ڈاکٹرائن کی ناکامی سے مایوس نہ ہوں،تجربات جاری رکھیں


سید عتیق الرحمان شاہ
کمانڈ سٹک
ڈنڈا پکڑائی کی تقریب میں اور تو سب موجود تھے بجز اس کے جس میں وہ ڈنڈا ہے ۔ اس بے چارے کی ڈگی میں جانیوالی قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے یکا یک ڈنڈے پر ہاتھ تبدیل کر دیا گیا ۔ دروغ بر گردن راوی کہ ڈنڈہ تھمائی کی یہ رسم برطانیہ کی رائل آرمی کی سنت ہے ۔ اور آپ کو تو ویسے بھی معلوم ہو گا کہ آرمی میں ایک چلتے ہوئے سلسلے کو روکنے کے لیئے دوسرا حکم جاری کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
کمانڈ سٹک حوالگی کے مروجہ طریقہ کار کو روکنے کا انگریز کے بعد کسی نے کبھی بھی حکم نہیں دیا اس لیئے یہ رسم ابھی تک جاری ہے ۔
مشہور واقعہ ہے کہ کسی یونٹ میں ایک کھمبے کے ساتھ مستقل طور پر ایک فوجی جوان تعینات رہتا تھا ایک بار کسی افسر کی نظر پڑی تو اس نے وہاں فوجی تعینات کرنے کی وجہ پوچھی تو حوالدار نے بتایا سر آپ کے آنے سے بہت پہلے یہاں کرنٹ لگنے سے ایک فوجی مر گیا تھا ۔
اس وقت کے سی او صاحب نے یہاں مستقل طور پر ایک فوجی جوان کی ڈیوٹی لگا دی ہے جس کا کام یہاں سے گزرنے والے فوجیوں کو کھمبے سے دور رکھنا ہے ۔ افسر نے کہا مگر اس کھمبے پر تو بجلی کی تاریں ہی نہیں لگی ہوئیں ۔ حوالدار نے کہا کہ بعد میں بجلی کی لائن تبدیل کر دی گئی اور اب وہ لائن ہماری حدود کے باہر سے گزر رہی ہے ۔ افسر نے کہا کہ پھر ڈیوٹی ختم کر دینا چاہیئے تھی تو حوالدار نے کہا سر اس کے بعد ہمیں یہ حکم کبھی نہیں ملا کہ یہاں سے جوان کی ڈیوٹی ختم کر دو ۔
یہ بھی پڑھیں
- پی ٹی آئی کا آزادی مارچ ،تحمل و سمجھ داری واحد راستہ
- گلہ اسلام سے نہیں مسلمانوں سے ہے ،سید عتیق الرحمان
- سب سے سچے اورعظیم پاکستانی، سید علی شاہ گیلانی کی کہانی
- ٹیکنالوجی کی یلغار ،ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ہمارا مستقبل ؟سدھیراحمد آفریدی
بی بی سی کے مطابق کمانڈ سٹک کی جگہ تلوار وغیرہ دینے کی کبھی کوئی تجویز زیر غور نہیں آئی ۔ کیوں کہ مشہور ہے کہ ایک مراثی کو تلوار انعام میں دی گئی تو اس نے لوہار کے پاس جا کر اس تلوار کا چمٹہ بنوا لیا اور اسے بجا بجا کر اپنا پیٹ پالنے لگا ۔ خیر یہ ہمارا موضوع نہیں ہے ۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف میڈیا کا فتنہ آنے سے پہلے صرف وزیر اعظم کے جانے پر لوگ خوشیاں مناتے تھے ۔ اب کی بار فوجی قیادت کی تبدیلی پر بھی لوگ خوشیاں منا رہے ہیں ۔
خوشیاں منانے والوں کے ایک سابق وزیر قبل ازیں یہ ارشاد فرما چکے ہیں کہ آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے ۔ اب باپ کی تبدیلی پر خوشیوں کی ضرورت تو نہیں ۔ مگر ناہنجار اور ناحلف اولاد سے بعید نہیں کہ وہ مرنے پر بھی خوشیاں منائے ۔ یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہو رہا ہے کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ پر ان کی تذلیل کی جا رہی ٹوئیٹر پر گالیوں کے ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں ۔ یہ بہت غلط ہو رہا ہے ۔ کیا کبھی تجربہ ناکام ہونے پر لیبارٹری کے سائنسدان کی کردار کشی کی گئی؟
بلب بنانے والے ٹامس سلوا ایڈیسن نے چار سو ناکام تجربات کے بعد بلب بنانے میں کامیابی حاصل کی اگر ابتداء میں ہی اس کو گالیاں دینے والا ہجوم سڑکوں پر نکل آتا تو ایڈیسن کو یہ کامیابی کبھی نہ مل سکتی۔ بدقسمتی سے اس بات کو دلیل بھی نہیں بنایا جا سکتا کیوں کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ آخر کار بلب کسی اور نے بنا لیا تھا ، ایڈیسن نے صرف اس کے حقوق اپنے نام پر حاصل کر لیئے ۔ اس لیئے حتمی طور پر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ لیبارٹری میں تجربات کا تسلسل کامیابی کا ضامن ہے تا ہم کامیاب تجربے کا امکان ہمیشہ رہتا ہے
اس لیئے میرے غلیظ ہم وطنو ، رخصتی پر کسی کو گالیاں نہ دو ۔ کیوں کہ جو آیا ہے اسے جانا ہے ۔ یہی قانون ہے از ازل تا بہ ابد۔ جو ایک نہ ایک دن آپ پر بھی لاگو ہو گا اور جب آپ جائیں گے تو ایسے ہی مغلظات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ یہی مکافات عمل ہے ۔ کل ملا کر بات یہی ہے کہ ایک ڈاکٹرائن نہ سہی دوسری سہی ، دوسری نہیں تو تیسری سہی مگر تجربات کا تسلسل ضروری ہے اور ادارے کو بھی یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ تجربات کرنا سائنسدانوں کی زمہ داری ہے حوالداروں کی نہیں ۔