صفدرحسین
یہ اس دور کا قصہ ہے جب ہماری ساری دنیا گھر سے مغرب کی جانب دو کلومیٹردور گائوں میں واقع کچے پکے پرائمری سکول اور مشرق میں ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود بازار کے آغاز میں قائم بابے دی ہٹی تک محدود ہوا کرتی تھی ،شمال میں ہمارا کبھی کبھار کا سفر اپنی پہاڑی زمین تک ہوا کرتا تھا جہاں اکثر گھاس کٹائی میں مصروف دادا ،والد اور چاچا کو کھانا دینے کیلئے دادی اماں یا دیگر کسی بڑے کے ساتھ جانا ہوتا ،جبکہ جنوب میں گھر سے نظر آنے والی چھوٹی سی پہاڑی کی چوٹی ہمارے لئے دنیا کا آخری کونا تھا ۔
ہماری بستی میں اس وقت تک بجلی نہیں پہنچ پائی تھی ،اورگائوں میں ہماری دلچسپی کی دو چیزیں ہوا کرتی تھیں ،ایک گوہر بابے دی ہٹی جہاں سے چار یا آٹھ آنے میں ملنے مرونڈے ،نگدی یا فانٹے ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہ ہوا کرتے تھے ۔دوسرا ہمارے رشتے کے نانا کے گھر میں پرانا سا ٹی وی جس پر ہمیں کبھی کبھار کوئی ڈرامہ دیکھنے کا موقع مل جاتا اگرچہ ہمیں اس وقت ان کی سمجھ تو نہیں آتی تھی لیکن چلتی پھرتی تصویریں ہمارے لئے کسی عجوبے سے کم نہ تھیں ۔
اس پرسکون زندگی میں باقاعدگی کیساتھ باہر کی دور دنیا کے بارے میں جاننے کا ہمارا واحد ذریعہ دادا جان کا پرانا سا ریڈیو ہوا کرتا تھا (یہ ریڈیو چند سال بعد ہمارے ہاتھوں پہلے آپریشن کےدوران دم توڑ گیا) وہ باقاعدگی سے رات کو ریڈیو پاکستان اور پھر بی بی سی اردو کی خبریں سنا کرتے ،لیکن ان خبروں میں صرف دویادیں جو آج بھی ذہن پر نقش ہیں ،ایک افغان مجاہدین کی کامیابیوں کے تذکرے (خاص طور پر گلبدین حکمتیار کا نام ہمیں منفرد اورعجیب سے لگتا تھا )
اور دوسرا بی بی سی کے سیربین سے پہلے بجنے والا میوزک ،جو رات کی خاموشی میں اپنے اندر عجیب سی کشش رکھتا تھا ۔
یہ بھی پڑھیں
- اسامہ بن لادن کی موت کے 10 سال اور اس سے جڑے 10 سوال
- سکھ سرکار کا باغی سردار پائندہ خان تنولی جو بالآخر دھوکے اور زہر کا شکار ہوا
- تصویریں بنا کر مسکراہٹیںلوٹانے والے پاکستانی فوٹو گرافرسے ملئے
- کابل سے پسپائی اور کابل میں واپسی کے بیچ گزرے 20 سال،سابق طالب کی کہانی
لیکن ان سب یادوں پر سب سے حاوی یاد جنرل ضیاء الحق کا تذکرہ ہے ،جو ہم نے شعور کی دنیا میں قدم رکھتے ہوئے سنا اور اس تواتر سے سنا کہ وہ ذہن پر نقش ہوکر رہ گیا ۔پھر اکثر گھروں میں بزرگوں کی تصویروں کیساتھ فریم میں لگی مردمومن کی تصویر بھی لازمی ہوا کرتی تھی ۔
وہ راستہ چلتے آتے جاتے لوگ ہوں ،یا تپتی دوپہر میں مسجد کے صحن میں لگی گھنی چنار کے نیچے گائوں کے بڑے ،جن کی ساری گفتگو اور بحث مباحثہ مردمومن مرد حق کے بارے میں ہوتی اور ایسے ایسے ایمان افروز قصے سننے کو ملتے کہ جی چاہتا اب گھر جانے کے بجائے ہوائوں میں اڑتے ہوئے اس دور دنیا میں پہنچ جائیں جن کے قصے ہماری زندگی کا حصہ بن چکے تھے ،ان میں سے زیادہ ترحق میں ہی آوازیں ہوتیں ۔شاید گائوں کے لوگ اتنے دور اندیش نہ تھے ،یا وہ تصور ہی تصور میں گھوڑوں پر سوار ہو کر دشت و دریا کو روندتے ہوئے ایک بار پھر صدیوں پہلی کی دنیا کی حسرت دل میں محسوس کرتے تھے ۔
مجھے یاد نہیں کہ وہ کیا دن تھا ،لیکن اتنا ہے کہ سکول سے چھٹی ہوئی توگرم دوپہر میں گائوں کی گلیوں میں خلاف معمول کچھ خاموشی سی محسوس ہورہی تھی ۔مجھے دادا نے صبح گھر سے جاتے ہوئے درانتیاں دیکر بابو لوہار سے انہیں ٹھیک کروا کر لانے کی ہدایت کی ہوئی تھی ،اس لئے میں کپڑے کے تھیلے میں لپٹی درانتیاں لیکر گھر جانے کے بجائے بابو لوہار کی دکان کی طرف چل پڑا ۔بابولوہار گائوں کے واحد لوہار تھے ،ڈھلکتی عمر لیکن لوہے کی طرح مضبوط آواز اور اس سے زیادہ کرخت آواز ،جس کی وجہ سے ہم بچے اکثر اس طرف جانے سے کتراتے تھے ،
میں بابو لوہار کی دکان میں داخل ہوا تو وہاں چھ سات بابے دکان میں بنے تھڑے اور چوکیوں پر بیٹھے تھے ،لیکن دکان میں مکمل خاموشی یا سوگواری کی فضا تھی ،ماسوائے بابولوہار کی بھٹی سے اٹھنے والی چٹختی چنگاریوں یا بابو لوہار کے لوہے پر برستے ہتھوڑے کی آواز کے سوا کچھ سنائی نہ دے رہا تھا
میں نے سلام کر کے تھیلا بابو کے قریب چھوڑ کر ایک کونے میں چپ کر کے بیٹھ گیا ۔لیکن دکان میں سکوت گہرا ہی رہا ۔
چند لمحے گزرے ہوں کہ ایک اور بزرگ ہاتھ میں اخبار کا صفحہ پکڑے داخل ہوئے ،اور سب بیٹھ کر اس اخبار کو دیکھنے لگے ،جس پر تصویریں زیادہ اور تحریر کم تھی ،یہ شاید نوائے وقت اخبار کا ضمیمہ تھا ۔تھوڑی دیر تصویریں دیکھنے اوراخبار کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد ایک بزرگ نے مجھے پڑھ کر سنانے کا حکم دیا ۔
میں نے حکم کی تعمیل میں اخبار لیکر بلندآواز میں پڑھنا شروع کردیا ،کوئی لفظ اجنبی آتا تو وہاں جوڑ کر کے لفظ کو پورا کردیتا ،اگرچہ ان میں سے زیادہ تر الفاظ کے معانی و مطلب کا مجھے علم نہ تھا ،البتہ سرخی آج بھی یاد ہے
صدر جنرل ضیاء الحق فضائی حادثہ میں شہید
ان کے ساتھ اس فضائی حادثہ میں کون کون جان سے گیا ان کے بارے میں مجھے کچھ علم نہ تھا کہ وہ کون تھے اور وہ کیوں مارے گئے ۔میں نے کھینچ تان کر خبریں پڑھیں ۔اس دوران بابو لوہار میری درانتی کا تھیلا واپس کرچکے تھے ۔اور میں کچھ سمجھنے اور کچھ نہ سمجھنے کی کیفیت سے دوچار دکان سے نکل کر گھر کی جانب روانہ ہوگئے ۔
اگلے روز جب میں سکول کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں ملنے اور دکھنے والے ہر شخص کے چہرے میں خاموشی اور اداسی سی نظر آئی ۔
دوپہر کو آدھی چھٹی کے وقت سکول سے نکل کر گائوں کی گلیوں میں گئے تو سب لوگ ہمارے رشتے کے ایک نانا کے گھر کی طرف جاتے دکھائی دیئے ،یہ پورے گائوں کا پہلا گھر تھا جس میں ٹی وی موجود تھا ۔ہم بھی ان کے پیچھے چل پڑے ۔
نانا کے گھر کا صحن مکمل طور پر لوگوں سے بھرا ہوا تھا ۔گائوں کی اردگر د بستیوں سے لوگ وہاں موجود تھے اور برآمدے میں ایک بڑے میز پرٹی وی چل رہا تھا ۔جس میں جنرل ضیاء کے جنازے کے مناظر دکھائے جارہے تھے ۔یہ جنازہ ٹی وی پر کیوں دکھایا جارہا تھا اور سارا گائوں اسے کیوں اتنی خاموشی اور افسردگی سے دیکھ رہا تھا ،یہ باتیں ہماری سمجھ سے باہر تھیں ۔
یہ وقت بھی اسی تیزی سے گزرگیا جس طرح اس کے بعد کے تیس بتیس سال گزر گئے ۔جوں جوں شعور بڑھتا گیا اردگرد کی دنیا کے بارے میں ہماری حد نگاہ بھی بڑھتی رہی ۔مطالعہ اور خبروں تک رسائی کے مواقع بڑھے تو اردگرد دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کو دیکھنے اور پرکھنے کے مواقع ملے
اس واقعہ کے چند سال بعدقومی سطح پر ہونے والے ملاکھڑوں کو بھی دیکھنے سننے کا موقع میسر آیا ۔کہتے ہیں حالات کے ساتھ نظریات بدلتے ہیں وہی لوگ جنہیں مرد مومن مرد حق کے نعرے لگاتے دیکھتے تھے ،وہی لوگ اپنے اس نعرے سے بیزاری اور نفرت کرتے دکھائی دیئے ۔پھر تیس سال میں اتنے الٹ پھیر دیکھے کہ صبح کا فقیہ شام کا قبیح اور شام کو ولی قرار پانے والا صبح کو راندہ درگاہ ہوتے دیکھا
وہی ضیاء جو اپنے وقت میںنورکا استعارہ ہوتا تھا وقت نے اسے اس طرح ظلمت بنا کر پیش کیا کہ آج اس کے چاہنے والے بھی اس سے بیزاری اور دوری اختیار کررہا ہے .
اس کے بعد بعد حالات نے اتنی قلاہ بازیاں کھائیں کہ اس گھمن چکر میں گائوں کی پرسکون فضا میں بسنے والے لڑکے کی فہم کی حدیں بھی جواب دے گئیں اور وہ آج بھی ہر روز ظلمت و ضیاء کے بدلتے زاویوں کو غالب کی نظروں سے حیرت و استعجاب کیساتھ دیکھ رہا ہے ۔