سلیم مغل
یہ خبر آج کے کسی پاکستانی اخبار یا میگزین میں شائع ہوئی ہوتی تو بہت سے لوگ اسے جماعت اسلامی ، جے یوآئی یا دیگر کسی قدامت پسند جماعت یا طبقے کے کھاتے میں ڈالتے ہوٸے آسانی سے ہاتھ جھاڑ لیے جاتے ۔
لیکن خبر جو یہاں آپ کے مطالعے کے لیے پیش کی جارہی ہے یہ خبر ”Chronicle of the 20th Century“ میں شائع ہوئی جسے Long man Chronicle نے Chronicle Communication London کے تحت شائع کیا۔1376صفحات پر مبنی یہ ضخیم کتاب بیسویں صدی کی اہم ترین خبروں پر مبنی ہے جو اپنے وقت کے مؤقر ترین اخبارات میں شائع ہوئیں۔ان خبروں سے گویا پوری ایک صدی کی تاریخ مرتب کردی گئی۔
اعلان برات
زیر نظر خبر 15مئی 1921کو شائع ہوئی جس کی شہ سرخی ہے
”اسکرٹس میں اضافہ اور اخلاقیات میں انحطاط“
خبر کے مطابق خواتین کے لئے حال ہی میں متعارف ہونے والے نئے لباس نے امریکا میں خطرات کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ اسکرٹس سراسر بے حیائی اور اخلاقی پستی کی علامت ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے امریکا میں ہزاروں خواتین نیم برہنہ ہو گئیں۔ خبر کے مطابق قدیم روایتوں کے امین سخت تشویش میں مبتلا ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ بے حیائی کا سیلاب آخر کہاں جا کر رُکے گا۔ بڑھتی ہوئی سگریٹ نوشی، میک اپ، رقص و سرود کی محافل اور تیزی سے مقبول ہوتا ہوا وائلڈ ڈانس ہمیں کہاں لے کر جارہا ہے اور ہمیں کس انجام سے دوچار کرنے والا ہے؟ مضمون کا بقیہ حصہ تو آپ خود پڑھ لیجیے لیکن میڈیا کے طالب علم کی حیثیت سے جو میں نے دیکھا،سمجھا اس کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں ۔

میں نے یہ جانا کہ دنیا کو بدلنے کے لئے پہلی نقب ثقافتی رسموں اور روایتوں پر لگائی جاتی ہے۔
اب یہی کچھ جب ارگرد ہوتا نظر آ رہا ہے
چھوٹی عمر کے بچے خصوصاً بچیاں اس کا پہلا ہدف ہوتے ہیں مگر بچوں کو تو کوئی سا بھی لباس پہنا دیا جائے وہ کبھی غیرمہذب نہیں لگتے،اس لیے بھی کہ ان کی عمر اور معصومیت ابھی حیا اور بے حیائی کے تصور سے دور ہوتی ہے۔ ہم نے یہ بھی جانا کہ چھوٹی عمر میں Brand Conciousnessآپ کے بچوں کو پسند و ناپسند کے جس ٹریک پر ڈال دیتی ہے وہ پھر انہیں پلٹ کر دیسی یا روایتی پہناووں کی طرف نہیں آنے دیتی ۔ یہی بچے بچیاں جب سن بلوغت کو پہنچتے ہیں اور مشہور عالمی برانڈز کے اسیر ہوکر جو لباسِ فاخرہ زیب تن کرتے ہیں اسے دیکھ کر نظریں جھک توجاتی ہیں مگر زبان نہیں کھل پاتی، اس لئے کہ اس عمر تک پہنچتے پہنچتے کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

کبھی آپ نے یہ سوچا کہ کلفٹن کے ایک فیشن گھر میں بیٹھ کر کسی عالی دماغ فیشن ڈیزائنر نے خواتین کے لئے کھلے گلے والی قمیص ڈیزائن کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ڈریس ایسا مقبول ہوا کہ اس نے شہروں کے بعد قصبوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

کسی ڈیزائنر نے اونچی شلوار کا تخیل پیش کیا اورپھر ہر عورت دیکھتے ہی دیکھتے اس کی اسیر ہوتی چلی گئی۔چست پاجامے، دوپٹے سے نجات یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اگرآج کی عورت ایسا نہیں کرے گی تو سوچیں کیسی دقیانوسی عورت کہلائے گی۔ ہر فیشن ڈیزائنر اور فیشن پرسرمایہ کاری کرنے والا ہماری انہی نفسیاتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتا ہے اور پھر گھر بیٹھے ہمارے حلیے، ہماری چال ڈھال اور ہماری قدروں سمیت سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔ تو پھرسوچیے!ایسے میں ہم کیا ہوئے؟ ہمارااپنا دماغ کیا ہوا؟ ہماری سوچ اور فکر کہاں چلی گئی؟…
ہماری تعلیمات اور ہماری اخلاقیات کیا ہوئیں؟

ہم نہ ہوئے گویاکپڑے کا گڈا گڈی ہوگئے کہ جو چاہے ہمیں جیسا پہنا دے، پھر جب چاہے جیسا بنا دے۔ کاش ہم یہ جان سکیں کہ ہم نے ”تن پوشی“ کا سبق اور با لباس رہنے کا سلیقہ اور ہنر صدیوں میں کہیں جاکر سیکھا ہے۔ تو کیا اب یہ سبق دیپک پروانی کے ایک ڈیزائن کی خاطر فراموش کردیا جائے ؟ کیا عاصم جوفہ کے چند ڈیزائنز کی خاطر حیا کو گروی رکھ دیا جائے ؟ کیا حسن شہریار کی تخلیقات کو مہذب پہناووں کا معیار تسلیم کرلیا جائے؟
کیا زینب چھوٹانی کو مادرِ ملبوسات مان لیا جائے؟
بہت سے سوالات کے جوابات ہم پر قرض ہیں مگر ہم ایسے موقعوں پر جواب تلاش کرنے کے بجائے فرارکی راہ ڈھونڈنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ اگر ”میرا جسم میری مرضی“ کے فلسفے کو درست مان لیا جائے تو پھر میری ساری باتیں محض لغو اور بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں لیکن اگر ”ہمارامعاشرہ، ہماری ا قدار اور ہماری تعلیمات کو، ہماری مرضی“ مان لیا جائے تو ایک پاکیزہ معاشرے کی صورت گری کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔

مغرب نے جو کچھ کیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ وہاں معاشرتی قدریں اور خاندانی نظام برباد ہوچکا….
اس سے پہلے کہ ہم بھی واپسی کا راستہ کھو دیں، ہمیں بہت کچھ سوچنا ہوگا! اپنے لیے بلکہ اپنے سے زیادہ اپنے بچوں کے لیے۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے