سلیم مغل
زبان یارِمن عربی و من عربی نمی دانم
یوں تو میں کبھی بھی برا طالب علم نہیں رہا ، نہ ہی میرے نتائج کبھی ایسے آئے کہ شرمندگی اٹھانا پڑی ہو لیکن ہاں مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ اسکول کے زمانے میں ریاضی اور عربی کی وجہ سے اچھی خاصی “ کُٹ” لگ جایا کرتی تھی۔
اب سوچتا ہوںُ کہ عربی ہی شوق سے پڑھ لی ہوتی تو آج ان مسائل کا سامنا نہ ہوتا جن سے اس وقت گذر رہا ہوں ۰۰ بدقسمتی سے عربی کا سببق کبھی “ ھٰذا حسان” اور ھٰذا باب” “ سے آگے بڑھ ہی نہیں پایا ۔
جب سے سعودیہ آئے ہیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی لسانی لطیفہ جنم نہ لیتا ہو ۔پہلے ہی دن دوکان دار سے الجھ بیٹھے ۔ دوکان پہ بڑا سا پوسٹر لگا ہوا تھا ۰۰۰
یہ بھی پڑھیں
- ہم ہیں تہذیب کے علمبردار، ہم کو اردو زبان آتی ہے،محمد احسن لودھی
- ڈپٹی:ہم نے کارگر دھمکی دی کہ اگر کتا نہیں تو ہم بھی نہیں!
- پرانے رشتے اور پرانے درخت کی گھنیری چھاٶں
- برصغیر میں ہزار سالہ مسلم تہذیب کی امین اردو ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت
- “ خصم ۵۰ فی صد “ ہمارا کہنا یہ تھا کہ اگر خصم ۵۰ فی صد تو زوجہ کتنے فی صد ؟ بڑی تکرار کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ یہ خصم وہ نہیں جو ہم سمجھ رہے ہیں بلکہ یہاں خصم سے مراد رعایت یا ڈسکاؤنٹ ہے ۔
ایسی ہی دلچسپ صورت اس وقت بھی پیدا ہوئی ،جب ہم نے ایک جگہ عربی رسم الخط میں “ فائیو جائز “ لکھا ہوا دیکھا ۔ حیرت ہوئی کہ اب تک تو چار چائز تھیں یہ پانچویں کب سے ہوگئی ؟ پھر اپنے آپ کو سمجھایا کہ عین ممکن ہے کسی اور فقہ میں پانچ کی گنجائش نکلتی ہو ۰۰
یہ الجھن بھی اس وقت دور ہوئی جب کسی نے ہمیں سمجھایا کہ یہ ریستوران کانام ہے جسے پانچ دوستوں نے مل کر شروع کیا تھا ۰ لہٰذا اس ریستوران کا نام Five Guys رکھا گیا ۔ جوں کہ عربی “ گ” کی ساؤنڈ سے یکسر محروم ہے اس لیئے اسے عربی میں گائیز کے بجائے جائز لکھا جاتا ہے ، یوں گویا اس کے جائز ہونے کی صورت نکل آتی ہے ۔
ایسی ہی دلچسپ صورت ا س وقت بھی پیدا ہوئی جب مشہور فوڈ چین “ میکڈونلڈ “ کے نیون سائن پہ یہی نام عربی میں لکھا ہوا دیکھا ۔ ایک جھٹکا سا اس وقت لگا جب ابتدائی دو الفاظ پڑھے ‘ما کدو ‘ سوچیں کس قدر غصہ آیا ہوگا جب ہم یہ سمجھے ہوں گے کہ ان کمبختوں کو حیا نہیں آتی ، ماں کو کدو کہہ رہے ہیں !
خیر یہ مسئلہ تو تھوڑا سا غور کرتے ہی سے حل ہو گیا ۰۰ سکون کا سانس لیا ورنہ میں تو پکا ارادہ کرچکا تھا کہ آج کے بعد مکڈونلڈ برگر بند ۔
ریاض کے ایک مشہور شاپنگ مال میں ایک دوکان کا نام “ بالماں “ تھا ، دیر تک دیکھتا رہا اور گنگناتا رہا ۰۰۰ کیسا جادو کیا جادو گر بالماں ۔ خیر یہ غلط فہمی بھی رفع ہوئی ۔ یہاں دستیاب مصنوعات کا دور دور تک بھی کسی بالماں یا ظالماں سے کوئی تعلق نہ تھا ۔
جس دوکان کو “ حلاقتہ “ کی شہ سرخی کے ساتھ کفن دفن کی دوکان سمجھ بیٹھا تھا وہ نائی کی دوکان نکلی ۔
پھر اپنے آپ کو یقین دلایا کہ نائی نیا نیا ہوگا اور اس کا اناڑی پن ممکنہ ہلاکت کا باعث ہوسکتا ہوگا لیکن ایسا بھی نہ تھا ۔ سعودیہ کے تمام شہروں میں حجام کی دوکانوں کا یہی نام ہے ۔
کل شام کھجور مارکیٹ جانا ہوا ۔ جس دوکان پہ باجہ لکھا ہوا تھا وہاں خشک میوے فروخت ہو رہے تھے اب انہیں کون بتائے کہ میوے اور باجے میں بہت فرق ہوتا ہے۔
ہم جسے پاکستان میں آج تک “ پانڈا “ کہتے ، سنتے اورسمجھتے آئے ہیں وہ یہاں پہنچتے ہی “ بندہ “ بن جاتا ہے ۰۰ ہے ناں عجیب وغریب بات ۔ جن عمارات پہ “ کودو” لکھا ہوا نظر آئے گا ، وہاں مجال ہے جو کوئی کود کے دکھادے ۰۰
سب شرافت سے کھانا کھاتے نظر آئیں گے ۔ آپ ہی بتائیں اگر آپ کسی دوکان کے شناختی بورڈ پہ “ بندریا” لکھا ہوا دیکھیں گے تو کیا سمجھیں گے ؟
ہمیں تو کئی بار کی تانک جھانک کے بعد بھی کوئی بندریا نظر نہیں آئی ۰۰ اور وہ جو ایک نظر آئی بھی اسے بندریا کہہ بھی نہیں سکتے تھے ۔
جانے کیا ماجرا ہے ؟
زبانوں کے حروف کی معمولی سی ردوبدل بھی کیسے کیسے گل کھلا دیتی ہے۔
بچوں سے وعدہ کیا ہے کہ اگلی بار جب آئیں گے تو انشااللہ اچھی خاصی عربی سیکھ کے آئیں گے تاکہ ابہام کی ایسی مضحکہ خیز صورتیں اور نقص امن کے خطرات پیدا ہونے کا اندیشہ نہ رہے ۔