
گلدستہ معنی کو اک نئے رنگ سے باندھوں
اک پھول سا مضمون ہو تو سو ڈھنگ سے باندھوں
انسان کو اپنے خیالات و افکار دوسروں تک پہنچانے کے لیے زبان و بیان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ہم اپنے خیالات کا اظہار زبان کے ذریعے اس لیے کرتے ہیں کہ زبان انسانی جذبات کے اظہار کا ایک قدرتی اور مؤثر ذریعہ ہے۔ اس سے ہم اپنے خیالات اور احساسات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ کسی بھی زبان کی موجودہ شکل ایک طویل شعوری اور مسلسل محنت کا نتیجہ ہے۔
ابتداء میں انسان محض مہمل آوازوں کے سہارے اپنے جذبات و احساسات دوسروں تک پہنچاتا تھا۔ لیکن بعد میں معاشرتی، معاشی، طبعی اور مذہبی ضرورتوں کے پیشِ نظر اس میں تبدیلیاں آتی رہیں۔ یوں ہر علاقے اور معاشرے کی زبان اپنے اپنے مخصوص انداز اختیار کرتی گئی۔ اس طرح مختلف انسانی زبانیں اور بولیاں پیدا ہوئیں۔ کوئی زبان جتنی زیادہ قدیم ہو گی، اس میں اتنا ہی ذخیرہ الفاظ وسیع ہو گا اور وہ وہاں کے ادب کے حوالے سے اپنے معاشرے کی نمائندگی کی صلاحیت رکھتی ہو گی۔
1857ء کی جنگ ِآزادی کے بعد جہاں مسلمانوں پر اور بہت سے ظلم و ستم کیے گئے، وہاں ایک ظلم یہ بھی کیا گیا کہ مسلمانوں سے ان کی ثقافت و اقدار چھیننے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ وہ اقدار و روایات اور وہ زبان و ثقافت کہ جسے بامِ عروج تک پہنچانے کے لیے ہمارے اسلاف نے غیر معمولی اور ایمان افروز قربانیاں دیں، انہیں اقدار کو ہندو ہم سے چھیننا چاہتے تھے۔
لارڈ میکالے نے اسی بنیاد پر 2/فروری 1835ء کو برطانوی پارلیمنٹ کو باور کرایا کہ جب تک برصغیر کے باسی اپنی روحانی اقدار اور ثقافتی ورثوں کے ساتھ پختگی سے چمٹے رہیں گے، اس وقت تک قوم کی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ میری تجویز ہے کہ ان سے مادری/قومی زبان چھین لی جائے اور انگریزی زبان رائج کی جائے تاکہ مسلمان یہ سوچنا شروع کریں کہ ہر وہ چیز اچھی ہے جو بیرونِ ملک سے ہے“۔
درج بالا انگریزی اقتباس کا ترجمہ ہے جس سے یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ کسی قوم کی اس سے قومیت چھیننے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کی قومی زبان اس سے چھین لی جائے۔ چنانچہ مسلمانانِ برصغیر اپنی ثقافتی اقدار کے تحفظ کے حوالے سے پریشان تھے۔ دوسری جانب ہندو پورا زورلگا رہے تھے کہ دفاتر میں اردو زبان کی بجائے ہندی رائج کی جائے۔ وہ دیوناگری رسم الخط کو ملک بھر میں رائج کرنے کی کوشش میں تھے۔
ایسے میں مسلمانوں نے اردو کے دفاع کے لیے تحریک چلائی جس کے روحِ رواں بابائے اُردو مولوی عبدالحق، فخر ملت سرسید احمد خان، شمس العلماء کاخطاب پانے والی شخصیت مولانا الطاف حسین حالیؔ اور دوسرے بہت سے شہرہئ آفاق قائدین شامل تھے۔ انہی کی کوششوں سے ہماری قومی زبان نہ صرف سالم و سلامت رہی بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد اور پہلے مختلف ادوار میں ترقی کی راہ پر گامزن بھی رہی۔
قومی رابطے کی زبان …… اردو
مسلمانانِ برصغیر نے علیحدہ مملکت اپنی اعلیٰ و ارفع ثقافت، اپنی قومی زبان کی سا لمیت اور مذہبی نقطہئ نظر قائم رکھنے کے لیے حاصل کی تھی۔ چنانچہ جہاں قیامِ پاکستان میں دوسری بہت سی وجوہات شامل تھیں، وہاں قومی زبان (اردو) کا نفاذ بھی وطنِ عزیز کے حصول کی اہم وجہ تھی۔
یہ بھی پڑھیں
- اردو کے بغیر ذہنی طور پر غلام نسل کی تیاری کے سوا کوئی حاصل نہیں،مزمل فاطمہ
- اردو ہماری شاندار تاریخکا دریچہ اور ماضی سے جوڑنے کا واحد ذریعہ ،علیحہ صدف
- اپنی قومی زبان کے بغیر آج تک دنیا کی کوئی قوم ترقی نہیںکرسکی ،فاطمہ خیری
- کسی قوم کی تہذیبی ترقی اس کی قومی زبان کو پروان چڑھانے میں ہے،محمد صہیب
پاکستان کی قومی زبان اُردو ہ۔ اردو جہاں رابطے کی زبان کی حیثیت رکھتی ہے وہاں یہ قومی تشخص کی علامت بھی ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے مقاصد واضح طور پر طے کرتی ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے دن رات کوشاں رہتی ہیں۔ ان کا نصب العین مادرِ وطن کی خوشحالی، سلامتی اور اسلاف کے ورثے کی حفاظت و فروغ ہوتا ہے۔
ہمارے اسلاف نے جان ومال، عزت و وقار کی قربانیاں دے کر یہ زمین کا ٹکڑا حاصل کیا تھا تو اس کا مقصد صرف الگ زمین حاصل کرنا نہیں بلکہ اپنے ثقافتی ورثے کو قائم و دائم رکھنا اور اس کی ترویج و اشاعت کرنا تھا۔ ہمارے اسلاف نے اپنے خونِ جگر سے سینچے گئے اس خطہئ ارض کو ہمارے حوالے کرتے ہوئے اپنی خواہشات کا اظہار اس طرح کیا تھا کہ:
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
چنانچہ استحکامِ پاکستان میں بنیادی کردار اپنی قومی زبان یعنی اردو کی ترویج و اشاعت کا ہے۔ اردو زبان کے فروغ اور ترقی کے لیے قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بدقسمتی سے اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا کہ جنہوں نے وطن کی ڈوبتی ناؤ کو پار لگانے کی بجائے تختہ اُلٹ دیا۔
تاہم مختلف ادبی ذوق رکھنے والی شخصیات نے قومی زبان کے تحفظ کی گراں قدر کوششیں جاری رکھیں اور آج بھی ان کی کوششیں جاری ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کے آئینی نظام میں بھی اردو کے نفاذ کے حوالے سے پیش رفت کی گئی۔ چونکہ اردو زبان کو اپنائے بغیر ہم عالمی برادری میں اپنی قومی شناخت پیدا نہیں کر سکتے، اس لیے اس کے نفاذ کی بہت اہمیت و ضرورت ہے۔
آئین پاکستان اور اردو کی اہمیت
آئین پاکستان کا آرٹیکل 251 کا تعلق بھی پاکستان کی قومی زبان سے ہے۔ اس کے الفاظ آئین میں درج کچھ یوں ہیں:
i۔ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور یومِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔
ii۔ شق i۔ کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جائے گی جب تک اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں۔
iii۔ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی۔
اردو ہماری قومی زبان ہو
قومی زبان کے حوالہ سے یہ ہیں وہ الفاظ جو آئینِ پاکستان 1973ء میں درج ہیں۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس پر عمل درآمد کرنے کی عملی صورت حال کیا ہے؟ کون سا کام کیا جا چکا ہے اور کون سے کام ابھی کرنا باقی ہیں؟
اس موضوع پر کہ ”اردو ہماری قومی زبان ہو“ بہت سے آرٹیکل تجویز کیے گئے اور جوں ہی سابق وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف کی طرف سے ایک انتظامی حکم نامہ جاری ہوا تو اس پر اخبارات میں، کالم نگاروں نے کھل کر اپنا اپنا اظہارِ خیال کیا جو کہ انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ اس پر روزنامہ ”نوائے وقت“ کے اداریہ نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ جلد بازی میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں کہ ہم بیرونی دنیا سے کٹ کر رہ جائیں۔
ان کی خدمت میں صرف یہ گزارش ہے کہ ہم تو پہلے ہی کٹ چکے ہیں۔ اگر یہ کام آج سے پہلے اپنے مقررہ وقت پر ہو چکا ہوتا تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ کہ سانحہ مشرقی پاکستان ہمارے سامنے رونما نہ ہوتا۔ اب بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے کہ باقی پاکستان کے تمام صوبوں میں یکجہتی، ہم آہنگی اور اپنا ثبت پیدا کرنے کے لیے اس سے بہتر اور فورم کیا ہو گا؟
ذرا سوچئے! زیر نظر ”حکم نامہ“ کے مطابق تمام وفاقی سرکاری نیم سرکاری ادارے قوانین پالیسیوں کا تین ماہ میں اردو ترجمہ کریں گے۔ پاسپورٹ پر بھی انگریزی کے ساتھ اردو میں اندراج ہو گا۔ پنجاب تو خیر سے آج تک پنجابی زبان بھی رائج نہیں کر سکا۔ یہ تھے ریمارکس جناب جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری اداروں میں اردو رائج کرنے کی منظوری دے دی گئی اس کے ساتھ ہی صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان بیرون ملک قومی زبان میں ہی تقاریر کریں گے۔
مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک ِپاکستان میں اب تک برسرِ اقتدار آنے والے تمام وزراء اعظم اور صدر صاحبان، بین الاقوامی اقوام خصوصاً یورپی ممالک میں اردو میں تقاریر کرنا تو درکنار، اردو کو قومی زبان تسلیم کرنا بھی اپنے لیے باعث ِفخر نہیں گردانتے۔
یہ تھے چند ایک حقائق جو اس سے پہلے اخبارات کی زینت بن چکے ہیں اور اس کا تذکرہ ٹی وی چینلز پربھی خوب ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ اردو کے نفاذ کے حوالے سے جو کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں چل رہا ہے اس کے حوالے سے بھی کافی عمدہ پیش رفت ہوئی ہے اور انشاء اللہ جلد ہی پوری قوم یہ خوشخبری بھی سن لے گی۔ تاہم اس میں دو خاص باتوں کا اضافہ بہت اہم ہے۔
ایک بات تو ”اردو کوذریعہئ تعلیم و تدریس بنانا“ اور دوسری بات تمام مقابلہ جات کے امتحانات مثلاً سی ایس ایس، بی سی ایس وغیرہ کا انعقاد بھی اپنی قومی زبان اردومیں ہونا چاہیے چونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ اپنی زبان میں لکھنا، پڑھنا اور سوچنا شروع نہ کر دے۔ کیونکہ ہر نئی سوچ ہی صحیح تحقیق کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔
اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر ایک نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان تمام قوموں نے اپنی قومی زبان کو ہی ذریعہئ تعلیم و تدریس بنایا۔ اگر ہم اپنی زبان میں سوچنا شروع نہیں کریں گے تو نئی تحقیق کرنا تو محال ہم اپنے پہلے والے حال سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ گویا:
”کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا“!!
کے مصداق ہو گا۔ ماہرینِ تعلیم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تعلیم و تدریس کو اپنی قومی زبان میں ہی ہونا چاہیے اور اس کی ترویج کرنی چاہیے۔ جیساکہ چین اور جاپان کی روشن مثال ہمارے سامنے ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں یہ ممالک پورا تعلیمی سیٹ اپ اپنی زبان میں منتقل کر کے آج دنیا بھر میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ انگریزی زبان کی سامراجیت سے جان چھڑا کر بھی ترقی کی جا سکتی ہے۔ یہ سب کچھ قومی زبان میں ہی ممکن ہو سکتا ہے اور اسی کو سوچ و بچار کا محور و مرکز بنانا چاہیے۔
دینی لحاظ سے اردو کی اہمیت
یاد رہے! اردو زبان دینی اعتبار سے بھی بہت اہم ہے۔ پاکستان میں دینی علوم کے فروغ اور علوم اسلامیہ کی اشاعت کیلئے قومی زبان کا نفاذ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن حکیم کے اردو تراجم کی تعداد 100سے زیادہ ہے اور اسی طرح قرآن حکیم کی اردو تفاسیر کی تعداد لگ بھگ ڈیڑھ سو کے قریب ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام میں ”اردو“ کی مقبولیت کا کیا عالم ہے؟
اس وقت صدر پاکستان، وزیر اعظم، وزراء اور معتمدین (سیکریٹریز) کے دفاتر میں اردو زبان میں نوٹ لکھنا اور اس پر احکام جاری کر نا شروع ہو چکا ہے۔ تاہم سینٹ کی کارروائی، انگریزی میں ہی چل رہی ہے۔ امید ہے کہ آئندہ سالوں میں حوصلہ افزا پیش رفت کی جائے گی۔
اردو کے نفاذ میں قوم کا کردار
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہم نے اردو کو پاکستان میں اس کا آئینی حق دینا ہے۔ اردو کے نفاذ کا کام کسی مسلکی، قومی عصبیت کا کام نہیں اور نہ ہی ایک زبان کو ہٹا کر دوسری زبان نافذ کرنے کا کام ہے بلکہ یہ دینی، قومی، ملکی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی کام ہے۔
آئیے عہد کریں کہ ہم بطور قومی زبان، عدالت ِعظمیٰ کے فیصلہ کی روح کے مطابق، من و عن عمل کرنے کی سعی و کوشش کریں کیونکہ ”اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے“۔