دیگر پوسٹس

تازہ ترین

طورخم بارڈر پر دو اداروں کے مابین تصادم کیوں ہوا ؟متضاد دعوے

طورخم(جبران شینواری ) طورخم نادرا ٹرمینل میدان جنگ بن گیا...

“سیاست سے الیکشن تک” !!

"سدھیر احمد آفریدی" بس صرف اس بات پر اتفاق رائے...

علی گروپ مشتاق غنی کو کابینہ سے باہر رکھنے میں کامیاب ؟

اسٹاف رپورٹ سابق اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق غنی...

اردو زبان کا عملی نفاذ نظرانداز کیوں ؟

لطیف الرحمن آفاقی

اسلام آباد

نفاذِ اردو کا مطلب!
آج کل قومی سطح پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ہماری قومی زبان اردو کو نافذ کیا جائے یعنی تمام اداروں کی خط و کتابت اردو زبان میں ہونی چاہیے۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب تمام اداروں میں اردو بطورِ دفتری زبان نافذ العمل ہونے کی صورت میں ہمیں کس قسم کے فوائد میسر ہوں گے؟

اسلام آباد میں تحریک نفاذ اردو کے زیر اہتمام اردو بطور زبان نفاذ کیلئے احتجاجی مظاہرہ

1- جس دن یہ فیصلہ ہوا اس دن کے بعد ہم اپنے آپ کو وارثین زبان کہلائیں گے یعنی اقوام عالم کے سامنے ہم اس بات پر فخر کریں گے کہ اردو ہماری زبان ہے جس کی بنیاد پر ہمیں اہلِ زبان تسلیم کیا جائے گا، ظاہر ہے ہمارے رموز ہیں، اوقاف ہیں، ادب ہے۔ تاریخ ہے، تہذیب ہے، ثقافت ہے، تمدن ہے، رسوم ہیں، رواج ہیں، یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے عہدِ جاہلیت میں بلادِ عرب کے لوگ اپنے آپ کو عرب یعنی اہلِ زبان اور دوسری اقوام کو عجم یعنی گونگے کہتے تھے۔ بدقسمتی سے آج ہم اقوامِ عالم کی نظر میں گونگے شمار ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے نمائندے وہاں اپنی زبان میں گفتگو نہیں کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

2- اکثر اوقات ہمارے بزرگ پوچھتے ہیں بیٹا یہ بتائیے کہ valentine’s Day کیاہے، father’s Day, mother’s day, teacher’s Day, women’s Day کا مطلب کیا ہے؟ ظاہر ہے جس شخص کے پاس جو معلومات ہوں گی وہ بزرگوں کی خدمت عالیہ میں پیش کرے گا، ذرا سوچئیے کہ اس سوال وجواب کے دوران ہماری تہذیب و ثقافت منتقل ہوگی؟ یا دوسروں کی تہذیب و ثقافت کے ہم مبلغ بنیں گے؟ کیا اس سوال وجواب کے دوران ہماری تہذیب و تمدن کے پروردہ Heros کا ذکرِ خیر ہوگا؟ یا دوسری ثقافتوں کے Heros کا تذکرہ ہوگا؟

3- جب کسی دینی خاندان کا بچہ Valentine’s Day یا کسی اور Day کا ذکر اپنے گھر میں کرتاہے تو اس دن مسجد کا خطیب ان رسومات کے خلاف خطبہ دیتا ہے یعنی غیر محسوس انداز میں ہمارے خطیب بھی دوسری ثقافتوں کے مبلغ بن جاتے ہیں۔

4- ظاہر ہے زبان کے اظہارات میں سے ایک لباس بھی ہے جب آپ کسی دوسری زبان میں بات کریں گے تو لازماً ان لوگوں کی طرح اپنے پہناوے کی طرف بھی متوجہ ہوں گے جب آپ ان کا لباس پہننے لگیں گے تو آپ کو اپنے بزرگوں کے پہناوے سے نفرت سی ہونے لگے گی، اکثر اوقات ہم یہ سنتے رہتے ہیں کہ فلاں گاؤں کے آفیسر کے ہاں جب ان کے ماں باپ گاؤں سے ملنے کے لیے آئے تو ان کے گھر شہری بابو کھانے پر مدعو تھے جب انہوں نے ان کے ماں باپ کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ تو بیٹے یا بہو نے فوراً جواب دیا کہ یہ ہمارے گھر کے نوکر ہیں۔

5- دوسروں کی زبان اختیار کرنے کی صورت میں ہم ان کے وہ الفاظ جو مختلف رشتوں کے لیے مخصوص ہیں انہیں روزمرہ کی گفتگو میں شامل کریں گے یعنی ابا حضور کی جگہ ڈیڈ، تایا ابو کی جگہ انکل وغیرہ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے خاندان سے حفظِ مراتب کے وہ تمام شیرین الفاظ کیوں چھوڑ رہیں جن کی وجہ سے ہماری گفتگو میں عظمت و رفعت پائی جاتی ہے؟ پھر جب ہمارے مخاطبین سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو فوراً اساتذہ کرام یا علمائے کرام سے گلہ کرتے ہیں کہ نوجوان نسل بد لحاظ و بد تہذیب ہے۔

اس طرز کے کئی اور تکالیف سے ہم روز گزرتے ہیں مگر ہمارے مقتدر حلقوں کو کیوں یہ احساس نہیں ہورہا ہے کہ ہم ممکنہ طور پر آنے والے وقتوں میں مختلف علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کی عصبیت کا شکار ہونے والے ہیں، اور ہمیں بڑی حکمت عملی کے تحت ایسے دلدل کی طرف دھکیل دیا جارہا ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اپنی صلاحیتوں کو متحدہ زبان وثقافت پر خرچ کرنے پر مجبور ہوں۔ ابھی وقت ہے اردو کو قومی زبان کے طور پر نافذ العمل کیا جائے تاکہ ہم اس طرز کے کئی تکالیف اور ثقافتی کثافتوں سے محفوظ رہیں۔