ارویٰ عمران،جامعہ نظامیہ للبنات ،کراچی 

بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا

قومی زبان کسی بھی ملک کی ترقی و کامیابی کا اساس ہوتی ہے، آج مختلف ممالک امریکہ، جرمنی، یورپ اور چین جیسے ممالک اسی لئے ترقی یافتہ شمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی قومی زبان سے محبت و عقیدت ہے، وہ کسی بھی قسم کے معاملات طے کرنے میں چاہے وہ ملکی ہوں غیر ملکی اپنی زبان کو فوقیت دیتے ہیں اور اسی پر فخر محسوس کرتے ہیں،

چینی صدر کے سامنے جب انگریزی زبان میں سپاس نامہ پیش کیا گیا تو انہوں نے اپنی قومی زبان سے محبت اظہار کرتے ہوئے کہا ”چین ابھی گونگا نہیں ہوا“ اس کے بر عکس ہم ذہنی غلامی کی عکاسی کرتے ہوئے اردو کو پاکستان کی قومی زبان ہوتے ہوئے بھی انگریزی سے کم تر سمجھتے ہیں اور خالص اردو بولنے والے کو حقیرانہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل پاکستان کا بچہ بچہ انگریزی سیکھنے پر تو کوشاں ہے مگر اردو کی اہمیت سے واقف نہیں۔

بقول انور مسعود:
ہر شخص کو زبان فرنگی کے باٹ سے
جو شخص بولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
افسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئی
اردو جو بولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اردو زبان پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے، اردو کو ایک مقام بخشنے میں ہمارے اردو شعراء، ادباء کا بہت بڑاہاتھ ہے، مگر افسوس فی زمانہ ادباء کی ایک کثیر تعداد اردو میں انگریزی کا استعمال کرنا تحریر کی خوبصورتی سمجھتی ہے جو خود اردو ادب کی بہت بڑی بے ادبی ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا:”پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی“، پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے بچوں میں انگریزی کا رواج بر ہوتری پا رہا ہے؟


یہ بھی پڑھیں


اس نسل میں اردو کی اہمیت کو کم کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ والدین کا ہے، جو بچوں کو اردو کی خوبصورتی سے تو باور کرواتے ہیں مگر انگریزی میں کلام کرنا فخر کا باعث سمجھتے ہیں، عوام اس بات سے نا واقف ہے کہ اردو زبان پوری دنیا میں بولی جانے والی زبان ہے، عرب ریاستوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ، امریکہ، کینڈا، جرمنی اور آسٹریلیا میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

ہم بھول بیٹھے ہیں کہ اردو زبان کی خاطر سر سید، شبلی،حالی، ذپٹی نذیر احمد، میر تقی میر جیسے عظیم شعراء نے لازوال ادب پیش کیا ہے

بقول داغ دہلوی:
اردو ہے وہ زبان جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستان میں دھوم ہماری زباں کی ہے

چند تجاویز ہیں جن پر عمل کر کے ہم وطن عزیز میں اردو کا نفاذ بحال کر سکتے ہیں۔

۱) تمام نصابی کتب اردو زبان میں ہونی چاہیئے۔

۲) دفاتر میں اردو کو دفتری زبان کا درجہ دیا جائے۔

۳) عدالتوں کے فیصلے بھی اردو میں کئے جائیں۔

۴) اردو کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو۔

۵) انگریزی نظام تعلیم پر پابندی لگائی جائے۔

اردو بہتے دریا میں ایک ایسا ہیرا ہے جس کو مل جائے اسے معاشرے اور زمانے میں چمکادے،، انگریز کی ذہنی غلامی نے قوم کے دل سے اردو کو نکال کر انگریزی رسم و رواج قائم کردیا ہے جس سے کلرک تو پیدا ہو سکتے ہیں مگر راہ نما نہیں۔

قوم کو ضرورت ہے کہ کچھ ہوش کے ناخن لے، اردو کی افادیت سے بچوں اور بڑوں کو واقف کروائے، اسکی اہمیت گھر گھر میں جتائے وگرنہ پاکستان کے زوال کا اندیشہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے