ابن انیس شجاع الرحمان ، انٹر میڈیٹ،جامعہ بنوریہ عالمیہ، احمد پور شرقیہ

الحمد للہ، الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ،اما بعد!
(فاعوذباللہ من الشیطن الرجیم)
(بسم اللہ الرحمن الرحیم)
(ومن آیٰتہٖ خلقُ السموتِ والارضِ واختلافُ السنتکمْ وَ الوانکمْ ط اِنّ فی ذٰ لکَ لاٰیٰتٍ للْعلِمینَ) (سورۃ روم) (۲۲)
ترجمہ: اور اسکی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا ہے،
بے شک اس میں علم والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
(وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ۔) (سورۃ ابراہیم) (۴)

ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں۔
اللہ ربُ العزت نے زبان کو اپنی نشانی اور علامت بتلایا ہے، کہ کوئی ایک ذات ایسی ہے جس نے تمہیں پیدا بھی کیا اور مختلف زبانیں بھی عطا ء کی،تو زبان ہی کے ذریعہ سے تم اپنے مافی الضمیرکا اظہار کرتے ہو۔ تو یہ زبان ہی ہے جس سے بندہ کی شناخت قائم رہتی ہے۔زبان کی بقاء ہی کسی قوم کی بقاء ہواکرتی ہے۔ جس قوم نے بلندی و عظمت سے ہمکنار ہونا ہوتا ہے وہ اپنی زبان کی حفاظت کرتی ہے۔نا کہ کمتری کا شکا ر ہوکے چھوڑ دیتی ہے۔

پاکستان کے علیحدگی کا جب مطالبہ کیا گیا تو جہاں مسلم قوم اور ہندوؤں کا رہن سہن،چال چلن، اور کھانا پینا مختلف تھا وہیں زبان بھی مختلف تھی۔اردو زبان کا پاکستان بننے میں ایک بڑا عمل دخل ہے۔ بانئی پاکستان کے الفاظ بھی میں آپ کے سامنے رکھتا چلوں۔

17ما رچ 1938ءکو جواہر لال نہرو کے نام آپ ؒ نے جو خط لکھا اس خط میں آپ ؒ نے جو 14 نکا ت بیان فرمائے، جن میں ایک یہ بھی تھا کہ ”مسلمان اردو کو ہندستان کی قومی زبان دیکھنا چاہتے ہیں، اور یہ چاہتے ہیں کہ اردو زبان کو نہ محدود کیا جائے،اور نہ کسی قسم کا نقصان پہنچایا جائے“۔

آپؒ کے ان الفاظ سے اردو زبان کی اہمیت واضح طورپر کھل کر سامنے آجاتی ہے،مگر آج پاکستان کو علیحدہ ہوئے تہتر برس بیت گئے اور آج تک اردو زبان کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی،افسوس صد افسوس آج ہم کمتری کا شکار ہو کر اپنی زبان کو چھوڑتے چلے جا رہے ہیں۔اردو زبان کو چھوڑ کر ہم کبھی عروج حاصل نہیں کر سکتے۔
اردو کا شکوہ ملاحظ کیجئے۔!

میں خود ی میں اک لشکر ہو مگرحق تلفی یہ کہ
میرا قافلہ ہی مجھے چھوڑتا چلا جا رہا ہے
(شاعر: ابنِ انیس)

اردو زبان کی اہمیت پر میں ایک بڑا دلچسب واقعہ پیش کرنا چاہوں گا۔
مولانا ابو الکلام آزاد ؒ:
وائے سر ائے ہند مولانا ابو الکلام آزادؒسے ملنے انکی رہائش گاہ آیا، وائے سرائے ترجمان دونوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اسکی زبان میں بتاتا جا ریا تھا۔اتنے میں جب ترجمان ترجمہ درست نا کر سکا تو مولانا آزادؒنے اسکی غلطی درست کر کے کہا کہ یوں کہو۔ملاقات کے اختتام پر وائے سر ائے نے مولانا سے پوچھا، ”جب آپکو انگریزی آتی ہے تو ساتھ ترجمان کیوں بٹھایا“؟


یہ بھی پڑھیں


مولانا نے کیا خوب جواب دیا! ”آپ ہزاروں میل چل اپنی زبان نہیں چھوڑسکتے،میں گھر بیٹھے ہوئے کیسے اپنی زبان چھوڑ دوں“۔

یہ تھا ہمارے اسلاف کا طرزِعمل،یہ تھا ان کا دیا ہوا سبق۔ لیکن یورپ سے پڑھ کر آئے ہوئے چند مینڈکوں نے یہ کہ کر ٹھکرادیا کہ یہ زبان پاکستان کی قومی زبان بننے کے لائق نہیں۔ اسے نا معلوم اور بے وقار زبان کہ کر ٹھکرا دیا۔اور انگریزی زبان کو سرکاری سطح پر نافذکرنے کی رِٹ دائر کی۔ غور سے سن لیں! ہمیں کسی بھی حال میں اپنی زبان کے علاوہ کوئی زبان قبول و منظور نہیں خواہ انگریزی ہو یا کوئی اور۔

قائداعظم ؒ کا ایک قول آپ کے سامنے رکھتا چلوں فرماتے ہیں۔ ”کوئی بھی قوم ایک قومی زبان کے بغیر ملکی سالمیت اور فکری یک جہتی تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی“۔

ملکی سا لمیت اور فکری یک جہتی اسی میں تھی کہ ہم اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیتے، اسی کو فروغ دیتے، اور پورے اقوام عالم میں اپنی زبان کا ڈنکا بجواتے،مگر! تہتر برس بیت جانے کے بعد بھی آج نا اسے اہمیت دی گئی اور نا ہی اپنے اداروں،دفتروں،سکول،کالجز،اور یو نیورسٹیوں میں نافذکیا گیا۔
اتباف ابرک کاایک شعر ملاحظہ کیجئے!

ستم یہ ہے کہ تہتر برس کا ہوکے بھی
یہ بچہ پاؤں پہ ہم نے کھڑا نہ ہونے دیا

حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کیا ہی خوب اس بارے میں فرماتے ہیں۔”یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم دین ومروت کے خلاف فقط ایک سازش ہے۔اس نظامِ تعلیم نے طبقاتی کشمکش کو جنم دینے کے سواء کچھ نہیں کیا“۔ بس آخری گزارش یہی کرنا چاہوں گا، کہ خدارا اپنی شناخت نا بھولیں ورنہ ہم کسی دوسری قوم میں ضم ہوکر گم ہو جائیگے۔
الحمد للہ ہماری تو اپنی تاریخ ہے۔
اپنے مضمون کا اختتام ایک شعر پرکرنا چاہوں گا۔

کہاں تک سنوگے کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیاکیا سناؤں

5 thoughts on “قومی زبان کے بغیر ملکی سالمیت اور فکری یک جہتی کا حصول ناممکن ،ابن انیس”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے