اسٹاف رپورٹ
خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے ، اگرچہ یہ حکومت پاکستان تحریک انصاف کے نو منتخب اراکین نے اپنی پارٹی کے بغیر بنائی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبے میں کئی رکاوٹوں کے باوجود فی الوقت پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت ہے
صوبائی حکومت کے قیام کیساتھ ہی کابینہ کی تشکیل کا عمل جاری ہے جس میں کئی اہم عہدوں کیلیے ناموں کا اعلان کردیا گیا ہے اور کئی نام ابھی زیر تجویز ہیں ۔ ہزارہ ڈویژن کے انتظامی مرکز یعنی ایبٹ آباد میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کاکردگی متاثر کن رہی ۔جہاں دو قومی اور چار صوبائی حلقوں پر ان امیدواروں نے اپنی حریف جماعت یعنی مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو چاروں شانے چت کر دیا
یہ بھی پڑھیں
- 1880 سے 1901 کے درمیان ہریپورشہر کے مختلف محلہ جات کیلئے انگریز سرکار کی جانب سے بنایاجانے والے نظام آب کی نشانیاں آج بھی مختلف مقامات پر دیکھی جاسکتی ہیں
- پی کے 70:سرمایہ دارانہ سیاست سے مقابلہ کیلئے پر عزم آزاد امیدوار نبیل افریدی
- ایبٹ آباد:ولادت عیسی ابن مریم کی خوشی میں مسیحیوں کیلیے مسجد میں تقریب
- اگرچہ ضلع ایبٹ آباد کے انتخابی معرکے میں پی ٹی آئی کے کئی دیرینہ اور شناسا چہرے موجود تھے تاہم ان میں رجب علی عباسی کئی لحاظ سے ایک نیا چہرہ اور نام تھا اور اس سے بڑھ کر جہاں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں وہیں انہیں پی ٹی آئی پی کے حمایت یافتہ امیدوار اور معروف سیاستدان بیرسٹر جاوید عباسی کا بھی سامنا تھا جنہیں انہوں نے باآسانی شکست دی
- اس وقت جبکہ حکومت سازی کا عمل جاری ہے پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں کے مطابق نئی حکومت میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے رجب علی عباسی کو بھی اہم ذمہ داریاں تفویض کیے جانے پر غور ہو رہا ہے

- واضح رہے کہ ایبٹ آباد کی دونوں قومی حلقوں پر شہر کے معروف سیاسی خاندانوں یعنی سابق وفاقی وزیر امان اللہ خان کے فرزند علی خان جدون جبکہ این اے 16 پر علی اصغر خان سابق ایئر مارشل اصغر خان کے بیٹے ہیں ۔اسی طرح پی کے 42 پر پی ٹی آئی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی نذیر احمد عباسی ، پی کے 44 پر افتخار خان جدون ،پی کے 45 پر سابق سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمد غنی کامیاب ہوئے ۔اور یہ تمام لوگ ماضی کے سیاسی منظر نامے میں موجود و متحرک رہے ہیں البتہ پی کے 43 پر کامیاب ہونے والے رجب علی عباسی قدرے اجنبی چہرہ تھے ۔
- پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق اپنی پارٹی سے دیرینہ رفاقت اور وفاداری کی بنا پر انہیں ضلع کے دونوں اراکین قومی اسمبلی کے بھی خاصا قریب تصور کیا جاتا ہے اور کابینہ میں شمولیت کے حوالے سے بھی ان کی رضامندی شامل دکھائی دے رہی ہے جن کی اپنی پارٹی کیلیے انتھک محنت نے مسلم لیگ ن کے گڑھ تصور کیے جانے والے ضلع ایبٹ آباد سے پارٹی کو عبرتناک شکست سے دو چار کرنے میں مدد دی
- پی ٹی آئی حلقوں کے مطابق سابق سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمد غنی پارٹی پر کڑے وقت کے دوران اپنے مشکوک کردار اور مجہول حکمت عملی کے باعث سینئر قیادت کے نزدیک ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا نام وزارت اعلی اور اسپیکر اسمبلی کیلیے پہلے مرحلے میں مسترد کردیا گیا تھا جبکہ اگلے مرحلے میں بھی وہ کہیں اپنی جگہ بناتے دکھائی نہیں دے رہے