سید عتیق الرحمن ۔ایبٹ آباد
آج سے ٹھیک 20 سال پہلے 21 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ایک سو دس منزلہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو ٹاورز کے ساتھ دو طیارے ٹکرائے ۔ ایک طیارہ واشنگٹن کے قریب جارجیا میں پینٹا گون کی عمارت پر گرا جب کہ ایک اور طیارے کو وائیٹ ہائوس کی طرف جاتے ہوئے پنسلوینیا میں مار کر گرا دیا گیا ۔
پہلا طیارہ جو امریکی وقت کے مطابق صبح 8 بج کر 46 منٹ پر (پاکستانی وقت شام 5 بج کر 46 منٹ پر ) ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرایا اس نے ٹھیک آٹھ بجے بوسٹن کے لاگن انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے لاس اینجلس کے لیئے اڑان بھری ۔ یہ امریکن ائیر لائن کی فلائیٹ نمبر 11 تھی جس پر 81 مسافروں کے علاوہ عملے کے 11 ارکان یعنی کل 91 افراد سوار تھے جسے پانچ ہائی جیکرز نے اڑان بھرنے کے بیس منٹ بعد ہی اغواء کر لیا ۔
پہلے طیارے کے اڑنے سے پندرہ منٹ بعد یعنی سوا آٹھ بجے فلائیٹ نمبر 175 نے بھی بوسٹن سے لاس اینجلس کے لیئے اڑان بھری۔ اس میں 56 مسافروں اور عملے کے سات ارکان سمیت کل 63 افراد سوار تھے ۔ اسے بھی پانچ ہائی جیکرز نے اغواء کیا۔
8 بج کر 20 منٹ پر میسا چوسٹس کے ڈیلس ائیرپورٹ سے امریکن ائیرلائین کی تیسری پرواز نمبر 77 نے لاس اینجلیس کے لیئے اڑان بھری جس میں عملے کے چھ ارکان اور 58 مسافروں سمیت کل 64 افراد سوار تھے ۔ اس میں بھی پانچ ہائی جیکرز تھے ۔ جنہوں نے طیارہ ہائی جیک کر لیا۔
8 بج کر 42 منٹ پر یعنی ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے پہلا طیارہ ٹکرانے سے چار منٹ پہلے امریکن ائیرلائن کی فلائیٹ نمبر 93 نے نیوجرسی سے سان فرانسسکو کے لیئے اڑان بھری اس طیارے میں مسافروں کی تعداد 37 تھی جن میں چار ہائی جیکر بھی شامل تھے ۔ جب کہ عملے کے 7 ارکان سمیت کل 44 افراد طیارے پر سوار تھے ۔
یہ بھی پڑھیں
- فتح پنجشیر کےبعدمستحکم ، پرامن افغانستان کی امیداور مستقبل کا لائحہ عمل
- امریکہ نائن الیون سے پہلے طالبان حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا ،رپورٹ
کل چار اغواء ہونے والے طیاروں میں سے دو بوئنگ 767 اور دو بوئنگ 757 تھے ۔ جن میں کل سواروں کی تعداد 262 تھی جن میں 4 پائلٹوں سمیت کل 19ہائی جیکرز تھے ۔ ان ہائی جیکروں میں سے پندرہ کا تعلق سعودی عرب سے تھا ۔ دو ہائی جیکرز متحدہ عرب امارات کے تھے جب کہ ایک ہائی جیکر مصر سے اور ایک کا تعلق لبنان سے تھا۔
چوتھا طیارہ اڑنے کے ٹھیک چار منٹ بعد 8 بج کر 46 منٹ پر پہلا طیارہ فلائیٹ نمبر 11 ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے شمالی ٹاور کی 93ویں سے 99 ویں منزلوں سے ٹکرایا سترہ منٹ بعد 9 بج کر 3 منٹ پر دوسرا طیارہ فلائیٹ نمبر 175 ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جنوبی ٹاور کی 77 ویں اور 85ویں منزلوں کے ساتھ ٹکرایا ۔

طیارے طویل پرواز پر تھے اس لیئے ان میں ایندھن کافی مقدار میں موجود تھا ۔ طیاروں کے ٹکرانے سے ایندھن نے آگ پکڑ لی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری عمارت میں فیول پھیل گیا جس نے آگ لگا دی ۔ اگلے ڈیڑھ گھنٹوں میں آگ کی وجہ سے جنوبی ٹاور 9 بج کر 59 منٹ پر اور شمالی ٹاور 10 بج کر اٹھائیس منٹ پر زمین بوس ہو گئے ۔ دونوں ٹاورز کے گرنے سے نیویارک میں کل ہلاکتوں کی تعداد 2763 تھی ۔
تیسرا طیارہ یونائیٹڈ ائیر لائین کا بوئینگ 757ء تھا جو امریکی وقت کے مطابق صبح 9 بج کر 37 منٹ پر پینٹا گون سے ٹکرایا جہاں 189 افراد کی ہلاکت ہوئی ۔یونائیٹڈ ائیرلائن کا بوئنگ 757 فلائیٹ نمبر 93 جو نیوجرسی سے سان فرانسسکو جا رہا تھا جب اسے ہائی جیک کیا گیا تو مسافروں نے مزاحمت کی ۔
اس طیارے میں چار ہائی جیکرز تھے وہ طیارے کو واشنگٹن میں کیپیٹل ہل کی طرف لے کر جانا چاہتے تھے مگر وہ راستے میں پینسلوینیا میں 10 بج کر تین منٹ پر گر کر تباہ ہو گیا ۔ اگر یہ چوتھا طیارہ تباہ نہ ہوتا تو بیس منٹ بعد یہ وائیٹ ہائوس تک پہنچ سکتا تھا
ان حملوں میں کل مرنے والوں کی تعداد 2996 تھی ۔۔8 بجکر 46 منٹ سے لیکر 10 بج کر 3 منٹ تک چاروں طیارے تباہ ہو چکے تھے ۔
القاعدہ مورد الزام ٹھہری اور افغانستان کو اس کی سزا ملی
امریکہ نے ان حملوں کا الزام القاعدہ پر عائد کیا۔ اس وقت القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن افغانستان میں تھے ۔ امریکہ نے انہیں اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ۔ افغانستان پر طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کی حکومت تھی ۔ طالبان حکومت نے اسامہ کو حوالے کرنے سے انکار کیا اور امریکہ سے ان کے ملوث ہونے کے ثبوت مانگے ۔ ساتھ کہا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف ہم خود کارروائی کریں گے ۔ مگر امریکی صدر نے ان حملوں کے ستائیس دن بعد 7 اکتوبر 2001 ء کو افغانستان پر حملہ کر دیا ۔ اور اب اس جنگ کو دہشتگردی کے خلاف جنگ قرار دے کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔
یہ بھی پڑھیں
جب امریکہ نے کارپٹ بمباری کے بعد اپنی فوج افغانستان میں اتاری تو یہاں نہ طالبان تھے نہ ان کا کوئی نشان ۔
امریکہ نے افغانستان میں طالبان مخالف شمالی اتحاد اور نیٹو سمیت چالیس ممالک کو اس جنگ میں ساتھ رکھا ۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد حامد کارزئی کی قیادت میں نئی عبوری حکومت 17 دسمبر 2001ء کو جرمنی میں ہونے والے بون معاہدے کے تحت قائم ہوئی۔ جس نے چھ ماہ بعد جون 2002ء میں دو سال کا وقت حاصل کیا اور فو سال بعد یعنی 2004ء میں انتخابات کا انعقاد کیا اور حامد کرزئی افغانستان کے 2009ء تک کے لیئے صدر بن گئے۔
اس تمام عرصے میں طالبان نے زیر زمین رہ کر گوریلا جنگ شروع کر دی ۔ جو اگلے بیس سال تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی ۔
طالبان راہنما کچھ پکڑے گئے کچھ زیر زمین چلے گئے اور اگلے کئی سالوں تک مسلسل مزاحمت کرتے رہے ۔
امریکہ کے مطابق نائن الیون حملوں کے منصوے کا خالق شیخ خالد محمد تھا جسے 2003ء میں راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا ۔ اس سے قبل رمزی الشیبہ نامی ایک یمنی کو 2002 میں کراچی سے گرفتار کیا گیا۔ اس پر ہائی جیکروں کو تربیت دینے کا الزام ہے ۔
یہ بھی پڑھیں
