عمران حیدر تھہیم

تادمِ تحریر K2 پر مُہم جُوئی کےلیے آئی نیپال کی مشہور کمپنی سیون سمٹ ٹریکس (SST) چھانگ داوا شرپا کی قیادت میں K2 بیس کیمپ سے اپنی بساط لپیٹ کر واپس سکردُو روانہ ہو چُکی ہے لیکن پاکستانی ٹُور آپریٹر جیس میں ٹُورز کی ٹیم لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش کےلیے سرچ اینڈ ریسکیو SAR ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہے۔ انتظامیہ اور آرمی کی مدد سے کیے جانے والے آپریشن کے مستقبل پر K2 کے خراب موسم نے غیر یقینی کی دبیز چادر اُوڑھ رکھی ہے۔
اِس مرحلے پر دُنیا بھر کے شائقین بالعموم اور پاکستانی قوم بالخصوص بے چینی اور اضطراب کی کیفیت میں مُبتلا ہیں اور سب کے ذہنوں میں اَن گِنَت کے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ چنانچہ مَیں اِس تحریر میں کوشش کرونگا کہ چند اِنتہائی اہم سوالات کے جوابات تلاش کیے جائیں۔

کے ٹو سد راہ ،سدپارہ کی واپسی کی امیدیں دم توڑنے لگیں‌

کیا لاپتہ کوہ پیما زندہ ہیں؟نفسیات دانوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی حقیقت کو تسلیم کرنے میں انسان بُنیادی طور پر جذباتی ہے اور ابتدا میں وہ حالتِ انکار یعنی کا شکار لازمی ہوتا ہے۔ اور اگر مزید غور کیا جائے تو ہمارا کلچر اور عقیدہ بھی کسی حد تک ہمیں state of denial میں ہی رکھتا ہے۔ لہٰذا ایک عام پاکستانی کے ذہن کے مطابق علی سدپارہ اور اُسکی ٹیم مُعجزاتی طور پر ڈیتھ زون میں ایک برف کا غار بنا کر رہ رہی ہے اور ریسکیو ٹیم کی منتظر ہے۔ حتّیٰ کہ کچھ لوگوں کو تو خواب میں بھی علی سدپارہ نظر آ چُکے ہیں۔ کچھ نے روحانی عامل سے حساب کروایا ہے جسکے مطابق تاحال تینوں لاپتہ کوہ پیما زندہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔

بَدقسمتی سے یہ باتیں افسانوی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلّق نہیں۔
یہاں بیان کرتا چلوں کہ اِسی طرح کے ایک واقعہ میں 2015 میں پاکستان کے تین نوجوان کوہ پیما آزاد کشمیر کی سب سے اُونچی چوٹی Toshe Ri -1 پر لاپتہ ہوئے تھے اور 9 دن کی کوشش کے بعد بھی نہ مِل سکے جسکے بعد تلاش ختم کردی گئی۔ اُسوقت مَیں نے ریسکیو مشن کی قیادت کرنے والے پاکستانی کوہ پیما کرنل عبدالجبار بھٹی صاحب کو فون کیا اور عرض کی کہ سر اب تو ہمارے اِن تین ساتھیوں کی موت کا اعلان کر دیا جانا چاہییے تاکہ کم از کم اُنکی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جاسکے آپ اُنکے لواحقین سے بات کرکے ان کی موت کا آفیشل اعلان کردیں۔
کرنل صاحب نے فرمایا کہ ہمارے کلچر اور معاشرے میں ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ وارثان ابھی تک اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ زندہ سلامت واپس آجائیں گے۔ مَیں اُن لواحقین کے ساتھ ایسی بات نہیں کرسکتا یہ مُناسب نہیں ہے۔ کرنل صاحب کی اِس وضاحت کے بعد مَیں نے بھی سوشل میڈیا پر اس بابت مزید کوئی بات نہ کی اور قصداً خاموش رہا۔ لیکن اُن کوہ پیماؤں کا آج تک سُراغ نہیں مِل سکا۔
یہ تو ہے اسوقت ایک عام پاکستانی کی سوچ کا انداز ۔
دوسری طرف اِسی معاملے کو اگر پاکستان کی ٹورازم، ایڈونچر اور کلائمبنگ کمیونٹی کے کسی بھی نوآموز کھلاڑی کے نکتہ نظر سے دیکھیں. جب 6 فروری کی صُبح کو ساجد سدپارہ نے کیمپ 3 سے نیچے کی طرف اُترنا شروع کر دیا تھا اُنہیں تب ہی اندازہ ہو چُکا تھا کہ لاپتہ کوہ پیما اب زندہ نہیں رہے۔ 5 فروری کی صُبح 10 بجے bottleneck section کے آس پاس 8200 میٹر یعنی ڈیتھ زون میں آخری بار دیکھی گئی علی سدپارہ کی ٹیم اِتنی بُلندی پر اگر قدرتی حادثے کا شکار ہو کر کسی برفانی تودے میں لُڑھک گئی تھی تو زیادہ سے زیادہ 12 گھنٹے یا اگر سمٹ کرکے واپسی پر شام کے وقت حادثے کا شکار ہوئی تھی تو زیادہ سے زیادہ 6 فروری کی صُبح تک زندہ رہ پائی ہوگی۔ یہ باتیں کوہ پیمائی کے کھلاڑیوں کو بُنیادی تربیت کے پہلے سبق میں ہی بتلا دی جاتی ہیں کہ پہاڑ پر قدرتی آفات یا حادثے کے کیا کیا خطرات ہوتے ہیں۔
چنانچہ اب بھلے آپ مُجھے قنوطیت پسند ہی سمجھیں مَیں وہ بات کہہ ہی دیتا ہوں جو 6 فروری کی صُبح سے ہماری کمیونٹی کے کلائمبرز کہنے سے ہچکچا رہے ہیں اور وہ یہ کہ علی سدپارہ، جان سنوری اور جے۔پی موہیر کی کے۔ٹو کے ڈیتھ زون میں ڈیتھ ہو چُکی ہے اور اب صرف ڈیڈ باڈیز کی تلاش جاری ہے۔ یہی بات ساجد سدپارہ نے 6 فروری کی شام کو میڈیا پر کہہ دی تھی لیکن لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ ساجد سدپارہ چونکہ حالت صدمہ میں ہیں اس لیے وہ یہ بیان دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بے شک ساجد اپنے باپ کی جُدائی کے صدمے سے دوچار ہے تاہم وہ درست کہہ رہا تھا کہ ڈیڈ باڈیز تلاش کرنے کی کوشش ہونی چاہییے۔ یاد رہے کہ ساجد سدپارہ کی رگوں میں علی سدپارہ کا ہی خُون دوڑ رہا ہے جبھی تو وہ اپنے ہوش و حواس قابو میں رکھ کر کیمپ 3 سے سیدھا بیس کیمپ تک بغیر کسی مدد کے اُتر آیا۔ یہ اُسکے عزم و ہمّت کی ایک الگ داستان ہے جو کوہ پیمائی کی لازوال تاریخ کا حصّہ بن چُکی ہے۔

کیا کے۔ٹو حادثے کی تحقیقات ہونی چاہییں؟
دُنیا بھر میں جہاں بھی کوہ پیمائی کے ایسے واقعات ہوتے ہیں جن میں کوہ پیماؤں کی جان چلی جائے وہاں واقعے کی تحقیقات تو ہوتی ہیں لیکن وہ criminal investigations کی طرح نہیں ہوتیں بلکہ صرف اِس زاویے سے کی جاتی ہیں کہ اصل وجوہات جان کر آئندہ کےلیے اُس سے بچا جا سکے۔ کیونکہ کوہ پیما اس حقیقت کو تسلیم کرکے ہی پہاڑ پر مُہم جُوئی کا آغاز کرتے ہیں کہ اِس کھیل میں اُنکی جان بھی جاسکتی ہے جسکا ذمّہ دار کسی ٹُور آپریٹر یا ساتھی کلائمبرز کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
گو کہ پاکستان میں عموماً کوہ پیمائی کو غیرضروری سمجھ کر اِس شعبے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جاتی رہی لیکن کے۔ٹو واقعے نے عام پاکستانی تک کو اندر سے ہِلا کر رکھ دیا ہے اور آج مُحمّد علی سدپارہ ہر طبقے کے افراد کی دُعاؤں میں زندہ ہے۔ لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ عوام کو اِس بے چینی اور اضطراب کی کیفیت سے نکالنے کےلیے اس واقعے کی مُفصّل تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔ اگر گلگت۔بلتستان حکومت نے اس بابت کوئی فیصلہ کرلیا ہے تو یہ انتہائی خُوش آئند بات ہوگی وگرنہ میری طرف درخواست ہے کہ اس بارے ضرور سوچا جائے کیونکہ یہ چیز پاکستان میں کوہ پیمائی کی ترویج کے مستقبل کا تعین کرے گی۔
واقعے کی مزید کھوج کےلیے آئیے اب ہم K2 کی موجودہ سرمائی مُہم جُوئی کی ٹائم لائن کا ایک واقعاتی ترتیب کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔
آج سے ایک سال قبل جان سنوری سیزن 2019-2020 کے موسمِ سرما کی K2 مُہم جُوئی پر آیا تھا۔ اُسکے ساتھ ایک نیپالی کوہ پیما مشہورِ زمانہ منگما جی شرپا، ایک چائینیز کلائمبر غیر مُلکی ممبران کے طور پر جبکہ ایک پاکستانی نوجوان کوہ پیما سربازخان شامل تھے۔ ایک سال قبل 5 فروری 2020 کے دن ایک آرٹیکل Explorer’s Web میں شائع ہوا جس کیمطابق جان سنوری کی مُہم جُوئی ختم کردی گئی تھی اور وہ ایک مُبّینہ ریسکیو مشن کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو ہو کر سکردُو روانہ ہو گئے۔ جبکہ پاکستانی کوہ پیما سربازخان اور باقی ماندہ ٹیم کنکارڈیا کے رستے پیدل سکردُو روانہ ہو گئی۔ جان سنوری نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ناراضی پر مبنی ایک پوسٹ کی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ منگما جی اور جان سنوری کے درمیان معاملات میں تلخی پیدا ہو چُکی تھی۔
سال 2019-2020 کا سرمائی سیزن کامیابی کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔ کیونکہ ایک اور اہم مُہم جُوئی میں پولینڈ کے نامور کوہ پیما ایلکس تشیکون بھی 7000 میٹرز سے آگے نہ جا سکے تھے۔
سال 2020-2021 کے سرمائی سیزن کےلیے جان سنوری نے علی سد پارہ کے ساتھ ٹیم بنائی اور پرمٹ کیمطابق جان سنوری K2 کو سردیوں میں سر کرنے کی کوشش کےلیے مُحمّد علی سدپارہ اور اُسکے بیٹے ساجد علی سدپارہ کے ساتھ بطور High Altitude Porter معاہدہ کر لیا.
5 دسمبر 2020 کو یہ لوگ K2 بیس کیمپ پہنچے اور باقاعدہ مُہم کا آغاز کردیا۔ اگر آپ جان سنوری کے فیس بُک پیج کی وال پر 5 دسمبر 2020 سے لیکر 10 جنوری 2021 تک کی updates دیکھیں تو آپ کو اندازا ہوگا کہ اِس دوران اُنہوں نے کس رفتار سے rope fixing اور اپنی acclimatization rotation پُوری کی۔ اُدھر اِسی دوران نیپالی شرپا کرسمس یعنی 25 دسمبر کے بعد 3 الگ الگ ٹیموں میں نیپال سے آتے ہیں اور مُہم جُوئی کا آغاز کر دیتے ہیں۔ چونکہ وہ مُکمّل تیّاری کے ساتھ نیپال سے ہی آراستہ ہو کر آئے تھے اِس لیے اُنکی مُہم جُوئی کی رفتار تیز رہی۔ موسم کے کچھ مسائل کا شکار ہونے کے باوجود وہ تمام فٹنس کی بہترین حالت میں 3 ٹیموں کو ایک ٹیم میں یکجا کر کے 10 نیپالی شرپا پر مشتمل کوہ پیماؤں ٹیم بناتے ہیں اور سال کی پہلی weather window جو کہ 14 تا 17 جنوری کی پشین گوئی پر مشتمل تھی اُس میں مہم کے آغاز کا اعلان کر دیتے ہیں۔ لیکن تعجّب کی بات یہ ہوتی ہےکہ جان سنوری باوجود اس کے کہ اُسکی ٹیم بھی مُکمّل ہو چُکی تھی اپنی مہم شروع کرنے کا اعلان نہیں کرتے۔ شاید اُسکی وجہ یہ تھی کہ شرپا ٹیم میں منگما جی شرپا بھی شامل تھا جس کے ساتھ جان سنوری کی پچھلے سال سے ناراضی چل رہی تھی اور جان سنوری یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ نیپالیوں کی ٹیم کے ساتھ ساتھ اپنی سمٹ چلائے۔ عین ممکن ہے جان سنوری نے موسمی حالات کے پیشِ نظر یہ اندازہ لگایا ہو کہ اس موسم میں نیپالیوں سے سمٹ نہیں ہوگی لہٰذا اُسکے بعد وہ اگلے مرحلے میں چلا جائے گا۔ وگرنہ تو اور کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ جان سنوری اُس مہم میں کوشش نہ کرتا. اور نیپالیوں کی سمٹ کے صرف 5 دن بعد اُس نے 23 جنوری کو اگلی weather window میں ہی مہم شروع کردی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ اُدھر شرپاؤں کی ٹیم میں منگما جی شرپا نے اعلان کیا ہُوا تھا کہ وہ بغیر آکسیجن کے کے۔ٹو کو سر کرے گا لیکن وہ تو ایسا نہ کرسکا تاہم نرمل پُرجا نے دعویٰ کیا کہ اُس نے بغیر آکسیجن کے کے۔ٹو کو سردیوں میں سر کیا ہے تاہم یہ دعویٰ ابھی تک مشکوک ہی سمجھا جارہا ہے کیونکہ نرمل پُرجا کا آکسیجن کے استعمال نہ کرنے سے متعلق پہلے بھی ایک دعویٰ جھوٹا ثابت ہو چکا ہے۔ بہرحال اس متعلق آنے والے دنوں یا مہینوں میں نئی کہانی سامنے آ سکتی ہے۔
نیپالیوں کی سمٹ کے بعد جان سنوری کےلیے ایک ہی دلچسپی بچی تھی کہ وہ اپنی ٹیم کیساتھ بغیر آکسیجن کے یہ کارنامہ سرانجام دے۔ یہاں یہ انتہائی اہم اور قابلِ ذکر ہے کہ نیپالی اپنے ساتھ 50 سے زیادہ مہم جوئوں کو بھی لیکر آئے تھے جسکی قیادت SST Company کے چھانگ داوا شرپا کر رہے تھے۔ اِس نیپالی کمپنی نے مہم جوئوں کےلیے 3 سے 5 فروری والی weather window میںمہم کا اعلان کر دیا۔ جان سنوری نے بھی یہی اعلان کردیا۔ یُوں پہلے SST کی مہم کا آغاز ہوا اور اُسکے چند گھنٹوں بعد جان سنوری، علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ سمیت اپنی ٹیم کو لیکر 3 فروری کی شام کو روانہ ہوئے۔ 3 اور 4 فروری کی درمیانی رات 25 کے قریب SST کے کلائمبرز کے علاوہ تمارا لونگر اور جے۔پی موہیر ایک الگ ٹیم کے طور پر اور تیسری جان سنوری کی ٹیم، یہ سب لوگ آگے پیچھے کلائمب کرتے رہے اس دوران اُنکے ٹریکرز کی لوکیشنز دُنیا بھر کے شوقین اپنے موبائیل فونز اور لیپ ٹاپس پر چیک کرتے رہے۔
4 فروری کے دن بھی مہم جاری رہی اور اُسی شام اطلاع ملی کہ 3 مختلف expeditions کے 30 کے قریب کوہ پیما کیمپ 3 پر 7300 میٹر کی بُلندی پر پہنچ چُکے ہیں لیکن حیران کُن طور پر وہاں SST کی طرف سے خیمے نصب نہیں ہیں اور صرف 3 خیموں میں 25 کوہ پیماؤں کا ٹھہرنا ناممکن ہے۔ اِتنی بُلندی پر کُھلے آسمان تلے بغیر خیمے کے بغیر آرام کیے رات کے وقت آخری مرحلے کےلیے نکلنا ایک ناممکن اور جان لیوا کام بن چُکا تھا۔ اُدھر جان سنوری کے خیمے میں جان سنوری، علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ آرام کر رہے تھے جنہوں نے اُسی رات 11 بجے یعنی 4 اور 5 فروری کی درمیانی رات سمٹ کےلیے نکلنا تھا۔ 7300 میٹر پر اِس خطرناک صُورتحال کے سبب جان سنوری نے تمارا لونگر اور جے۔پی موہیر کو پناہ دی جبکہ باقی یورپیئن کلائمبرز اور شرپاؤں نے واپس نیچے جانے کا ارادہ کیا اور اترنا شروع کردیا۔ 2 کلائمبرز کو تھرڈ ڈگری کی شدید frost-bite شروع ہو گئی جبکہ تمارا لونگر K2 کو سردیوں میں سر کرنے والی پہلی خاتون کوہ پیما بننے کے خواب کو ترک کرکے نیچے اُترنا شروع ہوگئی۔ اُسکا ہمراہی جے۔پی موہیر آگے جانے کےلیے جان سنوری کی ٹیم کا حصّہ بن گیا۔ SST کے باقی تمام client climbers اور نیپالی شرپا نیچے اُتر گئے جبکہ جان سنوری ٹیم اور جے۔پی موہیر نے رات 11 بجے سمٹ کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ رات کے وقت جان سنوری کے گارمین ٹریکر نے گڑبڑ شروع کردی اور اُنکی لوکیشن کبھی 7500 میٹر اور کبھی یکدم 7800 میٹر اور کبھی دوبارہ 7300 میٹر ظاہر کرنے لگی۔ سوشل میڈیا پر شائقین نے ٹریکر کی پیروی بند کردی اور بیس کیمپ پر موجود سنوری کی مینیجمنٹ ٹیم کی پیروی شروع کردی۔ 5 فروری کی صُبح سے شام تک گُومَگُو کی کیفیّت جاری رہی جسکے بعد شام 5 بجے خبر آئی کہ ساجد سدپارہ bottleneck section سے آکسیجن ریگولیٹر میں خرابی کے باعث واپس آگیا یا بھیج دیا گیا ہے اور اُس کا جان سنوری، علی سدپارہ اور جے پی موہیر پر مبنی ٹیم کے ساتھ آخری رابطہ 5 فروری دن 10 بجے ہوا تھا جب وہ 8200 یا 8300 میٹر پر تھے اور ٹھیک حالت میں تھے۔ اِس آخری رابطے کے بعد نہ تو ساجد کا اُن سے دوبارہ رابطہ ہوا اور نہ ہی کسی جانب سے تینوں کوہ پیماؤں کی کوئی خیر خبر مِلی۔ جبکہ نیچے اُترنے والے کوہ پیماؤں میں سے ایک بلغارین کوہ پیما اُترائی پر پِھسل کر گِر پڑا اور جاں بحق ہوگیا۔ باقی سب لوگ جان بچا کر بیس کیمپ پہنچ گئے جبکہ ساجد سدپارہ 5 اور 6 فروری کی درمیانی رات تمام وقت تینوں کوہ پیماؤں کی واپسی کا انتظار 7300 میٹر کیمپ 3 پر کرتا رہا اور بالآخر 6 فروری کی صُبح نااُمید نیچے کی طرف اُتر آیا اور شام تک بیس کیمپ پہنچ گیا۔
مندرجہ بالا واقعات کے تناظر میں چند اہم سوالات ذہن میں اُٹھتے ہیں جن کی تحقیقات ضروری ہے۔ آئیے اُن پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں

1. نیپالی کمپنیSST پاکستان میں اِتنی زیادہ تعداد میں clients لیکر آ تو گئی لیکن کیا اِس بارے انتظامات کا جائزہ لیا گیا تھا کہ کیا اِس سال مُہم جُوئی پر آئی تمام ٹیموں کے کُل 60 کے قریب کوہ پیماؤں کےلیے ایسے شدید ترین موسم میں abruzzi spur پر انتظامات مُکمّل ہیں یا نہیں؟ کیونکہ K2 کی دو کیمپ سائیٹس یعنی C1 اور C2 پر زیادہ سے زیادہ 7 یا 8 خیمے نصب کرنے کی جگہ ہے جہاں اگر 60 کوہ پیما ایک ساتھ چڑھ جائیں گے تو اُنکا وہاں قیام ناممکن ہو جائے گا مگر اِس صُورتحال کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مُہم جُوئی پر آئے تمام کوہ پیما weather widow کے مطابق چلتے ہیں اور اُسی دوران summit push کرنا ہوتی ہے۔
2. جب 10 نیپالی شرپا سمٹ کرکے واپس نیپال جا چُکے تھے اور SST نے اپنے client climbers کو اگلی weather window میں کوہ پیمائی کروانی تھی اور جب 3 فروری والی weather window میں مہم شروع کرنے کا فیصلہ ہوا تو کیا اُسوقت SST کی شرپا ٹیم نے اس تازہ summit push کےلیے رسّی کی نئی فکسڈ لائن نصب کی تھی؟ اور اگر کی تھی تو کیا رسّیوں کو فارورڈ شرپا ٹیم نے چیک کیا تھا کہ ایسی غیر متوقع تعداد کی summit push کےلیے یہ رسّی چڑھنے والے تمام کوہ پیماؤں کا بُوجھ سہار پائے گی یا نہیں؟
3. اُس دن SST کے client climbers کیمپ 3 پر پہنچے اور وہاں خیمے نصب نہ تھے، تو کیا شرپاؤں کی فارورڈ ٹیم نے تعداد کے مطابق ہی خیمے نصب کیے تھے اور تمام clients کے قیام کا انتظام پُورا تھا؟ کُل کتنے خیمے نصب تھے؟ اور اگر خیمے پُورے تھے لیکن اُن کو ہوا اُڑا کر لے گئی تو پھر ایمرجنسی میں کوہ پیماؤں کے قیام کا مُتبادل یعنی back-up plan کیا تھا؟
4. کیمپ 3 پر خیموں کی کمی کے باعث تین کوہ پیماؤں کو frost-bite(کہرزدگی) لاحق ہوئی اِس بَدانتظامی کا ذمّے دار کون ہے؟
5. جان سنوری ٹیم کو انسانی ہمدردی کے تحت اپنے خیمے میں گنجائش سے زیادہ لوگوں کو پناہ دینا پڑی جس کے باعث وہ summit day کےلیے مُناسب آرام نہ کر سکے۔ ممکن ہے اگلے دن اسی بے سکونی اور تھکاوٹ کی وجہ سے وہ اضمحلال کا شکار ہو کر گِر پڑے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو پھر اِس سنگین کوتاہی کا ذمّہ دار کون ہے؟
6. بلغارین کوہ پیما اَتاناس سکاتوف کے ساتھی نے بلغارین ٹی۔وی کو انٹرویو میں بتلایا ہے کہ اَتاناس رسّی ٹُوٹ جانے کے باعث گِر کر جاں بحق ہُوا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کیا اِس کوتاہی کا ذمّہ دار SST کے شرپا نہیں؟ جنہوں نے رسّی یا تو لگائی ہی نہیں اور اگر لگائی تو اُسکی گنجائش بالکل بھی clients کی تعداد کے مطابق نہیں تھی۔ اِس کا تعین کیا جانا چاہیے۔
7. سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جس طرح کیمپ 3 تک رسّی متاثرہ تھی کہیں اُسی طرح ڈیتھ زون سے اُوپر والی فکسڈ لائن بھی بوسیدہ یا بیکار تو نہیں تھی یا جان بُوجھ کر خراب کردی گئی تھی تاکہ اُنکے بعد کم از کم اِس سال کوئی سمٹ نہ کر سکے۔ اور K2 کی موسم سرما مہم صرف نیپالیوں کے حصّے میں آئے تاکہ وہ پاکستان میں بھی کوہ پیمائی کی انڈسٹری کو قابو کرکے اپنے کاروبار کو دوام بخشیں جس طرح وہ نیپال میں کر رہے ہیں۔ میری رائے میں اِس امکان کو بالکل بھی ردّ نہیں کرنا چاہییے کیونکہ جان سنوری کی تو پہلے سے ہی شرپاؤں کے ساتھ ناراضی چل رہی تھی۔
بہرحال چونکہ ہمارا ایک بہت بڑا کوہ پیما اور نہ صرف قومی بلکہ کوہ پیمائی کا بین الاقوامی ہیرو اِس واقعے میں ہمیں داغِ مفارقت دے گیا ہے لہٰذا اب وہ چاہے نیپالی ہو یا کوئی اور، اگر اس حادثے کا ذمّہ دارہے تو سامنے لایا جانا چاہیے اور اگر کوئی نیپالی کمپنی مُجرمانہ اور پیشہ ورانہ غفلت کی مُرتکب ہوئی ہے تو مُستقبل میں اُس پر پاکستان میں آپریٹ کرنے پر پابندی عائد کرکے تادیبی کارروائی کی جانی چاہییے۔

اِن تمام مندرجہ بالا حالات و واقعات کی روشنی میں میرا پاکستان کے ایک عام شہری اور کوہ پیمائی کے ایک جونیئر کھلاڑی کی حیثیت سے گلگت بلتستان حکومت سے مطالبہ ہے کہ جب تک اِس واقعہ کی مُکمّل تحقیقات نہیں ہو جاتیں اُسوقت تک K2 کی کوہ پیمائی پر عارضی پابندی عائد کر دی جائے۔ اور جیسا کہ مَیں اِس تحریر کے ابتدا میں عرض کرچُکا ہوں کہ ایسے واقعات کی criminal investigations نہیں کی جاتیں لیکن ایک حقائق تک پہنچنے کیلئے ٹھوس تفتیش تو کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ جتنی جلدی ممکن ہو ایسی ہی ایک انکوائری کا آغاز کیا جائے اور قابلِ اعتبار حقائق سامنے لاکر مُحمّد علی سدپارہ کی فیملی سمیت ہم تمام پاکستانیوں کو اضطرابی کیفیّت سے نکالا جائے۔
آئندہ مَیں ایک الگ مضمون میں ایک الگ انداز سے اپنا تجزیہ پیش کرونگا کہ تینوں لاپتہ کوہ پیماؤں کی ڈیڈ باڈیز کی تلاش کےلیے سرچ آپریشن کیسے کیا جاسکتا ہے اور اِس واقعہ کی تحقیقات کن پیرامیٹرز یا ضوابط کے تحت کی جائیں تو کامیاب ہو سکتی ہیں۔ گلگت۔بلتستان حکومت دونوں اہداف کو ایک ساتھ کیسے حاصل کر سکتی ہے۔
میری اگلی تحریر کا انتظار کیجیے۔
وما علینا الا البلاغ۔۔۔۔



عمران حیدر تھہیم گذشتہ دس سال سے کوہ پیمائی اور مہم جوئی کے شعبہ سے وابستہ ہیں ،اور اس حوالے سے اپنی ایک منفرد اور مستند رائے رکھتے ہیں ،


 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے