راحت ملک
——-
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے دو روز قبل تقریب سے خطاب کیا اور کہا کہ” ہمیں احساس ہوگیا ہے کہ اپنے گھرکو اندر سے خود سیدھا (درست )کئے بغیر باہر سے اچھائی کی توقع نہیں“
یہ تاریخی جملہ سات دہائیوں سے مرتب کئے گئے، ریاستی ذہنی رجحان میں بنیادی تبدیلی کا قدرے امکان روشن کرتا ہے ،جس کی مناسب طور پر توصیف واجب ہے۔

مضمحل مثلث کی پائیداری کا سوال !!!
پی ڈی ایم کے اجلاس کی مکمل کہانی
۔تمام ذرائع ابلاغ نے اس موقف کی تائید کی اسے خوش آئند قرار دیا ہے۔چونکہ یہ موقف پہلی بار عوام کے سامنے نہیں آیا،سیاسی قائدین سیاسی سماجی مدبر حلقے بہت عرصہ سے یہی کچھ کہہ رہے ہیں
بلکہ مطالبہ کرتے رہے ہیں چنانچہ آرمی چیف کی طرف ایسے بیانیہ پر سماج کے وسیع حلقوں کو خوشگوار حیرت ہوئی
حیرانی کا سبب یہ نہیں کہ منفرد اور اچھوتا خیال پہلی بار سامنے آیا ہے توجہ ،حیرت،توصیف وتنقید کے پہلو آرمی چیف کی جانب سے اس نوعیت کا موقف اپنانے پر ہے۔
قبل ازیں جب بھی کسی بھی سطح پر اس طرح کا موقف بیان ہوا ،عسکری قیادت نے اسے رد کیا تھا ،سابقہ دور حکومت میں ڈان لیکس دراصل ایسے ہی صائب منشور کا نام تھا

جس کی پاداش میں پہلے وفاقی وزیر اطلاعات اور بعد ازاں وزیراعظم کو گھر کا راستہ دکھایا گیا۔ ڈان لیکس کی رپورٹ پر وقت کے منتخب وزیراعظم کے فیصلے کو ایک آفس نے ٹویٹ کے ذریعے ببانگ دہل ریجیکٹ کیا تھا۔
بہر حال دیرآید درست آید کے مصداق اس تبدیلی کو سراہا ہی جانا چاہیے ۔ سخنور تو ایسی صورتحال کی تصویر بہت پہلے بیان کرچکے
گھر کی تعمیر چاھے کیسی ہو۔
اس میں رونے کی کچھ جگہ رکھنا
ایسا ہرگز نہیں کہ مذکورہ موقف اچانک اپنایا گیا ہے ۔میرے خیال میں یہ موقف چونکہ تاریخ کے ہر مرحلے میں درست اور ملکی سیاسی بیانیے پر ہمیشہ سے موجود تھا تو یقینا مدلل بھی تھا

اور جب ملک کے چیف ایگزیکٹو سابق وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے انتہائی اہم حکومتی اجلاس میں اس کا برملا اظہار ہو چکا تو اظہاریئے کو آئینی تناظر میں قومی سلامتی ودفاع کی حکمت عملی تشکیل دینے کی مجاز اتھارٹی کے حکم کے مترادف سمجھتا رہا ہوں جسے تب قبول کرنے سے نجانے کیوں انکار کیا گیا تھا ؟
قبل ازیں اسی ماہ وزیراعظم بھی بھارت کو امن مذاکرات کے لئے اپیل کرچکے ہیں انہوں نے درست طور پر خطے میں پائیدار امن کے قیام کو علاقائی استحکام وترقی کے لئے ناگزیر قرار دیا ہے اور یہ بھی بجا ہے کہ اس سمت آگے بڑھنے کے لئے انہوں نے بھارت کو پہل کاری کا کہا تھا۔
گلگت بلتستان اسمبلی کی انتخابی مہم میں عوامی جلسہ سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق حکومت کے مسلسل روایتی موقف سے آگے بڑھتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ” کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد اگر خود مختاری چاہیں گے تو پاکستان اس کی پذیرائی کرے گا۔”
قارئین، وزیراعظم عمران خان سرکاری دورے پر جب واشنگٹن گئے تھے تو انکے امریکہ پہنچنے سے دو روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب امریکہ میں موجود تھے۔
اس دورے کے موقع پر امریکی روایت کے برعکس انہیں سربراہ مملکت کا استقبالی پروٹوکول دیا گیا تھا اس دورے میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد جناب عمران خان نے مسئلہ کشمیر جلد حل ہوجانے کا پرجوش عندیہ دیا تھا
اور امریکہ صدر کی ذاتی کوشش وخواہش پر اپنے امید پرست بیان کا انحصار کیا تھا۔
بعد ازاں انہوں نے نریندر مودی کی انتخابی کامیابی کو دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے خوش کن امید قرار دیا تھا ۔تب میں نے لکھا تھا کہ اس دورے میں کشمیر کے متعلق واشنگٹن، دھلی اور اسلام آباد کسی غیر روایتی حل پر متفق ہوگئے ہیں”
بھارتی جنتا پارٹی نے انتخاب جیتا تو
2019ءمیں نریندرمودی نے بھارتی آئین کی شق370 ختم کرکے بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی خودمختارحیثیت ختم کردی
یوں بھارتی سرکارنے مقبوضہ جموں وکشمیر کو باضابطہ طور پربھارتی یونین کا حصہ بنالیا۔
دلچسپ نکتہ یہ ہے اس آئینی ترمیم کے بعد بھی بھارتی آئین میں درج انڈین یونین کے جغرافیائی حدود میں ردوبدل نہیں کیا گیا۔
اس اقدام پر کشمیر کے اندر ہونے والی مزاحمت اپنی جگہ،لیکن اسلام آباد کی طرف سے محض روایتی سفارتی احتجاج کے ساتھ بھارتی اقدام کو مسترد کیا تھا۔
شاید تاریٰخ میں یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستان کی جانب سے عملی طور پر شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے تھا۔
مگر حکومت پاکستان نے امن پسندی کے اصول کی چادر اوڑھ کر بھارت کے خلاف اپنے ممکنہ عملی رد عمل کے تمام خدشات دور کردیئے تھے۔
میرا خیال ہے واشنگٹن میں طے پانے والے ممکنہ یا مبینہ اتفاق رائے کے مطابق یہی کچھ کیا جانا طے ہوا ہوگا۔!!!
اس بات کا امکان ہے کہ اب بھارت کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کا راستہ کھل سکے کیونکہ پاکستانی ہیئت حاکمہ نے کشمیر کے سوال کی ترجیح بدل دی ہے اب باہمی دو طرفہ تجارت اور تعاون کے ساتھ خطے میں ترقی وخوشحالی کو فوقیت دینے کا عندیہ ظاہر ہوا ہے۔
اطلاعات کے مطابق دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ کی جلد ملاقات ممکن ہے۔اصولاً مجھے اس سے تغیر یا بہتری سے اختلاف ہے نہ ہی میں ایسے اقدامات کا ناقد ہوں
،بلکہ ایک مدت سے خطے میں امن سلامتی استحکام اور ترقی وخوشحالی کے لئے دونوں ممالک میں بامقصد بات چیت کا حامی رہا ہوں
میری رائے میں کشمیر کا تنازعہ تمام متعلقہ فریقین کے لئے اطمینان بخش طور پر حل کئے جانے کی ایک ممکنہ سبیل یہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی،معاشی تعلقات باہمی اعتماد اور دونوں اطراف کے عوام کے درمیان رابطوں کے ذریعے ایسی معروضی فضاء پیدا ہوسکتی ہے
جو استوار شدہ باہمی دو طرفہ تعاون کو مستحکم تر کرنے کے لئے کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور کے پائیدار حل کی جانب بڑھنے کی ٹھوس بنیاد مہیا کرے۔
اس جانب بڑھتے ہوئے اگر دونوں ممالک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ بھی کر لیں ( جس کی بازگشت صحافتی حلقوں میں سنائی دے رہی ہے) تو یہ ایک بہترین پیشرفت ہوگی قرائن و آثار بھی یہی بتا رہے ہیں ،
تو خطے کے تمام اہم مراکز اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات سے پاک باہمی تعاون پر مبنی دوطرفہ تعلقات کی موجودگی میں سی پیک جیسے اہم منصوبے کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو عبور کیا جاسکتا ہے۔
سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور ان مقاصد کے حصول کے لئے اولین طور پر اپنے گھر کو سیدھا کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کے معنی ملک کو آئین و پارلیمنٹ کے مطابق چلانے کے عہد کی تجدید و پابندی کے سوا کچھ نہیں ۔
چنانچہ خارجہ پالیسی میں مذکورہ تغیر وتبدل کا اظہار اگر حکومتی سطح پر ہوتا اور آرمی چیف اس کی خاموش تائید کرتے تو یہ تاثر پختہ تر ہوتا کہ شاید اب احساس کرلیا گیا ہے کہ تمام محکمے اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض منصبی ادا کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔
افسوس پالیسی یا مائنڈ سیٹ میں اصلاح کی بات جہاں سے سنائی دی ہے اس سے یہ خوشگوار تاثر از خود متاثر ہوا ہے کہ ملک میں فیصلہ سازی کا مرکز پارلیمان کی بجائے کوئی اور مقام ہے جسے دستور پاکستان اس کی اجازت نہیں دیتا ۔نہ کچھ طے فیصلہ کرنے کی نہ ہی طے شدہ کو رد کرنے کی۔
چونکہ آرمی چیف کے بیاں کا ابتدائی حصہ ماضی کے رویے سے رجوع کا عمل ہے اس لیے اسے اعترافی جواز کے حوالے سے قابل پذیرائی کے امید اس بیان پر من و عن لفظی و معنوی طور پر روبہ عمل لایا جائے گا ۔