دیگر پوسٹس

تازہ ترین

امکانات ڈھونڈیں قبل اس کے کہ دیر ہو جائے

سدھیر احمد آفریدی

ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کے باسیوں کےمسائل اور ان کی مشکلات میں دلچسپی فطری بات ہے کیونکہ میری پیدائش وہاں ہوئی ہے مجھے لنڈی کوتل کی مٹی،سرزمین اور اپنے لوگوں سے بہت پیار ہے وہ بیچارے اپنے بنیادی مسائل جیسے پانی اور بجلی کے حل کے لئے جب احتجاج کرتے ہیں تو پاک افغان شاہراہ بند کر دیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ سول انتظامیہ کے پاس جاکر شکایت کرتے ہیں پہلے پولیٹیکل انتظامیہ تھی اب سول انتظامیہ کہلاتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ متعلقہ آفسران اور محکموں کے ذمہ داران نے ابھی تک اخلاص اور ایمانداری کے ساتھ لنڈی کوتل کے عوام کے مسائل کے حل کے لئے کام نہیں کیا ہے صرف وقت گزاری اور اپنے مفادات سمیٹنے کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں

بے پناہ مسائل، مشکلات اور تکالیف سے دوچار لنڈی کوتل کے عوام پھر بھی پرامن،جمہوریت پسند اور مہذب ثابت ہوئے ہیں جو کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیتے بلکہ ریاستی اداروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون ان کی سرشت میں شامل ہے جو کہ اچھی بات ہے لیکن ریاست اور حکومت چلانے والوں کو کبھی ان پر ترس نہیں آیا

لنڈی کوتل کے مکینوں کی زندگی ہر حوالے سے بدحال ہو چکی ہے جو بھی آتا ہے ان کا استحصال کرکے جاتا ہے صحت اور تعلیم کے ادارے اگر دیکھیں جائیں تو وہاں سہولیات کے فقدان کے باعث مثبت نتائج سامنے نہیں آرہے رابطہ سڑکوں کی حالت بری ہے بے روزگاری حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے جس نے غربت میں بےپناہ اضافہ کر دیا ہے

یہ بھی پڑھیں

تیراہ جیسے علاقے کے جنگلات کی  کٹائی تیز رفتاری سے جاری ہے،پہاڑوں پر درخت نظر نہیں آرہے کاشت کاری کے موسم میں بھی لوگوں کی آگاہی اور بڑے پیمانے پر پودوں اور درختوں کی کاشت کاری کا کوئی جامع پروگرام نظر نہیں آرہا اور نہ ہی علاقے میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے برگ کے چھوٹے جیل نما ڈیم سے بڑھ کر کچھ کیا گیا ہے تاکہ بارشوں کا پانی تو کم از کم ذخیرہ کر سکے

حکومت کی طرف سے کوئی ایسے منصوبے دکھائی نہیں دیتے جن کی بدولت مقامی لوگوں کا معاش بہتر ہو سکے سیاحت سے بھی لوگوں کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے سیاحت کے شعبے کو بھی ترقی نہیں دی جا سکی اور نہ ہی کوئی ایسے سیاحتی مقامات بنائے جا سکے جہاں ملکی اور غیر ملکی افراد آزادانہ سفر کر کے سیاحت کر سکے حالانکہ مواقع اور مقامات ایسے موجود ہیں جن کی طرف سیاحوں کو کھینچ کر لایا جا سکتا ہے

بیشک دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی واردات بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے بہر حال شہریوں کے جان و مال اور آبرو کا تحفظ کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے

انضمام کے وقت ریاست اور حکومت وقت نے 25 ویں آئینی ترمیم کرتے ہوئے جو وعدے کئے تھے وہ نبھا نہ سکی سالانہ ایک سو دس ارب روپے، ملازمتیں دینا،ٹیکس سے استثنیٰ اور قبائلی اضلاع کو ملک کے خوشحال اضلاع کے ہم پلہ اور برابر لانے کے جو وعدے کئے گئے تھے وہ سراب اور دھوکہ ثابت ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ اب قبائلی عوام کی اکثریت دوبارہ پرانے نظام کی حمایت کا برملا اظہار کرتی ہے

واپڈا اگر بل کے بغیر بجلی نہیں دیتا ہے تو پھر سامنے کیوں نہیں آتا لگتا ہے واپڈا کو اسی میں کوئی فائدہ ہے کہ قبائل برائے نام بجلی استعمال کریں شبہ تو یہی ہے کہ قبائل کی بجلی کارخانوں کو مہنگے داموں بیچی جاتی ہے اور اس طرح یہ رقم کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے بہر حال ماضی میں جتنے بھی نمائندے گزرے ہیں کسی نے سنجیدگی کے ساتھ بجلی سمیت دیگر مسائل کو حل کرنے کی کوششیں نہیں کیں ہیں بلکہ ہمیشہ سبز باغ دکھا کر حلقے کے لوگوں کو جیتنے کے بعد فراموش کر دیاہے

مقامی لوگوں کے لئے طورخم بارڈر روزگار کا واحد ذریعہ تھا لیکن اب وہاں بھی این ایل سی کو سارے اختیارات دیکر مقامی لوگوں کے ذریعہ معاش پر کلہاڑی چلا دی گئی ہے طورخم میں قائم مارکیٹیں برباد ہوگئیں،کاروبار ٹھپ ہونے کے قریب ہے اور ہزاروں مزدوروں فاقے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں بارڈر کے راستے لوگوں کے جائز پرانے کاروبار اور تجارت کو اسمگلنگ کا نام دیکر بند کر دیا گیا ہے

حالانکہ اسمگلنگ اب بھی ہوتی ہے لیکن غریب مقامی لوگ بارڈر کے راستے معمولی سامان لانے کی کوشش نہیں کر سکتے لنڈی کوتل میں غربت اور پسماندگی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ جو لوگ معمولی بھی استطاعت رکھتے ہیں وہ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تاریخی لنڈی کوتل بازار ہے جہاں 4 ہزار کے قریب دکانیں ہیں وہاں بھی اب سناٹا ہے دکاندار سارا دن گاہک کی راہ دیکھتے دیکھتے تھک جاتے ہیں مقامی مارکیٹوں میں دکاندار مالک مارکیٹ کو کرایہ ادا نہیں کر سکتے اور جو لوگ سودا سلف لیتے ہیں زیادہ تر ادھار پر لیتے ہیں منشیات انضمام سے پہلے کم تھیں اب بڑھ گئی ہیں

لوگ شاید رزق کمانے کے لئے اس خطرناک اور غیر قانونی دھندے کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں جس نے نوجوانوں کی زندگیاں برباد کر دیں ٹرانسپورٹ قبائلی عوام کا بڑا ذریعہ معاش تھی لیکن اب اس کا بھی پہیہ رک گیا ہے

ہر طرف ظالم اور استحصال کرنے والے مافیا کی صورت میں مسلط ہیں جنہوں نے غریب اور مجبور لوگوں کا ستیاناس کر دیا ہے شاید انہی سماجی اور معاشی مشکلات سے مجبور ہو کر نوجوانوں نے انتہاء پسندی اور منشیات کے راستے پر چلنا شروع کر دیا ہے مگر ظالموں کو یہ احساس نہیں کہ کسی غریب ور اورمجبور انسان کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا  ا کو ذاتی اور گروہی مفادات کے لئے ناجائز طور پر استعمال کرنا کتنا بڑا استحصال اور گناہ ہے لنڈی کوتل پہاڑوں کے دامن میں گھرا ہوا درہ اور خشک بے آب و گیاہ علاقہ ہے جہاں معاش کے کوئی مواقع نہیں سمجھدار ہیں وہ لوگ جو کچھ وسائل پیدا کرکے اپنے بچوں کو بیرون ملک بھیج کر روزگار پر لگاتے ہیں

لیکن اس کے لئے بھی کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں جو ایجنٹس نوجوانوں کو بیرون ملک بھیجوانے کا کام کرتے ہیں وہ بھی ایک نمبر دھوکے باز اور فراڈی ہیں اس لئے پورے ملک میں ماحول ایسا بن چکا ہے کہ بندہ کسی پر اعتماد نہیں کر سکتا میرے نزدیک اگر لوگ اپنے بچوں کو ہنر سکھانے اور ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے پر لگائیں تو وہ مستقبل میں کامیاب اور خوشحال ہونگے

ہمارے نظام تعلیم میں بہت نقائص اور کمزوریاں ہیں سرکاری تعلیمی اداروں کو تو چھوڑیں جو نجی تعلیمی ادارے ہیں وہ محض منافع بخش کاروباری ادارے ہیں جہاں سے کوئی کامیاب انسان بمشکل نکلے گا

دوسری تجویز یہ ہے کہ لنڈی کوتل کے سنجیدہ مشران، سیاسی اور سماجی تنظیموں کی قیادت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیات مل بیٹھ کر مسلسل ان مسائل کے حل اور امکانات پر غور کریں، اپنے لوگوں کی رہنمائی کریں،متعلقہ سرکاری محکموں کے ذمہ داران کے ساتھ مشاورتی نشستیں رکھیں تاکہ بہتر اور خوشحال مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کی جا سکے ہمارے پہاڑ بھی ہمارا سرمایہ ہیں جن سے مختلف قسم کے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں

اگر علاقے کی ذمہ دار اور بااثر شخصیات نے شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند رکھیں تو نئی نسل برباد ہوجائیگی اور ان کا مستقبل تاریک ہوگا ناامیدی اور مایوسی گناہ ہے لیکن اگر سمجھدار لوگوں نے نیک نیتی، قومی اور علاقائی جذبے کے تحت اپنے لوگوں کی رہنمائی نہیں کی اور اپنے علاقے کی ترقی کے لئے امکانات پر کام نہیں کیا تو پریشانیوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہو سکتا ہے پھر افسوس اور پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہیں۔