انسان جب جہاں آب و گل میں جلوہ افزور ہواتو ا سے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کی یاد ستانے لگی- اظہار کے شوق نے الفاظ کا روپ دھار کر زبانوں کی تشکیل کی-
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ زبان و ادب کسی قوم کے داخلی وخارجی حقائق منظر عام پر لاتا ہے- فطرت کا وہ معرکہ سر انجام دیتا ہے جو شمشیر و سناں کے بس کی بات نہیں-
اللہ تعالی کاعظیم احسان ہے کہ اس نے مسلمانان ہند کو اردو جیسی لطیف زبان جس کا خمیر عربی اور فارسی سے گوندھا گیا،عطا کی- اس میں ترکی زبان کی حلاوت و شیرینی اور عالاقائی زبانوں کی آمیزش شامل ہے-
جب شاطر فرنگی نے اس سرزمین پر قدم رکھاتو اس نے حکمرانی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ١٨٠٠میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا تھا کہ سادہ اور سہل زبان میں افسانوی ادب کا ترجمہ ہو مگر جیسا کہ قانونِ قدرت ہے کہ یرتخریب میں تعمیر کا پہلو مضمر ہوتا ہے،ان کا یہ قدم اردو کے حق میں آب حیات ثابت ہوا- فرہنگ کی شاطہ نے عروس اردو کی نکھار کو دو چند کر کے اسے جلاء بخش دی-
اردو زبان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ زبان ہمارے شاندار ماضی کی آمین اور مستقبل کی نویدہے-
تاریخ شاہد ہے کہ اگر کسی قوم کو محکوم بنانا ہو تو اسے ادبی لحاظ سے اپاہج کر دو شایدیہی وجہ تھی کہ انگلستان میں اپنا علمی سرمایہ دیکھ کر شاعر مشرق کا جگر سیپارہ ہوا-
یہ بھی پڑھیں
- اردو محبت بھری ،سلیقہ منداور عصری تقاضوں پر پورا اترنے والی زبان،محمد طلحہ خان
- اردو جس نے سب سے وفا کی لیکن اس سے کسی نے وفا نہ کی ،زینب محمد خرم
- اردو کے نفاذ میںرکاوٹ ہی دراصل ہمارے قومی ترقی کی راہ میںرکاوٹ ،سماوہ سلطان
- اردو کے عملی نفاذ سے انحراف استحصالی نظام کو برقرار رکھنے کی کوشش،سید صیام بخاری
اردو زبان میں شاہ ولی اللہ کا ترجمہ قرآن اور علامہ اقبال کا الہام، سرسید ، حالی، آزاد، میر و سودا ،انیس و دبیر کی علمی و شعری کی کاوشیں موجود ہیں- ا س وجہ سے مولوی عبدالحق اردو کے قائداعظم بن کر اسی کے دفاع کے لئے اپنی زندگی کے آخری لمحےتک ہندوؤں سے برسر پیکار رہے اپنی پنشن تک صرف کر کے اردو سائنس کالج اور عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام سے ثابت کر دیا کہ اردو کسی بھی زبان سے کم نہیں-
گویا کہ مملکت خداداد پاکستان کی ترقی کے لئے اردو زبان کو جائز مقام دینا پاکستان کا اولین تقاضا ہے – یہ زبان مثل شیرازے کی ہے ، جو کہ چاروں صوبہ جات میں علاقائی زبانوں میں رابطے کا ذریعہ ہے- علاقائیت کی نفی کر کے احساس قومیت کے جذبے کو پروان چڑھاتی ہے- من حیث القوم ہمیں نا قابل تسخیر بناتی ہے ملی و قومی ترقی کا اولین تقاضا ہےکہ ان نادیدہ طاقتوں کو شکست دیں جو کہ اس ملک کوفکری لحاظ سے تباہ کرنا چاہتے ہیں-
قومی زبان نےپیشہ ورانہ علوم کی کتب کا اردو میں ترجمہ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ہم اس زبان کوبھی ذریعہ تعلیم بنا سکتے ہیں-
چینی صدر نے کسی موقع پر کہا تھا کہ چین گونگا نہیں ہے ، پاکستان بھی الحمدللہ اردو جیسی عظیم زبان رکھتا ہے- ہم اردو کو ذریعہ تعلیم بنا کر استحصالی نظام کا خاتمہ کر کے نونہالان چمن کی عمدہ انداز سے کردار کی تشکیل کر سکتے ہیں-
وقت کا اولین تقاضا ہے کہ ہم اردو کو دفتری زبان بنانے، سیاست کے ایوانوں اور کھیل کے میدانوں میں زبان کو اپنانے میں عار نہیں بلکہ فخر محسوس کریں-
تاہم بین القوم زبان انگریزی کومخالف نہیں بلکہ معاون سمجھیں – انگریزی زبان سکھانے کے لسانی ادارے بنائے جائیں اور تعلیمی اداروں میں زبردستی طلبہ پر مسلط کرکے تعلیمی ترقی نہ روکی جائے-
امید قوی ہے کہ ہمارے حکام بالا اس تاریخی، مذہبی اورتہذیبی زبان کو فروغ دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں گے کیونکہ زبان ہی کسی قوم کا وقار و نشان افتخار ہوا کرتی ہے – ہماری زبان کی دھوم سارے جہاں میں رہے گی – ان شاء اللہ