گونل عباس ،باکو

دنیا میں اس فرد یا ملت کا کوئی مستقبل نہیں جو اپنے ماضی کو فراموش کربیٹھے ،خوش قسمتی سے ہمارا ماضی ہمارے اذہان ابھی محو نہیں ہوا ۔ ہمیں اس بات پر شرمندگی ضرور ہے کہ ہم ماضی کے ان واقعات کا مناسب جواب نہیں دے پائے ۔مگر ہم وہ سب کچھ بھولے نہیں ہیں ،لیکن ہمارے شہیدوں کے خون ا ور ان کی بہادرانہ جراتوں کی یادوں کی بدولت اور فاتح قائد الہام علیوف کی قیادت میں لڑی جانیوالی 44 روزہ جنگ آزادی میں ہماری بہادر افواج نے ثابت کردیا کہ ہم نے ماضی کو فراموش نہیں کیا اور ہمارے شہداء کا خون رائیگاں نہیں گیا

یہ 19 اور 20 جنوری کی شب تھی جب سوویت یونین نے ہنگامی حالت کا اعلان کئے بغیر باکو پر حملہ کردیا ۔سینکڑوں شہریوں کو شہید ،زخمی کردیا گیا جبکہ ہزاروں پابندسلاسل اور لاپتہ کردئے گئے ۔اس روز سوویت فوج کے ہاتھوں 82 لوگ شہید جبکہ 20 زخمی ہوئے ۔جبکہ ہنگامی حالت کا اعلان کرنے کے بعد 20 جنوری اور اس کے بعد مزید 21 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گا ۔جبکہ 25 اور 26 جنوری کو نفت جہالا اور لانکران کے علاقوں میں مزید آٹھ افراد موت کے گھاٹ اتاردیئے گئے

سوویت جارحیت کے دوران باکو اور آزربائیجان کے دیگر علاقوں میں سوویت فوجوں کے ہاتھوں 146 افراد مارے گئے ،744زخمی جبکہ 841 افراد کو غیرقانونی طور پر حراست میں لیا ۔سوویت فوج نے 2 سو نجی و سرکاری مکانات ،عمارات ،80 گاڑیاں بشمول ایمبولینس نذرآتش کیں ۔مرنے والوں میں بچے،خواتین اور معمرافراد کے علاوہ پولیس اور طبی عملے کے اراکین بھی شامل تھے


یہ بھی پڑھیں


جنوری کے ان سیاہ واقعات کے نتیجے میں سوویت یونین اور آزربائیجان کے آئین کی کھلی خلاف ورزی ہوئی اور جمہوریہ آزربائیجان کی خودمختاری پامال ہوئی ۔درحقیقت سوویت جارحیت آزربائیجان کی عوام کی جانب سے جمہوری حقوق اور قومی آزادی کی جدوجہد کو ختم کرنے کا طے شدہ منصوبہ تھی ۔اور اس جذبہ کو دبانے کیلئے سوویت افواج نے عوام کا استحصال کیا ،فوجی اہلکار ان کے گھروں میں داخل ہوئے ،اہل خانہ کو یرغمال بنایا گیا اور کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا
20 جنوری کا دن جہاں ہمیں جدیدآزربائیجان کی تاریخ کے ایک سیاہ باب کی یاد دلاتا ہے وہیں یہ دن ہمارے عوام کی اپنی آزادی اور غیرمتزلزل جدوجہد کو بھی دوہراتا ہے ،جو ہماری قوم کی جہد آزادی کی علامت بن چکا ہے
ان واقعات کے بعد ہمارے قومی رہنما حیدرعلیوف نے بھرپور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماسکو میں سوویت قیادت کی جانب سے آزربائیجان میں روا رکھے جانے والے مظالم کی بھرپور مذمت کی ۔اور پھرانہی کی ایما پرسانحہ 20 جنوری کی تفصیلات کو جنوری 1994 میں مجلس ملی میں پیش کیا گیا

ان افسوسناک واقعات کو قومی یادداشت کا مستقل حصہ بنانے کیلئے وقت کے ساتھ کئی اقدامات اٹھائے گئے ،2010 میں شہدائے 20 جنوری کی یاد میں میٹروسٹیشن کے ساتھ ایک یادگار جبکہ باکو میں یسامال کے علاقے میں ایک کمپلیکس تعمیر کیا گیا تاکہ آزربائیجان کا ہر باسی اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کےلئے 20 جنوری کے شہداء کے جذبے کو یاد رکھے

آزربائیجان کے لوگ اپنے ان بیٹوں اور بیٹیوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے جو اپنے ملک کی آزادی کیلئے 1990 میں ایک جارح قوت کے سامنے ڈٹ گئے ۔اور جنہوں نے آزربائیجان کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہر سال 20 جنوری کو ان شہداء کی یاد منائی جاتی ہے اور ان کی تعظیم میں پورے ملک میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔ان کے سوگ میں قومی پرچم سرنگوں رکھا جاتا ہے 

آج اس افسوسناک دن کو گزرے 32 سال ہوچکے ہیں ،طویل تاریخ کی حامل دنیا کیلئے شاید یہ گنتی بہت کم ہو ۔لیکن جہاں تک آزربائیجان کی ریاست اور ملت کا تعلق ہے وہ ان روحوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے جو 20 جنوری کی تاریک رات کو اپنے وطن کی شمع آزادی پر قربان ہوئیں ۔خواہ تین دہائیاں گزری ہوں یا سینکڑوں سال

ہم انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے