سید عتیق ،احمدکمال


افغانستان کے طول و عرض پر گذشتہ بیس سال سےامریکی و اتحادی افواج کو تگنی کا ناچ نچانے والے طالبان اس وقت افغانستان کی واحد اور فیصلہ کن قوت بن کر سامنے آرہے ہیں ۔اگرچہ 2019 میں امریکہ اور طالبان کے مابین انخلاء کے معاہدے کے بعد ہر گزرتے دن کیساتھ طالبان کی پیش قدمی کا سلسلہ تیز تر ہوتا گیا

لیکن اس سے قبل طالبان کی مسلح کاروائیوں کا دائرہ کار زیادہ تر دیہی علاقوں تک محدود تھا جن کی جارحیت اور پیش قدمی میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتانظر آرہا ہے

اب تک طالبان کی حکمت عملی کیا رہی ہے ؟

اگرچہ اس سے قبل طالبان کا زیادہ تر دائرہ اثر دیہی علاقوں تک محدود رہا ،تاہم امریکی انخلاء کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد انہوں نے افغانستان کے اہم شہروں ،سرحدی راہداریوں اور تجارتی مراکز پر اپنی توجہ مرکوز کرلی ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کی طورخم پاکستان سرحد کے علاو ہ تمام تر راہداریاں طالبان کے زیرقبضہ ہیں

اس سے قبل طالبان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ چاہیں تو پورے ملک پر چند دنوں پر قبضہ کرسکتے ہیں
لیکن صوبائی دارلحکومتوں پر وہ انسانی جانوں کا ضیاع ممکنہ حد تک روکنے کیلئے قبضے سے گریزاں ہیں ۔تاہم گذشتہ ایک ہفتے کے دوران طالبان کے مسلح دستوں نے اگلے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے صوبائی دارلحکومتوں پر قبضے کا سلسلہ شروع کردیا ہے


یہ بھی پڑھیں 

اور6 اگست سے اب تک نیمروز ،جوزجان ،سرپل ،قندوز ،تخار ،سمنگان ،فیض آباد۔فراہ اور بغلان کے صوبائی مراکز کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے ۔اس طرح ایک ہفتے کے دوران نو صوبائی دارلحکومت طالبان کے زیراثر جا چکے ہیں

ان میں سے بعض شہر بغیر لڑائی کے طالبان کے حوالے کئے گئے ۔ البتہ غزنی ،بدخشاں ،بلخ ،ہلمند ، اور قندھار کے مراکز پر قبضہ کیلئے شدید لڑائی کی اطلاعات ہیں

طالبان کا طریقہ کار

اس حوالے سے لوگر سے تعلق رکھنے والے ایک شہری عبدالمنان (اصلی نام نہیں ) کے مطابق طالبان کسی بھی شہر میں داخل ہونے سے قبل وہاں کی انتظامیہ کو مقامی عمائدین کے ذریعے سرنڈر کرنے پر قائل کرتے ہیں اگر انتظامیہ کے لوگ مان جائیں اور اپنے ہتھیار طالبان کے حوالے کردیں تو ان سے کوئی تعارض نہیں کیا جاتا بصورت دیگر انہیں بزور طاقت بے دخل کیا جاتا ہے جس میں انسانی جانوں کو ضیاع فطری امر ہے ۔بعض علاقے جو بغیر لڑائی حاصل ہوئے وہ زیادہ تر اسی حکمت عملی کے تحت طالبان کو ملے ہیں ۔

عام شہری خوف کا شکار ہیں

عبدالمنان کے مطابق افغانستان کے زیادہ ترعلاقے عملی طور پر اس وقت جنگ کا شکار ہیں ،لیکن سب سے زیادہ قابل رحم حالت عام شہریوں کی ہے جو دو طرفہ جنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔

اس سے قبل چونکہ طالبان دیہی علاقوں میں تھے اس لئے سرکاری فضائی طیاروں کی مددسے انہیں نشانہ بنانا کافی مشکل تھا ۔لیکن شہری علاقوں میں داخل ہونے کے بعد طالبان کو نشانہ بنانا بھی آسان ہوگیا ہے اور ان پر فضائی بمباری آئے روز کا معمول بن چکی ہے

لیکن اس میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان عام شہریوں کا ہورہا ہے جو سرکاری فضائی بمباری کیساتھ ساتھ طالبان کی گولہ باری کا نشانہ بن رہے ہیں ۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ عام شہری کیلئے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ وہ کس کی گولی کا نشانہ بنا ہے ؟

طالبان کی فہرست فتح میں بدخشاں تازہ اضافہ

دریں اثنا ء ترجمان افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد پر طالبان نے قبضہ کرلیا ہے۔ فیض آباد ایک ہفتے میں فتح ہونے والا 9 واں صوبائی دارالحکومت ہے۔ سوشل مڈتیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز مںن طالبان کو صوبائی دارالحکومت میں گشت کرتے ہوئےدیکھا جا سکتا ہے۔

 