- مقبوضہ کشمیر میں نئی حریت قیادت کے انتخاب سے بھارت پریشان کیوںہے ؟
- جدوجہد آزادی کشمیر کا بطل جلیل تاریخ میں امر ہوگیا
شیخ خالد کا بھتیجا عمار البلوچی بھی 2003ء میں کراچی سے گرفتار ہوا ۔ مصطفیٰ الحواسائی نامی یمنی بھی راولپنڈی سے 2003ء میں گرفتار ہوا اور ولید بن اعطش نامی یمنی بھی کراچی سے گرفتار ہوا یہ پانچوں افراد ان حملوں کے الزام میں امریکہ نے گرفتار کیئے جن کے خلاف مقدمہ ابھی سست روی سے چل رہا ہے تاحال یہ لوگ امریکہ کی قید میں ہیں ۔
جب کہ طالبان کے اکثر لوگ یا تو امریکہ نے واپس بھیج دیئے یا طالبان نے امریکی فوجیوں کو اغواء کر کے بعد میں اپنے کچھ لوگوں کو چھڑا لیا ۔ دو مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں ایک فوجی آپریشن میں امریکہ نے اسامہ بن لادن کو قتل کر دیا۔ جسے امریکہ نے اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا۔
طالبان کی اقتدار سے بے دخلی اور بزور طاقت واپسی
اب امریکہ نے اس جنگ کو اختتام کی طرف لے کر جانا تھا ۔ 2013ء میں قطر نے طالبان کو دوحہ میں سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دے دی ۔ اور طالبان قیادت وہاں جمع ہونا شروع ہوئی۔ 2014ء میں طالبان نے ایک امریکی فوجی کو اغواء کر کے امریکہ کی قید سے اپنے پانچ راہنمائوں کو رہا کروا کے دوحہ منتقل کر دیا ۔
2015ء میں امریکہ نے افغان نژاد زلمے خلیل ذاد کے ذریعے طالبان مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ۔ 2018 میں ملا عبدالغنی برادر کو پاکستان نے آٹھ سال تک قید رکھنے کے بعد رہا کر دیا اور وہ بھی دوحہ منتقل ہوئے۔ فروری 2020 میں ملا عبدالغنی برادر اور زلمے خلیل زاد کے مابین مذاکرات کامیاب ہو گئے ۔

اور یوں طالبان کا امریکہ کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ۔ جس کے تحت نائن الیون حملوں کی بیسویں برسی سے پہلے امریکہ اور اس کے تمام اتحادی افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لیں گے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حتمی تاریخ مئی 2021 مقرر کی تھی مگر جو بائیڈن نے اسے 31 اگست 2021ء کو انخلاء کی حتمی تاریخ مقرر کی اور یوں بیس سال بعد اس جنگ کے اختتام پر افغانستان میں پھر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے
۔ افغانستان کے کل چونتیس صوبوں میں سے قندھار، ہرات ، بدخشاں، بلخ ، شبرغان، ہلمند ۔پکتیا ، پکتیکا ، خوست ، زابل ، اوزگان ، نیمروز ، غزنی ، بامیان اور کابل سمیت تینتیس صوبائی دارالحکومتوں پر طالبان نے چھ اگست سے پندرہ اگست تک کے نو دنوں میں قبصہ کرہا جب کہ چھ ستمبر کو چونتیسواں صوبہ پنجشیر بھی فتح کر کے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا ۔ طالبان کی نئی حکومت کے سربراہ ملا محمد احسن اخوند نائن الیون سے پہلے افغانستان کے نائب وزیراعظم رہ چکے ہیں ۔
بیس سالہ وار آن ٹیرر کی قیمت
امریکہ کی برائون یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے دہشتگردی کے خلاف بیس سالہ جنگ پر کل خرچہ 8 ٹریلین ڈالر آیا جب کہ مجموعی طور پر تقریباً نو لاکھ انسان ہلاک ہوئے ۔
کاسٹ آف وار پروجیکٹ کے مطابق ان بیس سالوں کے دوران 80 ممالک کسی نہ کسی طرح اس جنگ میں شریک رہے ۔ اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کے تین ہزار فوجی ہلاک ہوئے باقی ان کے خلاف لڑنے والے ، سویلین ، صحافی اور دیگر لوگ تھے ۔
یکم ستمبر 2021ء کو برائون یونیورسٹی نے کاسٹ آف وار پروجیکٹ کی طرف سے جو اعداد و شمار جاری کییے گئے ان میں نائن الیون حملوں سے لیکر اب تک جاری رہنے والی جنگ میں اموات کی کل تعداد 8 لاکھ 97 ہزار سے لیکر 9 لاکھ 29 ہزار کے درمیان ہے ۔
کون جیتا کون ہارا؟
جنگ کے اختتام کے بعد طالبان کا دوبارہ افغانستان پر قبضہ کر لینا اس خیال کو تقویت دیتا ہے کہ طالبان یہ جنگ جیت چکے ہیں لیکن یہ بات حقیقت نہیں امریکہ طالبان کو دوبارہ قبضے سے روک نہیں سکا مگر امریکہ نے اپنے وہ تمام اہداف حاصل کیئے جن کے لیئے اس نے یہ جنگ شروع کی تھی ۔
امریکہ کا سب سے پہلا مقصد اسامہ بن لادن اور نائن الیون کے ملزمان کو ختم کرنا تھا یہ مقصد امریکہ نے 2011 ء تک حاصل کر لیا ۔ طالبان کی حکومت کا خاتمہ کرنے میں بھی امریکہ کامیاب ہوا ۔ بارہا امریکی صدور نے دنیا کو یہ نوید سنائی کہ ہم نے دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ اس لیئے یہ کہنا کہ طالبان کی جیت ہوئی محض امریکی انخلاء کو امریکہ کی ناکامی قرار دینے جیسا ہے ۔

ایک لمحے کو رک کر سوچیں کہ امریکہ یہاں رہتا ہی کیوں؟ اس نے آج نہیں تو کل جانا تھا ۔ کیوں کہ اس کے اہداف مکمل ہو چکے تھے اس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں کہ امریکہ یہاں آیا ، اس نے جو چاہا کیا ، آخر نو لاکھ انسانی جانوں کے اتلاف کے بعد اس نے واپسی کی ٹھانی اور اپنا بوریا بستر لپیٹ کر واپس ہو گیا ۔ واپس جاتے جاتے بھی حملے کر کے شہریوں کو مارا گیا ۔
آج گیارہ ستمبر کے ان حملوں کی بیسویں برسی پر طالبان اپنے دوسرے دور کا آغاز کر چکے ہیں اور دنیا میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ امریکہ یہ جنگ ہار کرگیا۔حالانکہ امریکہ جس بدمعاشی سے یہاں آیا اسی بدمعاشی کے ساتھ یہاں سے نکلا ۔
نائن الیون کا واقعہ جس کا مقبوضہ کشمیر پر منفی اثرہوا
مگر اس کا انخلاء ایسے حالات میں ہوا کہ دنیا اسے امریکہ کی شکست سمجھنے لگی ہے ۔ امریکہ کے اتحادیوں کی طرف سے اب تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ لیکن یہ حقیقت بھلائی نہیں جا سکتی کہ نائن الیون کے بعد کی دنیا پہلے والی دنیا سے بہت مختلف بن گئی ۔ نائن الیون سے پہلے کے جہادی فسادی بن گئے ۔ اس کا منفی اثر کشمیر سمیت دنیا بھر میں جاری تحاریک آزادی پر پڑا ۔ جس سے ان تحاریک کی رفتار تھم کر رہ گئی ۔
لیکن ہم یہ بھی ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ امریکا کامیاب ہوا ۔ کیوں کہ امریکہ کی کامیابی کے لیئے ضروری تھا کہ افغانستان میں غنی حکومت قائم رہتی ۔ غنی حکومت کا خاتمہ اور طالبان حکومت کے قیام کو اس پوری جنگ میں امریکہ کی شکست سے تعبیر کرنا درست نہیں ۔
البتہ امریکہ نے افغانستان کے لیئے جو ساڑھے تین لاکھ فوج تیار کی تھی اس کا یوں راتوں رات سرنڈر کر جانا نہ صرف دنیا کے لیئے بلکہ خود طالبان کے لیئے بھی غیر متوقع تھا ۔