شہناز یوسفزئی
نمائندہ خصوصی آزادی ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے
آسٹریلوی ہائی کمیشن اور سنٹر فار ایکسی لینس ان جرنلزم نے میڈیا سے وابستہ عامل صحافیوں کیلئے ایک روزہ تربیت کا انعقاد کیا گیا ، جو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کیلئے 16 روزہ سرگرمی کا حصہ تھا ،یہ تیسرا موقع ہے جب آسٹریلوی ہائی کمیشن نے اس طرح کی سرگرمی کا انعقاد یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
ان سرگرمیوں اور ورکشاپس کا مقصد ورکنگ صحافیوں کو خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے صنفی طور پہ حساس، اخلاقی اور باعزت رپورٹنگ کے بارے میں تربیت فراہم کرنا تھا۔
کراچی میں معنقد ہونے والی ورکشاپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے، پاکستان میں آسٹریلیا کے ہائی کمشنر نیل ہاکنز نے صنفی مساوات کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح جو معاشرے خواتین اور مردوں کو برابر اہمیت دیتے ہیں وہ محفوظ اور صحت مند ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کی کوششوں میں سب سے آگے رہنے کے لیے پرعزم ہے۔
"جنسی بنیاد پر تشدد ایک مشترکہ چیلنج ہے اور یہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے۔ بدقسمتی سے، موسمیاتی تبدیلی، عالمی تنازعات، اور اقتصادی عدم استحکام کے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بحرانوں کے نتیجے میں اس کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے۔ ہائی کمشنر نے کہا کہ سیلاب جیسے بحران جس نے اگست میں ملک کے زیادہ تر حصے میں پانی بھر دیا تھا، جس سے خواتین اور لڑکیوں پر کئی طرح کے تشدد کا خطرہ بڑھا ہے۔
مسٹر ہاکنز نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کوئٹہ کے اپنے دورے کے دوران انہوں نے صنفی بنیاد پر تشدد کی شکار خواتین کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات کی جو آسٹریلیا کی امداد سے مستفید ہو رہے ہیں: "تشدد کا شکار ہونے والوں کو مدد اور دیکھ بھال فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ تاہم، اس کی روک تھام پر توجہ مرکوز کرنا اس سے زیادہ ضروری ہے . اس لئے ہمیں ان معاشرتی روایتوں کو تبدیل کرنا چاہیے جو تشدد کو قبول کرتے ہیں اور صنفی دقیانوسی تصورات کی سہولت کاری کرتے ہیں۔ یہی تشدد کے رونما ہونے سے پہلے اسے روکنے کا واحد طریقہ ہے۔ اس لئے لیے خواتین کی تنظیموں میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور خواتین کو روزانہ درپیش مختلف امتیازی سلوک سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں
- سالانہ0 2 لاکھ حاملہ خواتین عطائی ڈاکٹروںکے تجربات کی بھینٹ چڑھنے لگیں
- ڈیجیٹل پاکستان نوجوانوں اور خواتین کی ترقی کی ضمانت، مسائل کا حل
- افغان فٹ بالر خواتین کی پاکستان آمد ،قوانین نظرانداز کرنے کی تحقیقات شروع
- ایبٹ آباد ،سوشل میڈیا پر مرد بن کر خواتین کو ہراساں کرنیوالی خاتون گرفتار
نیل ہاکنز نے مزید کہا اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے میں میڈیا کا کردار بنیادی اہمیت کا حال ہے ۔میڈیا کے پاس خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، ضروریات اور کمزوریوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ روایتی سماجی اور ثقافتی اصولوں اور رویوں کو چیلنج کرنے کی طاقت ہے جو خواتین کے خلاف تشدد کو تسلیم کرتے ہیں،۔
معروف آسٹریلوی صحافی اور صنفی مساوات کی وکیل
ورجینیا ہوسیگر پاکستانی صحافیوں امبر شمسی، ضرار کوہرو اور قانونی ماہر سارہ ملکانی کے ساتھ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو روکنے میں میڈیا کے کردار کے بارے میں اپنے اپنی تجاویز اور تجربات کے بارے میں بتایا
ورجینیا ہوسیگر نے کہا، ‘جنسی بنیاد پر تشدد تمام قوموں اور تمام کمیونٹیز میں عام ہے۔ بحیثیت صحافی یہ ہمارا کام ہے کہ خواتین کو محفوظ رکھنے میں معاشرتی ناکامیوں پر روشنی ڈالی۔ یہ بھی اہم ہے کہ ہم مجرموں کے کردار کے بارے میں اپنی سوچ اور فہم کو وسیع کریں اور اور متاثرہ خواتین کی میڈیا میں آواز اٹھانے میں مدد کریں۔”
ورکشاپ کی تربیت کار امبر شمسی کا کہنا تھا”چوری، دھوکہ دہی یا دیگر چھوٹے جرائم کے برعکس، صنفی بنیاد پر تشدد ایک ایسا جرم ہے جو دوسروں سے جڑا ہوا ہے۔ صحافی اور رپورٹرز اسی معاشرے سے آتے ہیں جو صنفی بنیاد پر تشدد کو برقرار رکھتا ہے۔ اسی لئے انہیں اپنے تعصب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ منصفانہ اور حساس طریقے سے رپورٹنگ کر سکیں۔ ورکشاپ کے ذریعے، سنٹر فار ایکسی لینس ان جرنلزم کا مقصد صحافیوں کی تعصب کی نشاندہی کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے میں مدد کرنا ہے اور صنفی بنیاد پر تشدد کے معاملات کو درست اور احترام کے ساتھ رپورٹ کرنا ہے۔”