سدھیراحمدآفریدی
کابل ،افغانستان
حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ سابق وزیر اعظم انجینئر گلبدین حکمتیار نے کہا ہے کہ امریکہ شکست اور ناکامی کے بعد انتقام پر اتر آیا ہے، افغانستان میں کوئی تعمیرنو نہیں کی ہے، امریکا شکست کا بدلہ لینے کی خاطر افغانستان میں دوبارہ جنگ وجدل چاہتا ہے لیکن معاشی مسائل میں گھرے افغان عوام اس سازش کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
امریکہ شکست کھا کر چلا گیا تاہم اس کا چھوڑا ہوا بوسیدہ اور ناکارہ نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے جس کے باعث مشکلات کا سامناہے۔ پاکستان نے ہر مشکل میں افغان عوام کی مدد کی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسلام آباد افغان عوام کی مشکلات کے پیش نظر اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لے گا۔ حزب اسلامی موجودہ حکومت میں شامل نہیں

تاہم افغانستان کے معاشی استحکام، اداروں کی بحالی اور فعالیت، ترقی،عوام کی خوشحالی کی خاطر امارات اسلامی افغانستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ہمارے دوست دشمن ایک ہیں۔ کابل میں اپنی رہاش گاہ پر پاکستانی صحافیوں کے وفد سے ملاقات میں افغان جہاد کے صف اول کے گوریلا کمانڈر انجینئر گلبدین حکمتیار نے کہا کہ افغانستان تمام دنیا سے برابری کی سطح پر تعلقات چاہتاہے۔
یہ بھی پڑھیں
- کابل ،تہران میں پاکستان مخالف مظاہرے اور ایران کا بدلا لہجہ چہ معنی دارد؟
- وادی تیراہ ،دہشت و بیروزگاری کے اثرات سے نکلنے کی خصوصی توجہ کی ضرورت
- کابل کے ایک تاجرکا آنکھوں دیکھا حال،طالبان کی آمدکا سنا تو ہر طرف خوف پھیل گیا ،لیکن جو مناظر دیکھے حیران کن تھے
- افغانستان جہاں طالبان ،وارلارڈز اور جنگ کے سوا اور بھی دنیائیں آباد ہیں
انہوں نے کہا کہ داعش کوئی بڑا مسئلہ نہیں، ان کو ٹیشو پیپر کے طور پر بین الاقوامی خفیہ ادارے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر امریکی ایجنڈا کے تحت خانہ جنگی اور فتنہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ مساجد میں دھماکے اور غیر مسلموں کی عبادتگاہوں کو نشانہ بنانا کون سا اسلام ہے اسلام ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا ۔
انجینئر گلبدین حکمتیار نے افغان حکومت کو تجویز دی کہ اندرونی مشکلات پر قابو پانے اور افغان عوام کے اعتماد کو بحال کرنے اور افغانستان کو مستحکم کرنے کے لئے منتخب شوری یا پارلیمنٹ قائم کریں جو مشاورت سے طرز حکومت، خارجہ و داخلہ پالیسی، دستور اور دیگر معاملات کا فیصلہ کر سکے
انہوں نے پاک افغان بارڈر پر افغان عوام کو درپیش مصائب اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ افغانوں کو سفری سہولیات فراہم کی جائیں گی لیکن اس سمت میں عملی قدم نہیں اٹھایا انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مستقل امن کا زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا لیکن اب یہ اسلام آباد کی پالیسیوں پر منحصر ہے۔
افغان رہنماء نے کہا کہ قیام پاکستان سے لے کر سابق حکومت تک افغانستان میں پاکستان مخالف حکمران براجمان رہے ہیں چنانچہ یہ بہترین موقع ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک نفرت اور کشیدگی کے بجائے امن و محبت سے معاملات طے کریں جس سے خطہ تیزی سے خوشحالی کا سفر طے کرسکتا ہے اور افغانستان میں امن اور مستحکم حکومت کی بدولت پاکستان وسط ایشیائی ممالک تک اپنی تجارت کو بڑھا سکتا ہے
انہوں نے کہا کہ عوام سابق افغان حکومت کی ناکامی اور کرپشن سے متنفر تھے اور اسے برا سمجھتے تھے، امریکہ نے بھی اشرف غنی حکومت کی نااہلی کا اعتراف کیا تھا ۔انہوں نے روس کی طرف سے امارات اسلامی افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے عندیہ کے بارے میں کہا کہ روس کے اپنے مفادات ہیں تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے کابل حکومت کے مفاد میں نہیں کہ عالمی طاقتوں میں سے کسی ایک جانب اس کا جھکاو ہو۔
ایک سوال کے جواب میں گلبدین حکمتیار نے کہا کہ ٹی ٹی پی آج کا مسلہ نہیں ہے، ٹی ٹی پی اس وقت بھی افغانستان میں تھی جب امریکا ادھر ہی تھا، اس وقت اگر کراچی اور بڑے شہروں میں کارروائیاں برداشت تھیں تو اب کوئی جلدی نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی اس حوالے سے امارت اسلامی کو موردالزام ٹھہرائے
اس حوالے سے مذاکرات ہوئے ہیں اور ہم نے بھی طالبان حکومت کو کہا ہے کہ وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعاون کریں اوراعتمادکی فضاءبحال رکھیں تاکہ اسلام آباد اور کابل کے مابین فاصلے نہ بڑھیں امید ہے ٹی ٹی پی کا معاملہ جلد حل کرلیا جائے گا۔