افغانستان کے شمال مشرق میں واقع اس صوبے کی سٹریٹیجک اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ اس کے جنوب مشرق مںک پاکستان اور شمال مغرب مںں تاجکستان واقع ہے جبکہ واخان کے مقام پر پاکستان اور تاجکستان کے درمیان چند کلومیٹر کی پٹی ہی حائل ہے۔

پانچ اگست سے اب تک  چھ دنوں میں طالبان نے افغانستان کے 34 میں سے 9 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کیا ہے۔ گزشتہ روز طالبان نے کابل سے تقریباً 230 کلومیٹر دور صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔


یہ بھی پڑھیں 

بغلان پر قبضے کی سرکاری سطح پر تصدیق ہو چکی ہے ۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان اپنے قبضے مں آنے والے تمام شہروں کے مرکزی مقامات اور سرکاری عمارات پر اپنا پرچم لہرا چکے ہیں۔

پلخمری طالبان کے قبضے مں آنے والے اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔یہ شہر دارالحکومت کابل اور شمالی شہر قندوز کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ہے اور اسے وسطی ایشیاکا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ  کابل سے تاجکستان ، ازبکستان اور ترکمانستان جانے والے تمام راستے پل خمری سے ہو کر گزرتے ہیں ۔

پل خمری سے آگے ایک راستہ قندوز اور دوسرا بلخ کے دارلحکومت مزار شریف جاتا ہے ۔ یوں مزار شریف سمیت تمام شمالی افغانستان کا زمینی راستہ طالبان کے قبضے میں آ چکا ہے ۔ مزار شریف ، ہرات ، قندھار ، جلال آباد اور کابل وہ بڑے شہر ہیں جن پر اب تک طالبان قبصہ نہیں کر پائے۔

اس وقت افغانستان کے باقی تمام داخلی اور خارجی راستوں پر طالبان کا قبضہ ہے صرف تورخم واحد گزر گاہ ہے جو ابھی تک افغان حکومت کے قبضے میں ہے ۔ گزشتہ روز جنوبی افغانستان میں ایران سے متصل صوبے فراہ کا دارالحکومت فراہ بھی طالبان کے قبضے میں جا چکا ہے۔

فراہ کے مشرقی صوبے نم روز کے دارلحکومت زرنج پر چند روز قبل ہی طالبان کا قبضہ ہوا تھا ۔ اسی طرح جنوب مغربی صوبے میں ہرات پر تاحال قبضے کی جنگ جاری ہے ۔ ہرات کے گورنر اسماعیل خان نے ہتھارر ڈالنے سے انکار کر دیا تھا ۔ انہیں حکومتی فورسز کے ساتھ ساتھ امریکی بی باون بمبار طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے ۔

جنوب میں قندھار ، غزنی اور ہرات کے علاوہ شمال میں قندوز اور لشکر گاہ میں بھی شدید جھڑپوں کی اطلاعات ہیں ۔ ریڈ کراس کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران چار سو زخمیوں کو ہسپتالوں مں لایا گیا۔

زیادہ تر شہری بمباری کی وجہ سے زخمی ہوئے ۔ اس دوران افغان حکومت نے پانچ سو طالبان جنگجوئوں کو مار دینے کا دعویٰ کیا تھا مگر آزادانہ ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

فیض آباد اور پل خمری کے علاوہ طالبان  سرِ پل، زرنج، قندوز، تالقان اور شبر غان پر بھی قبضہ کر چکے ہیں جبکہ قندھار اور لشکر گاہ جیسے شہروں میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف کے بھی طالبان کے قبضے میں جانے کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہںر کیونکہ طالبان صوبہ بلخ کے چاروں اطراف میں اہم شہروں پر قابض ہو چکے ہیں۔

مزار شریف سے بھارتی شہریوں کا انخلاء

اس صورتحال کے پیش نظر بھارتی سفارتخانے نے اپنے شہریوں کو مزارشریف سے نکلنے کی ہدایت جاری کر دی ہیں ۔ بھارتی سفارت خانے کی طرف سے تمام بھارتی شہریوں کو آج شام تک مزار شریف چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ اور ایک خصوصی طافرہ انڈین شہریوں کو مزار شریف سے نکالنے کے لئےروانہ کیا گیا ہے ۔

جب کہ ترکی میں مقم عبدالرشید دوستم سے متعلق اطلاعات ہیں کہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ مزار شریف پہنچ آئے ہں ۔ ازبک جنگجو ملیشیا کے سربراہ کا اپنا شہر شبرغان جو صوبہ جوزجان کا دارلحکومت بھی ہے پہلے سے طالبان کے قبصے میں ہے ۔

دوسری طرف امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہر حال میں 31 اگست سے پہلے مکمل ہو جائے گا۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ملک کی حفاظت کی ذمہ داری افغان افواج ہی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے انخلاء کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ۔
ہم امریکیوں کی دوسری نسل کو جنگ میں نہیں جھونک سکتے