دیگر پوسٹس

تازہ ترین

طورخم بارڈر پر دو اداروں کے مابین تصادم کیوں ہوا ؟متضاد دعوے

طورخم(جبران شینواری ) طورخم نادرا ٹرمینل میدان جنگ بن گیا...

“سیاست سے الیکشن تک” !!

"سدھیر احمد آفریدی" بس صرف اس بات پر اتفاق رائے...

علی گروپ مشتاق غنی کو کابینہ سے باہر رکھنے میں کامیاب ؟

اسٹاف رپورٹ سابق اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق غنی...

مدائن صالح کے آثارقدیمہ اورسعودی عرب میں‌نئے سیاحتی باب کا آغاز

 ظہیر تاج

العلاء جو مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے، سعودی عرب کے شمال میں واقع ہے اور مدینہ منورہ سے تقریباََ 330 کلومیٹر کی فاصلے پر ہے.
اس علاقے کی وجہ شہرت یہاں دریافت ہونے والے وہ قدیم مقبرے ہیں جن کو پیغمبر خدا حضرت صالح اور انکی قومِ ثمود سے منسوب کیا جاتا رہا۔ لیکن آرکیالوجی کے شواہد کے مطابق یہ علاقہ نبطی تہذیب کا مسکن رہا ہے اور ابھی تک حضرت صالح کی قوم کا یہاں پر مکین ہونا ثابت نہیں ہو سکا۔

اس علاقے میں زمانہ دراز تک لوگوں کا داخلہ ممنوع رہا ،کیوں کہ عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں قوم ثمود پر عذاب نازل ہوا ،تاہم ماہرین آثار قدیمہ کو ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ،حالیہ سالوں کے دوران سعودی حکومت مقامی سیاحت کے فروغ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس علاقے کو بھی سیاحوں کےلیے کھول دیا گیا ہے


اسلام آباد میں‌تین روزہ عالمی سیاحتی میلہ شروع

قومی یکجہتی کا استعارہ،محمد علی سدپارہ

اسلام آباد میلے میں کے پی کے خوبصورت رنگ


العلاء میں قائم ایک بازار،یہ علاقہ مقامی پھلوں کی پیداوار کے حوالے سے بھی خاصی شہرت رکھتا ہے 

تہذیب ایک سو دوسوسال قبل آباد رہی ،لیکن پھر زمانہ کی گرد نے اسے دنیا کی نظروں سےاوجھل کردیا تاوقتیکہ 1972 میں ماہرین آثارقدیمہ نے ایک بار پھر اس کا کھوج ڈھونڈ نکالا

نبطی اس علاقے میں 100 قبل مسیح سے 200 عیسوی تک آباد رہے اور اسکے بعد وقت کی دھول میں گم ہو گئے۔ یہاں تک کہ 1972 میں تاریخ دانوں اور آرکیالوجی کے ماہرین کے کاوشوں سے الحجرہ کے مقام سے یہ کھنڈرات برآمد ہوئے۔ 2008 میں یونسکو نے الحجرہ کو مشترکہ عالمی تاریخی ورثے میں شامل کر لیا۔ اسکی دریافت کے بعد بہت عرصے تک اس خطے میں جانے کو حرام قرار دیا جاتا رہا کیونکہ احادیث کی روشنی میں حضورصلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم جب اس مقام سے گزرے تو وہ تیزی سے گزر گئے اور یہاں پر رکے نہیں کہ یہ عبرت و عذاب والی جگہ تھی ۔ لیکن اب تحقیق کے بعد سعودی علماء نے یہاں پر جانے کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ابہام بھی ہے کہ شاید یہ وہ مقام نہیں جہاں پر قوم ثمود آباد تھی. (قرآن کے مطابق قوم ثمود نے حضرت صالح کی اونٹنی کو ہلاک کر دیا تھا اسی وجہ سے ان پر عذاب آیا

العلا میں موجود ایک عظیم الشان مقبرہ ،تاہم اس کے اندر کسی قبر کے آثار نہیں ملے ،جس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ مقبرہ تعمیرکروانے والے شخص کو اس میں دفن ہونا نصیب نہیں ہو پایا

الحجرہ کے مقام پر اس وقت تک 141 مقبرے دریافت ہو چکے ہیں مزید کی تلاش زور و شور سے جاری ہے. ان مقبروں میں مختلف طبقات، مختلف مراتب کے لوگ مدفون تھے۔ ان مقبروں پر موجود مختلف شبیعات اور عبارات سے تاریخ دانوں نے کچھ نتائج اخذ کئے۔ جیسے کچھ مقبروں پر عقاب کا نشان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عقاب مرنے والوں کی روح کو آسمانوں تک لے جاتا ہے.
مختلف ستونوں کی تعداد ،مقبروں کی اونچائی اور مقام سے مرنے والوں کا مرتبے کا پتہ چلتا ہے ۔ کچھ مقبرے اکٹھے موجود ہیں اور ان پر مختصر سی نقش نگاری ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ غریب اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

عام نقش و نگار اور طرز تعمیر کے حامل ان مقابر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ عام اور غریب لوگوں کی تدفین کےلئے استعمال ہوتے تھے

 

انہی مقبروں میں ایک بالکل الگ ،باقی مقبروں سے دور اکیلا ایک طویل القامت مقبرہ ہے اور اس پر ستونون کی تعداد بھی چار ہے جو سب سے ذیادہ ہے۔ اسی وجہ سے اسکو قصر فرید کا نام دیا گیا ۔ (عربی میں فرید کا مطلب منفرد ہونا ہے ) ۔ لیکن اس مقبرے سے کوئی قبر برآمد ہوئی ،کوئی تحریر بھی نہیں ملی اور نہ ہی یہ مکمل ہے ہوا۔ ان معلومات کی بنا پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اسکو تعمیر کروانے والا امیر اور مرتبے والا شخص تھا لیکن اسکو یہاں پر دفن ہونا نصیب نہیں ہوا۔

نبطی تہذیب ایک سو دوسوسال قبل آباد رہی ،لیکن پھر زمانہ کی گرد نے اسے دنیا کی نظروں سےاوجھل کردیا تاوقتیکہ 1972 میں ماہرین آثارقدیمہ نے ایک بار پھر اس کا کھوج ڈھونڈ نکالا

ان مقبروں کے ساتھ یہاں پر ایک دو پہاڑوں کے درے کے درمیان ایک کانفرنس ہال بھی دریافت ہوا جہاں پر نبطیوں کے فیصلہ ساز بیٹھا کرتے تھے اور اہم میٹنگز ہوا کرتی تھیں۔ اس اسمبلی ہال کی لوکیشن بہت زبردست ہے، یہ شدید گرمی میں ٹھندا اور سخت موسم بارش میں ایک قدرتی پناہ گاہ تھی ۔ شاید اسی وجہ سے اس جگہ کو اہم ترین مقام کے لئے چنا گیا۔

نبطیوں کے معبود کی ایک شبیہ ،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبطی تہذیب بت پرستانہ عقیدے کی حامل تھی

اس اسمبلی ہال کے سامنے نبطیوں کے ایک خدا کی شبیہ بھی ملی ہے۔ اس شبیہ پر آرمک زبان میں ایک عبارت ملی ہے ،ماہرین کے مطابق اس عبارت سے یہ سامنے آیا یے کہ یہ اس خدا نے یہ شبیہ کو بنوانے کے لئے دور دراز سے الحجرہ کا سفر کیا۔ ان شبیہات سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ نبطی مشرکانہ عقائد کے مالک تھے۔

بازار میں سیاحوں کی  دلچسپی کے لئے مقامی گھریلو دستکاریوں کو خصوصی طور پر پیش کیا جاتا ہے 

نبطی اس بیابان علاقے میں کیوں آباد ہوئے اسکے بارے میں تاریخ دان ایک سے ذیادہ وجوہات بتاتے ہیں ۔ ایک یہ جگہ تجارتی گزر گاہ تھی ،یہ لوگ خوشبو اور مسالوں کی تجارت کرتے تھے ۔ انکی یہ تجارت بحیرہ روم کے کنارے بسنے والے ممالک تک محیط تھی ۔ دوسری وجہ اس علاقے کی زراعت تھی ۔ نبطی بارش کے پانی کو زیر زمین ذخیرہ کرنے میں ماہر تھے اور اس پانی کو فصلیں اگانے میں استعمال کرتے تھے۔

الحجرہ کو نبطی سلطنت کے دارلحکومت پیٹرا سے جوڑا جاتا ہے جو اردن میں واقع ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ پیٹرا اور الحجرہ میں فن تعمیر ایک جیسا ہے۔ ہاں پیٹرا دارلحکومت ہے اسلئے وہاں پر تعمیرات ذیادہ اعلیٰ اور شاہانہ طرز کی ہیں۔

مدائن صالح یہ الحجرہ بہت عرصے تک سیاحوں کی نظر سے اوجھل رہا لیکن اب سعودی حکومت سیاحت پر توجہ دے رہی اور دنیا کے اپنی متوجہ کر رہی ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے یہاں پر جانا مفت ہوتا تھا لیکن اب الحجرہ کی سائٹ پر جانے کے لئے 95 ریال کا ٹکٹ ہے جو آن لائن خریدا جاسکتا ہے۔ اس ٹکٹ کے بعد سیاحوں کو ائرکنڈیشنڈ بسوں میں دو گھنٹے کا ٹور کرایا جاتا ہے ۔ٹور میں انگریزی اور عربی زبان کے گائیڈ بھی ساتھ ہوتے ہیں اسکے علاوہ سیاحوں کی عربی قہوے ،مقام کھجور اور خشک میوہ جات سے مہمان نوازی کی جاتی ہے۔

العلاء-کوجانے-والی-شاہراہ-،بعض-مناظر-پاکستانی-سیاحوں-کو-بلوچستان-کی-یاد-دلا-دیتے-ہیں

الحجرہ میں اسلامی تاریخ کی ایک نادر یادگار الحجاز ریلوے بھی ہے۔ اس ریلوے ٹریک کو 1901 سے 1908 کے درمیان عثمانی سلطنت کے کے دور میں تعمیر کیا گیا۔جس کا مقصد سلطنت عثمانیہ کے تمام اہم اور بڑے شہروں‌کو ملانے کے علاوہ حجاج کرام کےلئے سفر کو آسان بنانا تھا . العلاء وہ آخری سٹیشن تھا جس سے آگے غیر مسلموں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس ریل کاروٹ دمشق ،عَمّان، تبوک، العلاء اور مدینہ المنورہ آخری سٹیسشن تھا۔ اس ریل پر 1922 میں 19 ہزار حجاج نے سفر کیا ۔ حجاز ریلوے پہلی جنگی عظیم میں بمباری کے نتیجے میں‌تباہ ہوئی اور اس کے بعد متروک ہو گئی۔ اب العلاء کے علاوہ مدینہ منورہ میں بھی ریلوے سٹیشن کو میوزیم کا درجہ حاصل ہے۔

حجاز ریلوے کا ایک متروک ریلوے انجن العلا ریلوے سٹیشن پر کھڑا ہے یہ ریل سروس 1922 میں بمباری کے بعد مستقل طور پر بند کردی گئی تھی

الحجرہ کے علاوہ العلاء میں بہت خوبصورت پہاڑ ہیں، کھجور اور مالٹے کے باغات ہیں۔ ایک قدیم بازار بھی ہے جہاں روایتی دستکاری،قالین کی دکانیں، مقامی کھانے اور قہوے کے ریستوران ہیں۔
اسی بازار میں ایک العلاء کی پرانی آبادی ہے جو اب صرف بھوتوں کا مسکن ہے. اس گاؤں میں جانے کے لئے آن لائن ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے. بازار میں جانے کے لئے کوئی ٹکٹ نہیں۔

العلاء کا شہر ریت کے پہاڑوں کے درمیان ایک عجیب و غریب شہر ہے اور اس شہر تک پہنچنے والے شاہراہوں کے ساتھ بھی بلوچستان کی طرر کے خشک پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہ پہاڑ انتہائی خوبصورت ہیں۔ العلاء سے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت ساحل بھی ہے جس کو الوجہ کہا جاتا ہے۔

بازار-میں-دکان-پر-سجائے-گئے-مقامی-دستکاری-کے-نمونے

سعودی حکومت سیاحت کے لئےآسانیاں پیدا کر رہی، العلاء کے لئے ایک جدید ریل کا منصوبہ بھی ہے۔ مستقبل میں اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ یہ شہر اہم ترین مقام ہو گا۔ حال ہی میں العلاء میں عرب ممالک کی اہم ترین سربراہوں کی کانفرنس بھی یہیں ہو چکی ہے۔ اگر آپکو سعودیہ آنے کا موقع ملتا ہے تو اس جگہ ضرور جائیں۔


ظہیر تاج ٹیلی کام  کے شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں ، مظاہرقدرت کا مشاہدہ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے