سیف اللہ تنولی
چترال کا ہنر مند جو لکڑی کے ٹکڑوں کو زندگی کا رنگ دینے کا ہنر رکھتا ہے.

ضلع چترال کی خوبصورت وادی بمبور کے علاقے کالاش گام سے تعلق رکھنے دونوں ٹانگوں سے معذور رحمت ولی سکول کی تعلیم سے محروم رہے لیکن اپنے ہنر کو انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا .وہ کسی بھی چیز کو دیکھ کر اسکی ہو بہو نقل بنانے کا قدرتی ہنر رکھتے ہیں۔ انہوں یہ فن باقاعدہ طور پر کسی سے سیکھا نہیں بلکہ چھوٹی عمر سے ہی لکڑی سے مختلف چیزیں بنانے کی کوشش کرتے رہے پھر آہستہ آہستہ انہیں لکڑی کو مجسموں اور دیگر اشیاء کے قالب میں ڈھالنے پر دسترس حاصل ہو گٸی ۔
ن
انہوں نے اے سی پی کو بتایا کہ اس وقت ان کی عمر تقریبا چالیس سال ہے وہ اپنی ٹانگوں کی معذوری کی وجہ سے سکول نہیں پڑھ سکے۔ گھر پر بیٹھے اکتا جاتا تو لکڑی کے ٹکڑوں سے کھیلنا شروع کر دیتا یا ان سے مختلف چیزیں مثلا تلوار کلہاڑا یا اس طرح کی دیگر اشیاء بناتا رہتا ۔گھر والے بھی میرے کام میں دلچسپی دیکھتے ہوۓ میری حوصلہ افزاٸی کرتے رہے جس کے نتیجے میں میرے کام میں دن بدن نکھار آتا گیا ۔پھر میرے والد نے میرا کام اور دلچسپی دیکھتے ہوٸے گھر کے ایک کمرے میں ہی میرے لیے ایک ورکشاپ بنا دی جس میں میں اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرتا رہتا۔اور جب لوگوں نے خاص طور پر باہر سے آنے والے سیاح میرے ہاتھ کی بنی ہوٸی چیزیں دیکھتے تو انہیں بہت پسند آتیں اور وہ اکثر اپنی مرضی سے بہت مناسب قیمت پر یہ اشیاء خرید لیتے۔
رحمت ولی کیمطابق ایک تصویر یا مجسمہ پر اس کی نوعیت کے لحاظ سے وقت لگتا ہے جو کم از کم پندرہ دن یا کسی پر مہینہ بھی لگ سکتا ہے ۔اسی طرح کام کے لحاظ سے ان کی قیمتیں بھی مختلف ہوتی ہیں ۔
ان کے بقول وہ اپنے ہنر کے زریعے اپنی کیلاش تہذیب کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں اور جب لوگ میرے کام کی تعریف کرتے ہیں یا میری حوصلہ افزاٸی کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہوں۔