فارسی زبان کو ختم کرنا چاہا ، اسی لیے انگریز کے دور حکومت میں اردو کو انگریزی کے ساتھ دفتری زبان کا درجہ دیا گیا۔

اور اس طرح ایک الگ وطن کے لیے جدوجہد ہونے لگی، پھر قربانیاں رنگ لائیں ایک الگ وطن حاصل ہوا تو قائد اعظم نےقومی زبان کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم اور ہماری قوم، ہمارا ملک تب ھی ترقی کرے گا جب ہم اپنی ایک پہچان بنائیں گے، ہم انگریزی کے بجائے اردو زبان کو متعارف کروائیں گے مختصراً یہی کہ قائداعظم نے اردو زبان کا خوب حق ادا کیا


یہ بھی پڑھیں


اور 1948 ء میں قائد اعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کی کاروائی اس بات کی گواہ ہے، 1956ء کے دستور میں اردو کو بطور قومی و سرکاری زبان نافذ کرنے کا حکم دیا گیا، اور اسی طرح 1973ء کے پاکستان کے آئین کے 251 شق کے تحت اردو کو دفتری زبان بنانے کا اعلان ہوا لیکن اس حکم پر عملدرآمد نہ ہو سکا،

اسلیے 2015 میں اردو کو بطور دفتری زبان نافذ کیے جانے کے احکامات دوبارہ جاری ہوئے، یہ سب تو تھی اردو کی ابتداء کیسے ہوئی اور پاکستان بننے کے بعد اسکو نافذ کرنے کے لیے کیسے اور کیا خدمات دی گئیں، یہاں تک تو اردو کی پیدائش اور پاکستان بننے کے بعد اردو زبان کو نافذ کرنے کے لیے کوششیں بیان کی گئی ہے اب یہ بیان کریں گے کہ اپنی قومی زبان اردو کو چھوڑ کر انگریزی کو اپنے سر پر سوار کر کہ ہم اپنا کیا نقصان کر رہے ہیں۔

قائد اعظم نے ملک بنانے کے لیے جدوجہد کی ا ور پھر اردو زبان کا حق ا دا کرتے ہوئے 1948ء میں قانون ساز اسمبلی کی تائید سے اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ بھی عطا فرمایا، اور پھر وقتاً فوقتاً اردو زبان کو دفتری زبان کا بھی درجہ دیا گیا لیکن بدقسمتی سے ہم نے انگریز کو تو برصغیر سے نکال دیا بس انگریزی زبان کو نہ نکال سکے، ان کے بول چال، اور طور طریقوں کو اپنا کر آج بھی ہمارا معاشرہ فخر محسوس کرتا ہے اور انگریزی نہ سمجھنے والے یا قومی زبان بولنے والے کو حقیر سمجھا جاتا ہے،

جیسے ہمارا ایک الگ وطن ہے اسی طرح ہماری ایک الگ قومی زبان ہے جسے قومی زبان کا درجہ تو دے دیا گیا لیکن ہم اردو زبان بولنے میں شرم محسوس کرتے ہیں، ہم اردو نہ بول کر صرف اپنی قومی زبان کو نہیں چھوڑ رہے ہیں بلکہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو بھول رہے ہیں، ہم ہر جگہ انگریزی جھاڑ کر صرف اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور کچھ نہیں،

ہم کسی بھی پلیٹ فارم پر اردو کی جگہ انگریزی بول کر خود کی ہی کم اعتمادی کو ظاہر کر رہے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی زبان کو اتنی اہمیت دی جائے جتنا اس کا حق ہے اگر ہم اپنے ملک پاکستان سے پیار کرتے ہیں تو ہمیں اردو زبان کو فروغ دینا ہو گا تب ھی ہماری ثقافت، ہماری تہذیب سے لوگ واقف ہوں گے اور ہمارا ملک تب ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا ان شاء اللّٰہ تعالیٰ