9 روز میں 11 ارب کا نقصان،تجارت کی بندش مسائل کا حل نہیں:شاہد شینواری

3
0
Share:

انٹرویو :سدھیر احمد آفریدی

عکاسی : جبران شینواری


بارڈر بندش سے 11 ارب روپے کا نقصان ہو چکا، تجارت کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے،شاہد شینواری
پی ٹی آئی کے سینئر رہنماء اور معروف کاروباری شخصیت شاہد خان شینواری نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا طورخم بارڈر بندش سے کاروباری لوگوں کو یومیہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے ٹرانزٹ ٹریڈ اور ایکسپورٹ کی ہزاروں گاڑیاں درہ خیبر پر گزشتہ 9 دنوں سے کھڑی ہیں، ٹرانسپورٹرز کو کرایوں کی مد لاکھوں روپے الگ ادا کرنا پڑیں گے اور اسی طرح افغانستان میں بھی سبزیوں اور پھلوں سمیت دیگر اشیاء کی سینکڑوں گاڑیاں کھڑی ہیں

شاہد خان شینواری نے پاک افغان حکومتوں پر زور دیا کہ آپس کے اختلافات اور غلط فہمیوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کریں

یہ بھی پڑھیں

شاہد شینواری کا کہنا تھا پہلے طورخم بارڈر پر اگر کوئی واقعہ پیش آتا تو مل بیٹھ کر یا فلیگ میٹنگ اور مذاکرات کے ذریعے حل نکالا جاتا اور کاروباری لوگ بھی کبھی کبھار مذاکرات میں بیٹھا کرتے تھے تاہم اس بار مسئلہ طول پکڑ چکا ہے اس لئے اسلام آباد اور کابل میں بیٹھے بڑے اس مسئلہ کا فوری حل نکال سکتے ہیں

اس وقت نہ صرف افغانستان بلکہ خود پاکستان کیلیے بھی کاروباری اور سیاسی حالات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے (انٹرویؤ ،سدھیر احمد آفریدی عکاسی : جبران شنواری )

شاہد شینواری نے کہا کہ پاکستان کی 80 فیصد ایکسپورٹ طورخم کے راستے ہوتی ہے اور ہمارے لئے بڑی اور قریبی مارکیٹ افغانستان ہے جہاں سے آگے وسط ایشیا تک ہم کاروباری تعلقات استوار کر سکتے ہیں

اسی طرح افغانستان کی سبزیوں اور پھلوں وغیرہ کے لئے قریب ترین اور بہترین مارکیٹ پاکستان ہے یعنی دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر کئی حوالوں سے دارومدار ہے اور دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے حالات سے متاثر بھی ہوتے ہیں

انہوں نے کہا کہ اس وقت دونوں پڑوسی ممالک کی معیشت کچھ بہتر نہیں دونوں طرف تاجر اور کاروباری لوگ متاثر ہونگے اور اس طرح کے واقعات سے دونوں اطراف مہنگائی، غربت اور بےروزگاری میں اضافہ ہو گا جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہوگی اور احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا حالانکہ اس وقت نہ صرف افغانستان بلکہ خود پاکستان کیلیے بھی کاروباری اور سیاسی حالات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے

شاہد شینواری کے بقول ہر ملک کی اپنی پالیسی اور ترجیحات ہوتی ہیں لیکن مشکل ترین حالات میں بھی بارڈرز کی بندش اور تجارت کو معطل کرنے کا رسک کوئی بھی ملک مول نہیں لے سکتا اور نہ تجارت روکی جاتی ہے

اس لیے ضروری ہے دونوں ممالک کی قیادت مل بیٹھ کر مسائل کا پائیدار حل نکالے یہی دونوں ممالک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے اور عوام کی غربت و پسماندگی کو دور کرنے کا واحد راستہ ہے۔ہمیں چاہیے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی پالیسیوں کا مطالعہ کریں کہ کس طرح وہ بدترین اختلافات کے باوجود تجارت کو جاری رکھتے ہیں جبکہ پاکستان اور افغانستان تو برادر اسلامی ملک ہیں جنہیں نئے چیلنجز سے نمٹنے اور اپنی اقتصادی حالت بہتر بنانے کیلیے ایک دوسرے کیساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہیے

Share: