زر افشاں فرحین
رفاہ یونیورسٹی لاہور

قومی زبان ‘ابلاغ عامہ کا وہ ہتھیار ہے جو ہر زمانے میں اہمیت کی حامل رہی ہے گویا انسانی معاشرت میں جہاں اقدار روایات، لباس، ثقافت، رسوم ورواج کسی قوم کی شناخت ہوتی ہیں اسی طرح قومی زبان بھی اس معاشرے کی اعلی و ارفع فکر، عقائد اور نظریات کی آئینہ دار ہوتی ہے

اقوام عالم اسی لئے اپنی قومی زبان کے احساس تفاخر کے ساتھ ہر جگہ اپنی شناخت قائم کرنا پسند کرتی ہیں اسکا ثبوت عہد جدید و قدیم میں موجود ہے آج بھی ہزاروں سال پرانی ثقافت و معاشرت کے آثار قدیمہ اپنی زبان و ادب سے شناخت کئے جاتے ہیں اور عصر حاضر میں سپر پاورز کہلانے والی اقوام بھی اپنی قومی زبان کے اظہار و بیان سے ہی اپنے مفادات، نظریات کی ترویج و تحفیظ کرتی ہیں

پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی جہاں مذہب، ثقافت، اصول. معیشت و معاشرت دو قومی نظرئیے کے تحت ممیز کردئیے گئے تھے وہیں ہندوستان برصغیر پاک و ہند کی عظیم زبان اردو "بھی اپنا ممتاز مقام بناکر رائج و عمل قرار پائی

اردو زبان کی عظمت رفتہ کی بین دلیل تحریک آزادئ ہند میں اردو زبان بولنے والوں کا باہمی اشتراک، قلبی تعلق، معاونت و انسیت کے ساتھ یکجا ہونا اور اپنے نظرئے کی فتح حاصل کرنا بھی ہے۔ اسی لئے بعد از قیام پاکستان آئینی و قانونی طور پر بھی آج تک اردو "زبان کو ہی قومی زبان ہونے کا شرف حاصل ہے

بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کا اظہار بارہا برسر عام کیا کہ اردو” زبان ہی اس مملکت خداداد پاکستان کی آواز ہے  شناخت ہے  امتیاز ہے

قائداعظمؒ نے مختلف مواقع پر اردو زبان کی اہمیت، افادیت اور اس کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے ،جو ارشادات فرمائے اُن میں سے چند فرمودات بالترتیب ذیل میں درج ہیں

قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا پہلا بیان 1942ء ”پاکستان مسلم انڈیا“ دیباچے میں کچھ اس طرح سے تحریر کیا گیا ہے۔

”پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔“

قائد اعظمؒ نے 10 اپریل 1946ء کو اپنے آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس ،دہلی میں فرمایا :۔

”میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔

تیسرا بیان جسے سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جلسہ عام ڈھاکہ 21 مارچ 1948ء میں قائد اعظمؒ کا خطاب ہے جس میں انہوں نے فرمایا.

میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے۔ اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کی زندگی پر کوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے۔ اس صوبے کے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی۔ لیکن یہ میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو ، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔“

یہ بیان 24 مارچ 1948ء کا ہے اسے بھی سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جس میں قائد اعظم ؒ نے فرمایا:۔

”اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ان کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔“

قائداعظم محمد علی جناح 15اگست 1947ء سے لے کر گیارہ ستمبر 1948ء تک پاکستان کے گورنر جنرل رہے۔ اس دوران ان کے جس اعلان کو زیادہ تر نزاع اور اختلاف کا نشانہ بنایا گیا وہ تھا ان کا 24مارچ 1948ء کا ڈھاکہ یونیورسٹی میں کانووکیشن سے خطاب میں قائداعظم نے واضح طور پر کہا کہ آپ صوبے میں سرکاری زبان کے طور پر جس زبان کا چاہیں انتخاب کریں لیکن جہاں تک صوبوں کے درمیان خط و کتابت کا تعلق ہے وہ اردو میں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں

اردو واحد زبان ہے جو پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، اردو مسلمانوں کا صدیوں پرانا ورثہ ہے اسی لئے اردو کو ہندوستان سے دیس نکالا دے دیا گیا ہے۔ اردو دوسرے اسلامی ممالک کی زبانوں کے قریب تر ہے۔ اس لئے پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہوسکتی ہے۔ صوبے میں آپ جس زبان کو چاہیں سرکاری زبان بنائیں۔ (بحوالہ قائداعظم کی تقاریر۔ خورشید یوسفی صفحہ 2725)

زبان کے مسئلے کا پس منظر سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس22فروری1948ء کو ہوا جس کی صدارت قائداعظم نے کی۔23فروری کو دستور ساز اسمبلی کے اراکین نے حلف اٹھایا اور اسی روز فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) کے قیام کا اعلان ہوا۔ 25فروری 1948ء کو دستور ساز اسمبلی نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا کہ صرف اردو ہی مغربی اور مشرقی پاکستان کو متحدرکھ سکتی ہے۔ دو تین بنگالی اراکین کے علاوہ دستور ساز اسمبلی کے دوسرے بنگالی اراکین نے اردو کے حق میں تقریریں بھی کیں اور ووٹ بھی دیے۔

دستور ساز اسمبلی کے اس فیصلے کے خلاف مشرقی پاکستان خاص طور پر ڈھاکہ میں ردعمل ہوا۔ طلبہ نے سڑکوں پر احتجاج کیا اور بنگالی کو اردو کے ساتھ ساتھ قومی زبان بنانے کا مطالبہ کیا۔ شواہد موجود ہیں کہ ان ہنگاموں میں ہندوستان کا ہاتھ پس پردہ اپنا کردار سرانجام دے رہا تھا جسے قائداعظم نے اپنی تقاریر میں بے نقاب کیا۔ انہوں نے طلبہ اور مشرقی پاکستان کے عوام کو نہ صرف دشمن ہمسائے کے عزائم سے آگاہ کیا بلکہ صوبائیت کے زہر سے بچنے کی بھی تلقین کی

وہ خلوص نیت سے سمجھتے تھے کہ صوبے اپنی حدود میں جو زبان چاہیں اختیار کریں لیکن صوبوں اور وفاق میں رشتہ اردو سے ہی قائم ہوگا ورنہ کل کلاں اگر دوسرے صوبوں نے بھی اپنی اپنی زبانیں اختیار کرلیں تو اس سے قومی سطح پر انتشار پھیلے گا اور مسائل میں گھرا ہوا نوزائیدہ ملک کمزور ہوگا۔ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا، مطالبات، قوانین اور فیصلے وقت کے تقاضوں کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ جو لوگ زبان کے مسئلے کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگی اراکین نے 19اپریل 1954ء کو اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو قومی زبان بنانے کی قرارداد پاس کرلی تھی اور پھر اگلے سال بنگلہ کو اردو کے ساتھ قومی زبان قرار دے دیا گیا تھا۔ چنانچہ بنگالی بھائیوں کا یہ مطالبہ پورا ہوگیا تھا۔ سولہ سترہ برس بعد 1971ء میں اس واقعے کو علیحدگی کا ذمہ دار قرار دینا سطحیت ہے۔1973ء کے آئین میں اردو کو پندرہ سال کے اندر سرکاری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جسے 42برس تک عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا۔ یوں قائداعظم کا خواب تشنہ تکمیل رہا۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو کے نفاذ کے حوالے سے فیصلہ دے کر تاریخ میں جگہ پالی ہے..

ایک اچھا لیڈر اپنی قوم کی حقیقی شناخت سے غفلت نہیں برتتا قائد اعظم محمد علی جناح نے اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا اردو… عربی، ترکی اور فارسی زبان کا مرکب ہے جس کے زریعے پاکستان کے مسلمانوں کو ایک نئ آزاد زندگی ملی وہ کیوں کر اسے غیر اہم سمجھ سکتے ہیں اسی لئے قائد نے بھی برملا اسکا اظہار کیا..
وہ اردو کی تہذیبی اور فکری اہمیت سے آگاہ تھے۔ ان کے نزدیک اردو نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے مذہی، فکری، تہذیبی ، سیاسی ، سماجی اور معاشرتی رویوں کی آئینہ دار تھی اور ہے، بلکہ اس کا پھیلتا ہوا منظر نامہ مسلم امہ کی دوسری زبانوں کے ساتھ اس قدر فکری اور معنوی اشتراک رکھتا ہے کہ یہ مسلمانانِ برصغیر کو امت مسلمہ کے مجموعی دھارے کے ساتھ وابستہ رکھنے میں بھی کار گر ثابت ہو سکتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد جب کچھ عناصر نے اردو کی بجائے بنگالی کو قومی زبان کے طور پر رائج کرنے کا نعرہ لگایا تو قائد اعظم ؒ نے نہایت سختی کے ساتھ اس رویے کی مخالفت کی۔ انہوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ پاکستان کی قومی ، سرکاری اور دفتری زبان اردو اور صرف اردو ہو گی اور یہی زبان پاکستانی عوام کی امنگوں کی ترجمان بھی ہے اور ان کے ثقافتی اور تہذیبی رویوں کی آئینہ دار بھی۔

تمام کرنسی نوٹوں پر قائداعظمؒ کی تصویر ہوتی ہے۔ ڈاک کے یادگاری ٹکٹوں پر قائد اعظمؒ کی تصویر ہے۔ ہر سرکاری دفتر میں بھی قائداعظمؒ کی تصویریں ہوتی ہیں۔ پنجاب کے ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ کونسل ہال کا نام جناح ہال ہے۔ قائد اعظمؒ کا صد سالہ جشن ولادت بڑے تزک و احتشام سے سرکاری طور پر منایا گیا۔ ایک یونیورسٹی ، ایک بڑا ہسپتال اور ایک میڈیکل کالج قائد اعظمؒ کے نام سے موسوم ہیں۔ جلسوں میں قائداعظمؒ کے زندہ باد کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔ کئی مشہور باغ و پارک اور بڑی سڑکیں قائد اعظمؒ کے نام پر ہیں۔ لیکن ارباب اختیار قائداعظمؒ کے فرامین متعلقہ سرکاری زبان کی خلاف ورزی کرتے ہیں“

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قائداعظمؒ کے ملک میں قائد کےفرامین کی حکم عدولی نہ کی جائے، بلکہ انہیں تسلیم کرتے ہوئے اردو کے مقام و مرتبہ کے مطابق اسے زندگی کے تمام شعبوں میں رواج دیا جائے۔s
فکری سرمائے اور تہذیبی آثار کی واحد نمائندہ زبان:۔

اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ اسے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے رائج کیا، اسے برصغیر میں رہنے والے تمام مسلمان باآسانی سمجھتے ہیں۔اور اس میں اپنے ماضی الضمیر کا اظہار کرتے ہیں۔

قائداعظمؒ کے نزدیک یہ زبان اسلامی ثقافت اور اسلامی روایت کے فکری سرمائے اور تہذیبی آثار کی واحد نمائندہ زبان ہے۔ اس کا نفاذ اور اس کی ترویج نہ صرف ملک کے اتحاد اور سالمیت کی ضامن ہو گی، بلکہ یہ تمام اسلامی ملکوں کو قریب لانےاور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کرنے کا فریضہ بھی انجام دے سکتی ہے۔ اگر قائداعظمؒ کے اس نقطے کی وضاحت کی جائے تو ہم آسانی سے اردو زبان کی وساطت سے فارسی، عربی، اور ترک زبان کی ان جڑوں کو تلاش کر سکتے ہیں جو اردو کی بنیاد میں کارفرما ہیں۔ یعنی اردو کے ضمیر میں مذکورہ بالا زبانوں کا رنگ اور آہنگ شامل ہے۔ ان زبانوں کے ہزار ہا الفاظ اردو میں موجود ہیں۔

گویا ہم فضا میں شیرینی گھول سکتے ہیں
آج بھی اہل دل اردو زبان بول سکتے ہیں

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قائداعظمؒ کے ملک میں قائد کےفرامین کی حکم عدولی نہ کی جائے، بلکہ انہیں تسلیم کرتے ہوئے اردو کے مقام و مرتبہ کے مطابق اسے زندگی کے تمام شعبوں میں رواج دیا جائے۔
اردو زبان ہماری فکری ثقافتی سرمائے کی حیثیت رکھتی ہے….
پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اس میں قومی زبان کا نفاذ ہو تاکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں یک رنگی کی بدولت ایک ایسے طرز زندگی کو رواج دیا جا سکےجو مستقبل کی قدروں کو اجالنے اور اس کی تعبیر کو درخشاں کرنے میں معاون ثابت ہو سکے۔ قومی ترقی، زبان کی ترقی سے وابستہ ہوتی ہے۔ قوم کی یک رنگی اور اتحاد قومی زبان کی وساطت سے نکھرتا ہے اور سنورتا ہے۔اگر ملک میں قومی زبان کا نفاذ نہ ہو تو کوئی بھی قوم غیر زبان کے سہارے ترقی کے زینے طے نہیں کر سکتی ۔

یہ بھی پڑھیں

آزادی کی تحریک میں اردو کے مطالبے کو مرکزی حیثیت دی یہی وجہ ہے کہ شیخ مجیب جیسے لیڈر کے ظہور ہونے کے ابتدا ہی میں ایک نہیں کئی مرتبہ ڈھاکہ میں عوام کے درمیان اپنا دوٹوک فیصلہ سنادیا۔ انھوں نے 24مارچ 1948ء کو ایک اور جلسے میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالبعلموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ :’’اس صوبے میں دفتری زبان کے لیے آپ لوگ جو چاہیں زبان منتخب کرسکتے ہیں البتہ پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ ہے اردو‘‘ آج ہمارے صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کی کمی قائد اعظم کے ارشادات کو ثبت کررہی ہے کہ اگر ہم اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیتے تو آج صوبوں کے درمیان یوں فاصلے نہ ہوتے۔

کتنی افسوسناک بات ہے کہ آج ہم سیاسی مسئلوں پر ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف آئین کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات بھی لگاتے ہیں بلکہ ایسا کرنے والوں کو گرفتار اور سخت سے سخت سزا دینے کا پر زور مطالبہ بھی کرتے ہیں مگر … مگر … مگر یہ نظر انداز کردیتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں شق نمبر 251میں درج ہے۔’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور تاریخ اجرا سے پندرہ سال کے عرصے کے اندر سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے اس کے استعمال کا انتظام کیا جائے گا۔

‘‘آئین کی اس کھلی خلاف ورزی پر ہمارے سیاسی رہنما کیوں خاموش ہیں؟ اور وہ لوگ کیوں خاموش ہیں جو اس ملک کے نظام طے کرنے سے متعلق صبح و شام قائد اعظم کے فرمودات کے حوالے دیتے ہیں؟قائد اعظم کے ارشادات واضح کررہے ہیں کہ اس قوم کو متحد کرنا ہے تو اردو کو سرکاری زبان بلا تاخیر بنانا ہوگا، اگر ہم واقعی اس بکھرتی قوم کو متحدہ کرنا چاہتے ہیں تو آیئے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دلانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

اس ملک میں لبرل یا اسلامی نظام لانے کے لیے قائد اعظم کے دونوں طرح کے فرمودات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور ہر فریق اپنا نقطہ نظر درست ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر اردو زبان کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بالکل واضح نظریات موجود ہونے کے باوجود اردو زبان کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے کی کوششیں نہیں کی جاتیں۔

کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم نے اپنے قائد کی برسی اور ولادت پر جشن منانے کے لیے قومی سطح پر چھٹی منانے کا بھی اہتمام کر رکھا ہے اور ہر طرف سے قائد اعظم کے نعرے بھی محبت کے دعوے بھی بلند کیے جاتے ہیں مگر ان کے دو ٹوک تعلیمات و احکامات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ 1934ء میں قائد اعظم نے مسلم لیگ کی انتخابی مہم کے لیے جو دستور تیار کیا۔ بعد ازاں اسے منشور کا درجہ بھی حاصل ہوا اس میں واضح طور پر دفعہ نمبر11 میں لکھا تھا کہ اردو زبان اور رسم الخط کی حفاظت کی جائے گی۔

قائد اعظم اردو زبان پر دسترس نہ رکھنے کے باوجود انتخابی مہم کے دوران اپنی تقاریر کے آغاز اور اختتام پر چند جملے ضرور اردو زبان میں ادا کرتے تھے۔ آزادی سے قبل جب کانگریس نے ’’ہندی ہندوستان‘‘ کی مہم چلائی تو تب بھی 1935ء میں قائد اعظم نے برملا اعلان کیا کہ اس اسکیم کا اصل مقصد اردو کا گلا دبانا ہے۔ اسی طرح آپ نے 1938ء میں پنڈت جواہر لال نہرو کو کسی بات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ اردو ہماری عملاً زبان ہے ہم آئینی ضمانت چاہتے ہیں کہ اردو کے دامن کو کسی طریقے سے متاثر نہ کیا جائے۔‘‘

جب قیام پاکستان کا وقت قریب آنے لگا تو 1946ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں ایک مرتبہ سر فیروز خان نون انگریزی زبان میں تقریر کرنے لگے تو قائد اعظم نے انھیں ٹوکتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ’’پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔‘‘

قائد اعظم کی نظریں اردو کی اہمیت محض قیام پاکستان سے قبل تک نہیں تھی بلکہ آزادی کے بعد بھی آپ نے پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے دو ٹوک الفاظ میں اظہار کیا مثلاً 1948ء میں جب مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے بنگالی زبان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو قائد اعظم نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود ڈھاکہ جانے کے لیے فیصلہ کیا۔

ڈھاکہ جانے کے لیے پاکستان کے پاس صرف ڈکوٹا طیارہ تھا جس میں مشرقی پاکستان تک جانے کے لیے کلکتہ ایئرپورٹ سے ایندھن حاصل کرنا ضروری تھا لیکن قائد اعظم نے کلکتہ ایئرپورٹ اترنا پسند نہیں کیا اور جہاز میں ایندھن گنجائش سے زیادہ ڈلوا کر خطرہ مول لیتے ہوئے وقت ضایع کیے بغیر ڈھاکہ پہنچنا پسند کیا اور وہاں پہنچ کر واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہی ہو گی۔

یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ قائد اعظم نے ڈھاکہ کے جلسہ عام میں 21 مارچ 1948ء کو بہت صاف صاف فرمایا کہ:’’بالآخر اس صوبے کے لوگوں کو ہی حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی لیکن میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہے

زرافشاں فرحین جامعہ کراچی سے ایم اے پولیٹیکل سائنس میں گولڈ میڈلسٹ ہیں ،جامعہ پنجاب سے اسلامک سٹڈیز میں ماسٹرز کے بعد اس وقت رفاہ یونیورسٹی لاہور سے سوشل سائنسز میں ڈپلومہ کررہی ہیں ۔

[wpforms id=”3962″ title=”false” description=”false”]
5/10

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے